انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حجیتِ حدیث دلائل کے آئینے میں یہ حقیقت ہے کہ حدیثِ رسول کوشریعتِ اسلامی میں قرآنِ کریم کے بعد دوسرے درجہ کی مآخذ کی حیثیت حاصل ہے، حدیث رسول کی شرعی اعتبار سے یہ آئینی اور دستوری حیثیت دورِ اوّل ہی سے مسلم اور غیرمختلف فیہ رہی ہے، ادھرچند صدیوں سے مستشرقین اور ان کے متبعین اس ذہنیت کوپروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حدیثِ رسول حجتِ شرعیہ نہیں؛ چنانچہ ان کے دامِ فریب میں آکر بہت سے بے شعور، لاعلم اور کوتاہ فہم اور مغربی ذہنیت سے متاثر مسلمان بھی حدیثِ رسول کی دستوری اور تشریعی حیثیت کا انکار کرنے لگے؛ انہوں نے اپنے آپ کو اہلِ قرآن کے نام سے موسوم کیا؛ گرچہ انہوں نے حدیثِ رسول کوتاریخی اعتبار سے بالکل بے اصل نہیں کہا؛ بلکہ انہوں نے اسے محض بزرگوں کے ملفوظات اور پندونصائح کے درجے کی چیز قرار دیا، دراصل یہ منکرینِ حدیث نہیں؛ بلکہ یہ منکرینِ حجیتِ حدیث ہیں۔ منصبِ رسالت کی ذمہ داریاں یہاں سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جوپیغمبر یارسول من جانب اللہ مبعوث ہوتا ہے، اس کی حیثیت اور مقام کیا ہوتا ہے؟ کیا اس کا مقام محض سفیرِپیامبر اور ڈاکیے کا سا ہوتا ہے کہ جوخط یاپیغام پہونچا کراپنی ذمہ داری سے دستبردار ہوجاتا ہے، خط کے مندرجات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا؟ ایسا بالکل نہیں ہے جہاں نبی کی ذمہ داری اللہ کے پیغام کو پہونچانے کی ہوتی ہے وہیں کتاب اللہ کی توضیح وتشریح بھی اسی کے ذمہ ہوتی ہے، وہ کتاب اللہ کی تعلیم بھی دین اور اس کے مطالبات اور تقاضوں کے مطابق خود عملی نمونہ بن کرامت کی تربیت اور ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْبَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ۔ (آل عمران:۱۶۴) ترجمہ:حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پراحسان کیا جب ان میں سے ان ہی کی جنس سے ایک پیغمبر کوبھیجا وہ ان لوگوں کواللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کرسناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے ہیں اور ان کوکتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے ہیں؛ گرچہ وہ اس سے صریح غلطی پرتھے۔ اس آیتِ کریمہ میں منصبِ رسولﷺ کا فریضہ صرف تلاوتِ آیات، یعنی آیتوں کوپڑھ کرسنادینا ہی نہیں کہا گیا؛ بلکہ ساتھ ہی ساتھ تعلیم کتاب (یعنی کتاب اللہ کی مراد بتلانا) اور تعلیمِ حکمت (یعنی قرآن کریم کے غامض، اسرار ولطائف اور شریعت کے دقیق وعمیق علل پر مطلع کرنا) اور تزکیہ (یعنی ان کی عملی تربیت کرنا) یہ تمام چیزیں فریضۂنبوت قرار پائیں۔ رسول اللہﷺ کی لازمی اطاعت واتباع کا حکم نبی اپنے اس فریضہ سے کامل طور پراس وقت عہدہ برآہوسکتا ہے جب کہ اس کی تعلیمات خواہ زبانی ہویاعملی امت کے لیے واجب الاطاعت ہوں اور وہ آپ کواس کے عملی نمونہ تسلیم کرتے ہوئے آپ کی اتباع وپیروی کریں؛ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے کئی مواقع پرآپ کے ارشادات اور افعال کوحتمی حجت اور قابل عمل قرار دینے کے لیے آپ کی اطاعت (بات ماننا) اور اتباع (پیروی کرنے) کا حکم دیا ہے، قرآن کریم نے بے شمار مقامات پرپیغمبرﷺ کے اطاعت کو لازمی اور ضروری قرار دیا ہے اور اس اطاعتِ رسول اور بیشترمقامات پراطاعتِ رسول کواللہ کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے؛ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: (۱)قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَايُحِبُّ الْكَافِرِينَ۔ (آل عمران:۳۲) ترجمہ:کہہ دو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو؛ پھربھی اگرمنہ موڑوگے تواللہ کافروں کوپسند نہیں کرتا۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۲)وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ (آل عمران:۱۳۲) ترجمہ:اور اللہ اوررسول کی بات مانو؛ تاکہ تم سے رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۳)يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۔ (النساء:۵۹) ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جولوگ صاحب اختیار ہوں، اُن کی بھی؛ پھراگرتمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تواگرواقعی تم اللہ اور یومِ آخرت پرایمان رکھتے ہوتو اُسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو؛ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۴)وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ۔ (المائدۃ:۹۲) ترجمہ:اور اللہ کی اطاعت کرواور رسول کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے) بچتے رہو اوراگرتم (اس حکم سے) منہ موڑوگے توجان رکھو کہ ہمارے رسول پرصرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے (اللہ کے حکم کی) تبلیغ کردیں۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۵)يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ (الأنفال:۱) ترجمہ: (اے پیغمبر!) لوگ تم سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دوکہ مالِ غنیمت (کے بارے میں فیصلے) کا اختیار اللہ اور رسول کوحاصل ہے؛ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست کرلو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو؛ اگرتم واقعی مؤمن ہو۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۶)يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَاتَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ۔ (الأنفال:۲۰) ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسول کی تابع داری کرو اور اس (تابع داری) سے منہ نہ موڑو؛ جب کہ تم (اللہ اور رسول کے اَحکام) سن رہے ہو۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۷)وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ (الأنفال:۴۶) ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑانہ کرو؛ ورنہ تم کمزور پڑجاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو؛ یقین رکھو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۸)وَمَامَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّاأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَايَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّاوَهُمْ كُسَالَى وَلَايُنْفِقُونَ إِلَّاوَهُمْ كَارِهُونَ۔ (التوبۃ:۵۴) ترجمہ:اور ان کے چندے قبول کئے جانے میں رکاوٹ کی کوئی اور وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ کفر کا معاملہ کیا ہے اور یہ نماز میں آتے ہیں توکسمساتے ہوئے آتے ہیں اور (کسی نیکی میں) خرچ کرتے ہیں توبرا مانتے ہوئے خرچ کرتے ہیں۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۹)يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَاتُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ۔ (محمد:۳۳) ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کوبرباد نہ کرو۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) اس قسم کی بے شمار آیات ہیں جس میں اطاعتِ رسول کے ساتھ اللہ کی اطاعت دونوں یکجا طور پرذکر کی گئی ہیں، اس سے رسولﷺ کا واجب الاطاعت ہونا بخوبی معلوم ہوتا ہے؛ بلکہ فرمایا گیا: رسول کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ۔ (النساء:۸۰) ترجمہ:جورسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) رسول کی نافرمانی کے نتائج رسول کی اطاعت کی جس قدر تاکید کی گئی ہے، ایسے ہی عصیانِ رسول اور آپ کی نافرمانی اور حکم عدولی کوباعثِ عقاب وسزا بتلایا گیا اور یہاں پربھی رسول کی حکم عدولی کی سزاکواللہ کی نافرمانی کی سزا کے ساتھ ذکرکیا گیا ہے: وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا۔ (النساء:۱۴) ترجمہ:اور جوشخص اللہ اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) اور فرمایا گیا: وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ (الأنفال:۱۳) ترجمہ:اور اگرکوئی شخص اللہ اور اُس کے رسول سے دُشمنی مول لیتا ہے تویقیناً اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) اطاعتِ رسول کیوں ضروری ہے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا لازمی حکم اور آپ کی نافرمانی اورحکم عدولی کی سختی کا ذکر اس اہمیت کے ساتھ اس لیےکیا گیا ہے کہ اطاعتِ رسول ﷺ کےبغیر اللہ کی اطاعت بالکل ناممکن ہے؛ چونکہ اللہ عزوجل کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ وہ اپنے پیغامات انبیاء کے ذریعے ارسال فرماتے ہیں: وَمَاكَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّاوَحْيًا أَوْمِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْيُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَايَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ۔ (الشوریٰ:۵۱) ترجمہ: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اُس سے (رُوبرو) بات کرے؛ سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو؛ یاکسی پردے کے پیچھے سے؛ یاپھروہ کوئی پیغام لانے والا (فرشتہ) بھیج دے اور وہ اُس کے حکم سے جووہ چاہے وحی کا پیغام پہنچادے، یقیناً وہ بہت اُونچی شان والا، بڑی حکمت کا مالک ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) اس لیے فرمایا کہ: مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ۔ (النساء:۸۰) ترجمہ:جورسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) یعنی رسول کی اطاعت دراصل خدا کی اطاعت ہے، رسول کی یہ اطاعت اس لیے لازمی قرار دی گئی ہے کہ رسول کی یہ بات پیغمبرانہ حیثیت سے آسمانی وحی کی رہنمائی میں ہوتی ہے اور فرمایا گیا: وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَ إِلَّاوَحْيٌ يُوحَى۔ (النجم:۴،۳) ترجمہ:اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتےo یہ توخالص وحی ہے جوان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اتباع یعنی پیروی کرنا اور آپ کی اقتداء اور زندگی میں آپ کوعملی نمونہ بنانا، آپ کی اتباع کے وجوب کے حوالے سے بھی قرآن میں بے شمار آیتیں ہیں: (۱)ارشادِ خداوندی ہے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔ (آل عمران:۳۱) ترجمہ: (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگرتم اللہ سے محبت رکھتے ہو تومیری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۲)اور یہ بھی ارشادِ خداوندی ہے: فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔ (الأعراف:۱۵۸) ترجمہ:اورجواللہ پر اور اُس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُس کی پیروی کرو؛ تاکہ تمھیں ہدایت حاصل ہو۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۳)الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ۔ (الاعراف:۱۵۷) ترجمہ:جواُس رسول، یعنی نبی اُمی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے، جواُنھیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۴)لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَاكَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ۔ (التوبۃ:۱۱۷) ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے نبی پراور اُن مہاجرین اور انصار پرجنھوں نے ایسی مشکل کی گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا؛ جب کہ قریب تھا کہ اُن میں سے ایک گروہ کے دِل ڈگمگاجائیں؛ پھراللہ نے اُن کے حال پرتوجہ فرمائی، یقیناً وہ اُن کے لیے بہت شفیق، بڑا مہربان ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۵)يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ (الانفال:۶۴) ترجمہ:اے نبی! تمہارے لیے توبس اللہ اور وہ مؤمن لوگ کافی ہیں جنھوں نے تمہاری پیروی کی ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۶)رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ۔ (آل عمران:۵۳) ترجمہ:اے ہمارے رب! آپ نے جوکچھ نازل کیا ہے ہم اس پرایمان لائے ہیں اور ہم نے رسول کی اتباع کی ہے؛ لہٰذا ہمیں ان لوگوں میں لکھ لیجئے جو(حق کی) گواہی دینے والے ہیں۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۷)قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاوَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَاأَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔ (یوسف:۱۰۸) ترجمہ: (اے پیغمبر!)کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور جنھوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی اور اللہ (ہرقسم کے شرک سے) پاک ہے اورمیں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جواللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرارتے ہیں۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۸)وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ (ابراہیم:۴۴) ترجمہ:اور (اے پیغمبر!) تم لوگوں کواُس دن سے خبردار کرو جب عذاب اُن پرآن پڑے گا، تواُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں تھوڑی سی مدت کے لیے اور مہلت دے دیجئے؛ تاکہ ہم آپ کی دعوت قبول کرلیں اور پیغمبروں کی پیروی کریں (ُس وقت اُن سے کہا جائے گا کہ) ارے کیا تم لوگوں نے قسمیں کھا کھا کریہ نہیں کہا تھا کہ تم پرکوئی زوال نہیں آسکتا۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۹)وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّالِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّاعَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَاكَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ۔ (البقرۃ:۱۴۳) ترجمہ:اور (مسلمانو!) اسی طرح توہم نے تم کوایک معتدل اُمت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پرگواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے اور جس قبیلے پرتم پہلے کاربند تھے اُسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں؛ بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں پھرجاتا ہے؟ اور اس میں شک نہیں کہ یہ بات تھی بڑی مشکل؛ لیکن اُن لوگوں کے لیے (ذرابھی مشکل نہ ہوئی) جن کواللہ نے ہدایت دے دی تھی اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کوضائع کردے، درحقیقت اللہ لوگوں پربہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) ان تمام آیات سے اتباعِ رسول کی ضرورت واہمیت پرروشنی پڑتی ہے کہ کسی پیغمبر پرایمان رکھنے والےشخص کے لیے اس کی اتباع ہی راہِ ہدایت ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:۲۱) ترجمہ: تمہارے لیے اللہ کی رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ ان تمام مذکورہ بالا آیات سے اطاعت رسول واتباعِ رسول کی اہمیت (جوکہ دراصل اطاعتِ خداوندی ہی ہے)پرروشنی پڑتی ہے اس کوبجالانے کا طریقہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے پیغمبرانہ حیثیت سے جوکچھ ارشاد فرمایا ہے یاعمل کیا ہے اسے وحی خداوندی جانتے ہوئےعمل درآمد کیا جائے۔ وحی کے اقسام واحکام وحی کی قسمیں:وحی صرف قرآن ہی نہیں ہے؛ بلکہ وحی کی دوقسمیں ہیں، ایک متلو، یعنی جوکہ قرآنِ کریم کی صورت میں حضورﷺ پرنازل کی گئی (یعنی تلاوت کی جانے والی وحی) یہ قسم صرف قرآنِ کریم کی آیات پرمشتمل ہے اور قرآنِ کریم میں لفظ بہ لفظ موجود ہے۔ دوسری قسم وحی غیرمتلو: یہ وہ وحی ہے جورسول اللہﷺ پروقتا فوقتا روز مرہ کے پیش آنے والے واقعات کے بارے میں اللہ کی رضا کوبتلانے کے لیے نازل ہوتی تھی، اس کے ذریعہ قرآن کریم میں بیان کردہ اصولوں کی تفصیلات اور ان کی صحیح تشریح وتعبیر بھی سمجھائی جاتی تھی، وحی کی یہ قسم غیرمتلو (تلاوت نہ کی جانے والی وحی) کہلاتی ہے، یہ قسم لوگوں تک لفظ بلفظ نہیں پہونچائی گئی؛ بلکہ اس کے رسول کے ارشادات وافعال کے ذریعہ ظاہر کیا گیا۔ دوسری قسم کی وحی کا ثبوت قرآن سے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: لَاتُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِo إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُo فَإِذَاقَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُo ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔ (القیامۃ:۱۶/تا ۱۹) ترجمہ:اے پیغمبر! آپ قرآنِ پاک پراپنی زبان نہ ہلایا کیجئے؛ تاکہ آپ اس کوجلدی جلدی لیں، ہمارے ذمہ اس کا جمع کردینا اور اس کاپڑھوادینا، توجب ہم اس کوپڑھنے لگاکریں (یعنی ہمارا فرشتہ پڑھنے لگا کرے) توآپ اس کے تابع ہوجایا کیجئے؛ پھراُس کا بیان کردینا ہمارے ذمہ ہے۔ اس آیتِ کریمہ کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی توضیح وتشریح اپنی ذمہ لیتے ہوئے رسول اللہ سے وعدہ فرمایا کہ آپ سے قرآن کریم کی تشریح بیان کی جائے گی؛ یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تشریح وتوضیح قرآن کے علاوہ کوئی جداگانہ چیز نہ ہوگی، یہ قرآن کریم نہیں؛ بلکہ اس کا درجہ اس تشریح کا ہے؛ لہٰذا یہ چیز قرآن کریم سے کوئی جداگانہ شکل اور اس کے الفاظ سے علیحدہ اور ممتاز کوئی چیز ہو اور یہی وحی غیرمتلو ہے اور قرآن کریم میں نبی کریمﷺ کومخاطب کرکے فرمایا: وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَالَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا۔ (النساء:۱۱۳) ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ نے آپ پرکتاب اور علم کی باتیں نازل فرمائیں اور آپ کووہ باتیں بتلائیں ہیں جوآپ نہ جانتے تھے اور آپ پراللہ کا بڑا فضل ہے۔ اسی آیت میں نزولِ کتاب سے علیحدہ اور الگ اور مستقل نزول حکمت کا ذکر ہے یہ کتاب سے اضافی چیز ہے اور رسول اللہ پر اس کا نزول بھی ہوا ہے، آگے قرآن کریم بیان کرتا ہے: اور آپ کووہ باتیں بتلاتی ہیں جوآپ نہ جانتے تھے، یعنی اللہ عزوجل آپ پرکتاب اور حکمت ہی نہیں اس کے علاوہ وہ باتیں بھی آپ کوتعلیم فرمائیں جواس سے پہلے آپ نہ جانتے تھے،یہ تعلیم قرآن کریم کے ذریعہ یاوحی غیرمتلو کے واسطے سے ملنے والی تمام ہدایات کو شامل ہے۔ اور یہ واضح رہے کہ وحی کے نزول کے مختلف طریقے ہوتے تھے، جس کا ذکر آیتِ کریمہ میں ہے: وَمَاكَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّاوَحْيًا أَوْمِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْيُرْسِلَ رَسُولًافَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَايَشَاءُ۔ (الشوریٰ:۵۱) ترجمہ:اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمادے مگریاتوالہام سے یاحجاب کے پیچھے سے یاکسی فرشتہ کوبھیج کرکہ وہ خدا کے حکم سے جوخدا کومنظور ہوتا ہے پیغام پہونچادیتا ہے۔ قرآن کریم کے وحی کا نزول ان تینوں طریقوں میں سے تیسرے طریقہ پرہوا؛ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَo نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُo عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ۔ (الشعراء:۱۹۲ تا۱۹۴) ترجمہ:اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے اس کو امانت دار فرشتہ لے کرآیا ہے آپ کے قلب پرصاف عربی زبان میں تاکہ آپ من جملہ ڈرانے والوں کے ہوں۔ فرشتہ یعنی جبرائیل کے ذریعہ قرآن کے نزول کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ (البقرۃ:۹۷) ترجمہ:آپ کہیے کہ جوشخص جبرئیل سے عداوت رکھے سوانہوں نے یہ قرآن آپ کے قلب تک پہونچادیا ہے خداوندتعالی کے حکم سے۔ ان آیات سے پتہ چلا کہ قرآن کا نزول ایک فرشتہ کے ذریعہ ہوا ہے، جسے ایک آیت میں روح الامین اور دوسری آیت میں جبرائیل کہا گیا؛ لیکن اوپر مذکورہ آیت سے پتہ چلا کہ اس طریقے کے علاوہ بھی دواور طریقے نزولِ وحی کے تھے۔ وحی غیرمتلو کی چند مثالیں قرآن کریم سے اگرچہ وحی کی یہ قسم قرآن میں شامل نہیں ہے؛ لیکن قرآنِ کریم نہ صرف یہ کہ اکثروبیشتر اس کا حوالہ دیتا ہے؛ بلکہ اس کے مضامین کا انتساب بھی اللہ عزوجل کی طرف ہے، اس سے پتہ چلاکہ قرآن کریم کی وحی کے علاوہ ایک دوسری وحی بھی ہے جوکلام پاک کا جز نہ ہونے کے باوجود بھی وحی ہے، قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (۱)وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّالِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ۔ (البقرۃ:۱۴۳) ترجمہ:اور جس قبلے پرتم تھے اس کوہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون پیغمبر کے تابع ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔ اس آیت کریمہ کاپس منظر یہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، ابتدائی سترہ ماہ بیت المقدس کی جانب قبلہ رو ہونے کا حکم ہوا؛ پھرسترہ ماہ بعد قرآنِ کریم نے بیت المقدس کی جانب قبلہ روہونے کے حکم کومنسوخ کرکے مسلمانوں کے لیے مسجدِ حرام کوقبلہ قرار دیا اور اس طرف رُخ کرنے کا حکم ہوا؛ اسی کویوں ارشاد فرمایا گیا: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرۃ:۱۴۴) ترجمہ:آپ اپنے چہرے کومسجدِ حرام کا رُخ کرلیجئے۔ اب پہلی آیت ملاحظہ کیجئے اس میں بیت المقدس کوجومدنی زندگی کے ابتدائے ایام میں مسلمانوں کے لیے قبلہ قرار دیا گیا تھا، اس کی نسبت اللہ عزوجل نے اپنی طرف کی ہے کہ جس قبلہ پرتم تھے اس کوہم نے مقرر کیا تھا حالانکہ قرآن کریم میں شروع سے اخیر تک کہیں بھی اللہ عزوجل کی جانب سے بیت المقدس کوبطورِ قبلہ مقرر کیے جانے کا ذکر نہیں یہ حکم خود نبی اکرمﷺ نے قرآن کی کسی آیت کے حوالہ کے بغیر دیا تھا، اس کے باوجود قرآن کریم اس کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف کرتا ہے، اس سے پتہ چلا کہ سابق حکم بھی ایسی وحی پرمبنی تھی جوقرآن کے علاوہ تھی، آگے اللہ عزوجل فرماتے ہیں: تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اس قسم کے احکامات کے حوالہ سے نبی کریمﷺ کی پیروی کرتا ہے اور کون روگردانی کرتا ہے۔ (۲)أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَاكَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۔ (ابقرۃ:۱۸۷) ترجمہ:روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک میں اور تم ان کی پوشاک ہو، خدا کومعلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے؛ سواس نے تم کومعاف کیا اور تمہاری حرکات سے درگذر فرمائی، اب (تم کواختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور خدا نے جوچیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے اس کو(خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیؤ؛ یہاں تک کہ صبح کی سفیددھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے؛ پھرروزہ رات تک پورا کرو۔ اس آیتِ کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کے حوالے سے ایک حکم یہ بھی تھا کہ اگرکوئی مسلمان رمضان کی رات میں کچھ دیر کے لیے بھی سوجاتا تواس کے لیے پھر کھانے پینے اوربیوی سے ہم بستری کی اجازت نہ ہوتی تھی؛ حالانکہ وہ اس وقت روزے کی حالت میں نہیں ہوتا تھا، بعض لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور سونے کے بعد بیویوں سے ہم بستری کرلیا تواللہ عزوجل نے اس حکم کی خلاف ورزی پراوّلاً توعتاب کا اظہار کیا اور پھراس کے منسوخ ہونے اور سونے کے بعد سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے تک بیویوں سے ہم بستری کی اجازت کا حکم دیا؛ اس سے پتہ چلا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے رمضان کی راتوں میں سونے کے بعد بیویوں سے ہم بستری منع تھی یہ حکم بھی کوئی واجب الاطاعت ذات کی طرف سے تھا اور یہ ذات رسول کی تھی اور یہ بھی وحی جس کوقرآن کے ذریعہ منسوخ کیا گیا اور یہ وحیٔ غیرمتلو تھی۔ (۳)ایک بار رسول اللہﷺ نے اپنی ازواج میں سے کسی کوکوئی راز کی بات بتائی توانہوں نے اس کا اظہار کسی کے سامنے کیا، آپ کوجب اس افشائے راز کا علم ہوا توآپ نےاپنی بیوی سے اس کی وضاحت طلب کی توانہوں نے کہا کہ اس کی اطلاع آپ کوکیسے ہوئی؟ توآپ نے فرمایا: مجھے اس کی اطلاع اللہ عزوجل نے دی ہے: وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ (التحریم:۳) ترجمہ:اور جب کہ پیغمبر نے اپنی کسی بی بی سے ایک بات چپکے سے فرمائی؛ پھرجب اس بی بی نے وہ بات بتلادی اور پیغمبر کواللہ تعالیٰ نے اس کی خبر کردی توپیغمبر نے تھوڑی سی بات توبتلادی اور تھوڑی سے بات کوٹال گئے؛ سو جب پیغمبر نے اس بی بی کووہ بات بتلائی، وہ کہنے لگی کہ آپ کواس کی کس نے خبر کردی، آپ نے فرمایا: مجھ کوبڑے جاننے والے، خبررکھنے والے (یعنی خدا) نے خبرکردی۔ اللہ عزوجل نے پیغمبر کوجوافشائے راز کی اطلاع دی ہے اس کا ذکر سارے قرآن میں کہیں نہیں ہوا یہ قرآن کے سوا ایک اور قسم کی وحی وحیٔ غیرمتلو کے ذریعہ ہوا تھا۔ (۴)نبی کریمﷺ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کواپنا متبنیٰ بنایا تھا اور ان کا نکاح زینب بنتِ جحش سے کروادیا تھا ان دونوں کے درمیان نباہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی، زمانۂ جاہلیت میں متبنیٰ تمام احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا،زمانۂ جاہلیت کے اس تصور کوختم کرنے کے لیے اللہ عزوجل نے رسول اللہﷺ کوحضرت زینب کے زید سے طلاق ہونے کے بعد نکاح کا حکم دیا اور متبنیٰ کی مطلقہ سے نکاح کوزمانۂ جاہلیت کے رواج کے مطابق معیوب سمجھا جاتاتھا، آپ اس بارے میں متردد رہے؛ پھرقرآن کریم میں واضح حکم نازل ہونے کے بعد نکاح فرمایا، اس واقعہ کوقرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے: وَإِذْتَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَااللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَايَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَاقَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا۔ (الأحزاب:۳۷) ترجمہ:اور جب آپﷺ اس شخص سے فرمارہے تھے جس پراللہ نے بھی انعام کیا اور آپ نے بھی انعام کیا کہ اپنی بی بی کواپنی زوجیت میں رہنے دے اور خدا سے ڈر اور آپ اپنے دل میں وہ چھپائے ہوئے تھے جس کواللہ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں سے اندیشہ کرتے تھے اور ڈرنا توآپ کوخدا ہی سے زیادہ سزاوار ہے؛ پھرجب زید کاان سے جی بھرگیا، ہم نے آپ سے اُس کا نکاح کردیا؛ تاکہ مسلمانوں پراس کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کچھ تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنا جی بھرلیں اور خدا کا یہ حکم توہونے والا ہی تھا۔ اس آیت میں اللہ عزوجل نے زید کے طلاق دینے اور زینب کے آپ کے نکاح میں آنے کی پیشگی اطلاع کا ذکر ہے؛ لیکن آپ شرم وحیاء کے باعث اس کا اظہار نہیں کرتے تھے اور جب زید نے اس بارے میں آپ سے مشورہ کیا توآپ نے انھیں نباھنے اور طلاق نہ دینے کی رائے دی، آپ کومن جانب اللہ اس سارے پیش آنے والے معاملے کی اطلاع پہلے ہی ہوچکی تھی؛ مگراس کا ذکر کہیں بھی قرآن میں نہیں، لازماً یہ خبرحضورﷺ کووحی غیرمتلو سے ہوئی تھی،اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ پیغمبروقانون ساز یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ نبی کریمﷺ کی اطاعت اور آپ کی اتباع کا جو حکم دیا گیا ہے یہ آپ کی پیغمبرانہ شان کی وجہ سے دیا گیا ہے نہ کہ حاکم وسربراہِ وقت کی حیثیت سے؛ کیونکہ جہاں بھی قرآن میں حضوراکرمﷺ کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا ہے وہاں رسول کی اطاعت اور رسول کی اتباع کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی اطاعت بحیثیتِ پیغمبر ہی لازم ہے اور ایک آیت میں رسول کی اطاعت احکام کی اطاعت سے علیحدہ اور ممتاز کرکے بیان کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بحیثیت پیغمبربھی اور بحثیت حاکم اطاعت لازم ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔ (النساء:۵۹) ترجمہ:اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جوکوئی اہلِ حکومت ہیں ان کا۔ جب آنحضرتﷺ کی اطاعت کا حکم آپ کے پیغمبر اور رسول ہونے کی حیثیت سے دیا گیا توآپ کے بعد کوئی پیغمبر آنے والا نہیں؛ اس لیے آپ کی اطاعت تاقیامت واجب ہوگی، آپﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت سے جواطاعت وفرمانبرداری ضروری ہے وہ آپ کے بحیثیت قانون ساز یعنی قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین کے علاوہ دیگر قوانین بنانے کا بھی (جوظاہر ہے کہ وحی غیرمتلو پرمبنی ہوئے تھے) اختیار ہے اسی کوفرمایا: (۱)قَاتِلُوا الَّذِينَ لَايُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَابِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَايُحَرِّمُونَ مَاحَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ۔ (التوبۃ:۲۹) ترجمہ:لڑو ان اہلِ کتاب سے جونہ خدا پرایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کوحرام سمجھتے ہیں جن کوخدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے حرام بتلایا۔ اور ایک جگہ ارشادِ خداوندی ہے: (۲)وَمَاكَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَامُؤْمِنَةٍ إِذَاقَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًاأَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا۔ (الأحزاب:۳۶) ترجمہ:اورکسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کوگنجائش نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں کہ ان مؤمنین کوان کے اس کام میں کوئی اختیاررہے۔ ان دونوں آیتوں سے پتہ چلا کہ جوکچھ بھی اللہ اور اس کے رسول ناجائز اور غیرقانونی قرار دیں اسے ناجائز اور غیرقانونی تسلیم کیا جائے، مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کوناجائز ٹھہرانے کا اختیار صرف ذاتِ خداوندی تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ رسول کا بھی فریضہ ہے کہ وہ خدا کی رضا سے اس اختیار کواستعمال کریں (اور یہ وحیٔ غیرمتلو کے ذریعے حاصل ہونے والا اختیار تھا)۔ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: (۳)وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔ (الحشر:۷) ترجمہ:اور رسول تم کوجوکچھ دے دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے تم کوروک دیں تم رک جایا کرو۔ اگرچہ اس آیت کا سیاق وسباق جنگ کے بعد مالِ غنیمت کی تقسیم سے متعلق ہے؛ لیکن قرآن کریم کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی خاص واقعہ سے متعلق کوئی آیت نازل ہوتی ہے اور اس کے الفاظ اسی واقعے سے متعلق نہیں ہوتے؛ بلکہ عام ہیں توان کا عمومی مفہوم ہی مراد لیا جائے گا اور اس آیت کا اطلاق محض اسی واقعے تک محدود نہیں رہے گا؛ اسی اجماعی اور مسلمہ اصول کومدنظر رکھتے ہوئے یہ آیت رسول اللہﷺ کے بارے میں ایک عمومی قاعدہ بیان کرتی ہے کہ آپ کسی معاملے میں جوکچھ فیصلہ دیں وہ آپ کے متبعین کے لیے بھی واجب التعمیل ہے اور جس بات سے آپ منع فرمائیں وہ ان کے لیے غلط اور قابل اجتناب ہے۔ پیغمبر کے اختیارات بحیثیتِ مفسرِقرآن دوسری قسم کا اختیار جونبی کریمﷺ کوسونپا گیا ہے وہ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح کی ہے، قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل:۴۴) ترجمہ:اور آپ پربھی قرآن اُتارا ہے، تاکہ جومضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کوآپ ان سے ظاہر کردیں اور تاکہ وہ فکر کیا کریں۔ یہاں اس آیت میں واضح طور پریہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر اور آپ پرنازل ہونے والی وحی کی تشریح رسول اللہﷺ کا بنیادی منصب ہے؛ چونکہ خود عرب نہایت فصیح اللسان اور بلیغ البیان تھے، زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں اور اس کے قواعد وضوابط سے بخوبی واقف تھے، ان کی اثرانگیز شاعری، بلیغ تقاریر اور فصیح وبلیغ جملے آج بھی عربی ادب کا شاہکار اور اس کا خاص سرمایہ ہیں اس لیے صرف قرآن کے ترجمے اور اس کے لفظی مفہوم کوسمجھنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا؛ لہٰذا قرآن کی تبیین وتوضیح سے جومنصب اور ذمہ داری نبی کریمﷺ کوسونپی گئی ہے وہ صرف معانی اور لفظی مفاہیم کی وضاحت نہیں ہے؛ چونکہ عرب کے لیے ان کی زبان دانی کے لحاظ سے یہ کوئی مشکل چیز نہیں تھی؛ بلکہ اس کے تمام مستنبط نتائج اور مطلوب ضروری تفصیلات کوبتلانا تھا، یہ ضروری تفصیلات حضورﷺ کووحی غیرمتلو کے ذریعہ پہونچائی گئی، قرآن کریم نے صاف کہا ہے: ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔ (القیامۃ:۱۹) ترجمہ:پھراس کا بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی جانب سے کتاب اللہ کی جوتفسیر کی گئی ہے وہ خود اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ تشریح ہے، لوگ اپنی من مانی، من چاہی تفسیر کوتودرست اور حضورﷺ کی تفسیر وتوضیح کو کوئی حیثیت دینےکو تیار نہیں ہوتے۔ پیغمبری تفسیر کے چند نمونے یہاں نبی کریمﷺ کے قرآنی تفسیر کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں: (۱)نماز اسلام کاایک اہم اور بنیادی رکن ہے، قرآن کریم میں ۷۳/سے زائد مقامات پرنماز قائم کرنے کی تاکید کی گئی ہے؛ لیکن اس تاکید کے باوجود سارے قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں نمازکے مکمل ترکیب وطریقے کوبیان کیا گیا ہو، یہ صورت محض اتفاق سے اور کسی حکمت کے بغیر پیش نہیں آتی؛ بلکہ دانستہ طور پریہ نکتہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ سنت کی اہمیت کا پہلو روشن ہو۔ (۲)قرآن کریم میں نمازی سے متعلق یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ نماز کی ادائیگی صرف چند مخصوص اوقات ہی میں ہوسکتی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:۱۰۳) ترجمہ:یقینا نماز مسلمانوں پرفرض اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ بات توواضح ہے کہ چند ایک مقررہ اوقات ہی میں نماز کی ادائیگی کی جاسکتی ہے؛ لیکن وہ مقررہ و مخصوص اوقات کون سے ہیں؟ اس کی تفصیل قرآنِ کریم میں نہیں ملتی، رہی یہ بات کہ روز مرہ کے فرض نمازوں کی تعداد کیا ہے، قرآن کریم میں کہیں بھی ذکر نہیں کی، رسولﷺ کی سنت ہی کے ذریعہ ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ فرض نمازوں کی روز مرہ کی تعداد پانچ ہے اور وہ فلاں فلاں وقت میں ادا کی جاسکتی ہیں، اس طرح ہرنماز میں رکعات کی تعداد اور سنتوں کی تفاصیل بھی احادیثِ رسول ہی کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں۔ (۳)ایسے ہی اسلام کے دوسرے اور اہم رکن زکوٰۃ کے حوالے سے بھی اکثراوقات قرآن کریم نماز کے ساتھ اس کا بھی تاکیدی ذکر کرتا ہے، زکوٰۃ کا حکم قرآن کریم میں تیس مقامات پر وارد ہوا ہے؛ لیکن یہ بتلایا نہیں گیا کہ زکوٰۃ کس پر فرض ہے، اس کی ادائیگی کس شرح سے کی جائے، کن سامانوں پر زکوٰۃ واجب ہے؛ اگرحضوراکرمﷺ کی سنت کونظرانداز کردیا جاتا ہے تویہ تمام تفصیلات تشنہ طلب رہ جائیں گی۔ (۴)اسلام کے چوتھےستون حج کے بارے میں قرآن کریم نے حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا۔ (آل عمران:۹۷) ترجمہ:اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے (یعنی)اس شخص کے ذمہ جوکہ طاقت رکھے وہاں تک جانے کی۔ یہاں یہ بات نہیں بتلائی گئی کہ کس شخص پر حج کتنی دفعہ فرض ہے، اس کی تشریح رسول اللہﷺ ہی نے بیان فرمائی کہ عمربھر میں ایک بار حج کی ادائیگی سے فریضہ حج ادا ہوجاتا ہے۔ (۵)کتاب اللہ میں فرمایا گیا ہے: الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ۔ (المائدۃ:۵) ترجمہ:آج تمہارے لیے حلال چیزیں حلال رکھی گئیں۔ یہاں حلال چیزوں کی تفصیل بیان نہیں کی گئی، اسلامی قانون کی رو سے طیبات کی تفصیلی فہرست صرف رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی ہے، آپﷺ نے تمام ماکولات (کھانے کی چیزوں)، مشروبات (پینے کی چیزوں) کی فہرست بیان کی ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں؛ یہاں پرپیش کردہ چند مثالیں غالباً اس بات کے سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ رسول اللہﷺ کی پیش کردہ قرآن کی تشریحات کی کیا حیثیت ہے اور مسلمانوں کوقرآن کریم کے پیش کردہ اسلامی زندگی کے سانچے میں اپنے آپ کوڈھالنے کے لیے سنتِ رسول ﷺ کوکس درجہ کی اہمیت حاصل ہے۔ اِن تمام تفصیلات اور آیاتِ قرآنی اور اس کی توضیح وتشریح کی روشنی میں حدیث کی حجت اور شریعتِ اسلامی میں اس کی تشریعی وقانونی حیثیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔