انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ یویب حضرت فاروق اعظمؓ کو جب ابو عبیدہؓ بن مسعود ثقفی کی شہادت اور مسلمانوں کے نقصان عظیم کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے خاص اہتمام کے ساتھ ایرانیوں کے مقابلہ کی تیاریاں شروع کیں،قبائل کی طرف قاصد بھیجے اور لوگوں کو لڑائی کے لئے ترغیب دی ؛چنانچہ متعد د قبائل فاروق اعظم ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدینہ منورہ سے مثنی بن حارثہ کی امداد کے لئے عراق کی طرف روانہ کئے گئے حضرت مثنی نے بھی عراق عرب میں فوجی بھرتی جاری کرکے ایک نئی فوج عراق عرب کی مرتب فرمالی تھی۔ ان تیاریوں کا حال دوبارہ ایران کو معلوم ہوا تو وہاں سے رستم (ایران کا وزیر اعظم اوروزیرجنگ) نے مہران ہمدانی کو سالارجنگ بناکر بارہ ہزار انتخابی فوج کے ساتھ روانہ کیا،مہران کے انتخاب کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُس نے ملکِ عرب میں تربیت وپرورش پائی تھی، اوروہ اہل عرب اورعربی لشکر کی قوت کا صحیح اندازہ کر سکتا تھا،حضرت مثنیٰ نے مہران ہمدانی کی روانگی کا حال سُن کر اپنی تمام افواج کو دریائے فرات کے کنارے مقام بویب میں مجتمع کیا،مہران بھی بویب کے بالمقابل فرات کے دوسرے کنارے پہنچ کر خیمہ زن ہوا اور مثنیٰ بن حارثہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم خود دریائے فرات کو عبور کرکے اس طرف آؤ،یا ہم کو دریائے فرات کے عبور کرنے کا موقع دو، کہ ہم اُس طرف آکر صفوف آراستہ کریں،حضرت مثنیٰ چونکہ گزشتہ جنگ میں دریا کے عبور کرنے کا تلخ تجربہ دیکھ چکے تھے، لہذا انہوں نے جواباً کہلا بھیجا کہ تم ہی فرات کو عبور کرکے اس طرف آجاؤ ؛چنانچہ مہران اپنی تمام ایرانی افواج اورجنگی ہاتھیوں کو لے کر دریا کے اس طرف آیا اورسب سے آگے پیادوں کو رکھ کر ان کے پیچھے ہاتھیوں کی صفوں کو کھڑا کیا جن پر تیر انداز سوار تھے،داہنے بائیں سواروں کے دستے تھے ادھر سے اسلامی فوج بھی مقابلہ کے لئے صف بستہ ہوکر تیار ہوگئی،ایرانیوں نے حملہ کیا مسلمانوں نے ان کا بڑی پامردی اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا ،طرفین سے خوف خوب داد شجاعت دی گئی،بالآخر ایران کو مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی،جب ایرانیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا ،تو مثنیٰ بن حارثہؓ سپہ سالار اسلام نے دوڑ کر پل توڑ دیا تاکہ ایرانی بآسانی دریا کو عُبور کرکے نہ بھاگ سکیں،نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ایرانی قتل ہوئے اور بہت سے غرق دریا ہوئے،مہران ہمدانی میدان جنگ میں مارا گیا ایرانی لشکر کے تقریبا ایک لاکھ آدمی (بروایت ابن خلدون) اس لڑائی میں مقتول ہوئے اور مسلمانوں کے لشکر سے صرف سو آدمی شہید ہوئے،ایرانی لشکر سے جو بچ کر بھاگے اُن کا تعاقب مسلمانوں نے مقام ساباط تک کیا ،اس لڑائی کے بعد سواد سے دجلہ تک کا تمام علاقہ مسلمانوں کے قبضہ وتصرف میں آگیا یہ لڑائی ماہ رمضان ۱۳ھ میں ہوئی۔