انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمر فاروقؓ تعارف نام ونسب اورخاندان عمر نام،ابوحفص کنیت، فاروق لقب،والد کانام خطاب اوروالدہ کانام ختمہ تھا،پورا سلسلہ نسب یہ ہے:عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد الفری بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مسالک (اصابہ ج ۲ : ۵۱۸)عدی کے دوسرے بھائی مرہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں، اس لحاظ سے حضرت عمر ؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر مل جاتا ہے۔ حضرت عمر کاخاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا،آپ کے جدا علی عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہواکرتے تھے اورقریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلا بعد نسل چلے آرہے تھے،دادھیال کی طرح حضرت عمر ؓ نانہیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے،آپ کی والدہ ختمہ،ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔ (عقد الفرید باب فضائل العرب) حضرت عمر ؓ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیس برس پہلےپیدا ہوئے، ایام طفولیت کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛بلکہ سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں،شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً رائج تھے،یعنی نسب دانی،سپہ گری،پہلوانی اورخطابت میں مہارت پیدا کی،خصوصاً شہسواری میں کمال حاصل کیا،اسی زمانہ میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ بھی تھے۔ (استیعاب تذکرہ عمر بن الخطاب ؓ) تعلیم وتعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے ،عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ ترتجارت تھا، اسلئے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اسی سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا، اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے،آپ کی خودداری بلند حوصلگی،تجربہ کاری اورمعاملہ فہمی اسی کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بنا پر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کردیاتھا، قبائل میں جب کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم وتدبر اورتجربہ سے اس عقدہ کو حل کرتے تھے۔ (فتوح البلدان بلاذری : ۴۷۷) حضرت عمر ؓ کا ستائیسواں سال تھا کہ ریگستان عرب میں آفتاب اسلام روشن ہوا اورمکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی،حضرت عمر ؓ کے لئے یہ آواز نہایت نامانوس تھی اس لئے سخت برہم ہوئے،یہاں تک کہ جس کی نسبت معلوم ہوجاتا کہ یہ مسلمان ہوگیا ہے اس کے دشمن بن جاتے،ان کے خاندان کی ایک کنیز بسینہ نامی مسلمان ہوگئی تھی، اس کو اتنا مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے، بسینہ کے سوا اورجس جس پر قابو چلتا زدوکوب سے دریغ نہیں کرتے تھے؛لیکن اسلام کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا، ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کرسکے۔ اسلام اور ہجرت