انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۔احنف بن قیس نام ونسب ضحاک نام،ابو بحرکنیت،عرفی نام احنف ہے،اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ احنف کے پیروں میں خلقی کجی تھی،عربی میں اس کو حنف کہتے ہیں،اس لیے وہ احنف مشہور ہوگئے نسب نامہ یہ ہے احنف ابن قیس بن معاویہ بن حصین بن حفص بن عباد ہ بن نزال بن مرہ بن عبید بن مقاعس بن عمرو بن کعب ابن سعد بن زید مناۃ بن تمیم کے سرداروں میں تھے۔ عہد رسالت احنف عہد رسالت میں موجود تھے،ابن عمادحنبلی کے بیان کے مطابق وہ اسی عہد میں مشرف باسلام ہوئے اوران کا قبیلہ انہی کی تحریک پر اسلام لایا (شذرات الذہب :۱/۷۸) لیکن اورتمام ارباب طبقات ورجال کا بیان اس کے خلاف ہے ؛چنانچہ ابن سعد نے ان کے حالات تابعین ہی کے زمرہ میں لکھے ہیں، حافظ ابن عبدالبر بھی جنہوں نے احتیاطاً ان کے حالات صحابہ کے زمرہ میں اس لیے لکھ دیئے ہیں کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کا زمانہ پایا تھا،مگر شرف دیدار سے محروم رہے، تابعین ہی میں شمار کرتے ہیں (استیعاب :۱/۵۵) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا مگراس وقت اسلام نہیں لائے۔ (تہذیب التہذیب :۱/۱۹۱) جس روایت سے ان کے اسلام کا نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو قبیلہ بنی سعد (احنف کا قبیلہ) میں تبلیغ اسلام کے لیے بھیجا،انہوں نے جاکر اسلام پیش کیا احنف بھی موجود تھے،انہوں نے اسلامی تعلیمات سن کر کہا کہ یہ شخص بھلائی کی طرف بلاتا ہے اوراچھی باتیں سناتا ہے،مبلغ صحابی نے جاکر یہ واقعہ آنحضرتﷺ سے بیان کیا آپ نے سن کر دعا فرمائی کہ خدایا احنف کی مغفرت فرما۔ (ابن سعد،ق۱:۷/۶۶) لیکن اولاً اس روایت کی صحت محل نظر ہے؛ لیکن اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس میں اسلام کی کوئی تصریح نہیں،اس سے صرف اسی قدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ حق شناس تھے اوران کے دل میں قبولِ حق کا مادہ موجود تھا،آپ نے یہ دعا ان کی حق شناسی پر فرمائی تھی اوراگر بالفرض اسلام بھی مان لیا جائے تو آنحضرتﷺ کو دیکھنا ،آپ سے ملنا،آپ کی صحبت اٹھانا توقطعی ثابت نہیں،جو صحابیت کےلیے ضروری ہے،لیکن ان کا یہی شرف کیا کم ہے کہ وہ اسلام سے پہلے بھی حق شناس تھے اور ان کو آنحضرت ﷺ اوراسلام سے کوئی عناد نہ تھا۔ اسلام قیاس یہ ہے کہ وہ شیخین کے زمانہ میں کسی وقت اسلام سے مشرف ہوئے۔ عہد فاروقی حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ کو قبیلہ بنی تمیم کے ساتھ سوظن تھا، اس لیے آپ اکثر اس کی مذمت کیا کرتے تھے،ایک مرتبہ احنف کی موجودگی میں بنی تمیم کا کچھ تذکرہ آیا،آپ نے حسب معمول اس کی مذمت کی،احنف نے کہا آپ نے بلا استثنا پورے قبیلہ بنی تمیم کی برائی کی؛حالانکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں،ان میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہیں،حضرت عمرؓ نے سچی بات سن کر فرمایا تم نے سچ کہا اورذکر خیر سے گذشتہ مذمت کی تلافی فرمائی،احنف کے بعد اسی قبیلہ کے ایک اورآدمی حتات نے کچھ کہنا چاہا،مگر حضرت عمرؓ نے روک دیا کہ تم بیٹھ جاؤ ،تمہاری جانب سے تمہارے سردار فرض ادا کرچکے۔ حضرت عمرؓ کی صحبت اگرچہ حضرت عمرؓ نے احنف کی اصولی بات کی وجہ سے اس کا اعتراف کرلیا تھا،لیکن ان کے قبیلہ کے ساتھ ان کو سؤ ظن تھا،اس لیے بہ تقاضائے احتیاط احنف کی سیرت کا اندازہ لگانے کے لیے اُن کو ایک سال تک اپنے ساتھ مدینہ میں رکھا اورتجربہ کے بعد ان سے کہا کہ میں نے ایک سال تک تمہارا تجربہ کیا،مجھ کو تم میں بھلائی کے سوا اورکوئی قابل اعتراض شے نظر نہ آئی تمہارا ظاہر اچھا ہے ،امید ہے کہ باطن بھی اچھا ہوگا،میں نے یہ اس لیے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نےہم لوگوں کو بتایا تھا کہ اس امت کی ہلاکت باخبر منافقین کے ہاتھوں ہوگی۔ ابوموسیٰ اشعریؓ والی بصرہ کو احنف کے بارہ میں حضرت عمرؓ کی ہدایت اس تجربہ کے بعد حضرت عمرؓ کو جب ان پر کامل اعتماد ہوگیا تو انہیں ان کے وطن بصرہ واپس کردیا اور ابو موسیٰ اشعریؓ والی بصرہ کو ہدایت کردی کہ ان کو اپنے ساتھ رکھنا،ان سے مشورہ لینا اوران کے مشوروں اورہدایتوں پر عمل کرنا (ابن سعد،ق۱ ،:۸/۶۶)احنف اہل بصرہ کے سردار تھے،حضرت عمرؓ کے اس حکم کے بعد سے احنف کے مراتب روز بروزبلند ہونے لگے۔ (اسد الغایہ:۱/۵۵) فارس کی مہم میں شرکت اس وقت ایران پر فوج کشی ہوچکی تھی،بصرہ واپس جانے کے بعد احنف اس میں شریک ہوئے؛چنانچہ ۱۷ھ میں فارس کی مہم میں نظر آتے ہیں۔ (ابن اثیر:۲/۴۴۰) اہل بصرہ کی نمائندگی احنف بڑے عاقل ومدبر تھے،اس لیے قومی وملکی مہمات میں ان کا نام سرفہرست ہوتاتھا اوراکثر قوم کی نمایندگی کی خدمت اُن کے سپرد ہوتی تھی؛چنانچہ اسی زمانہ میں وہ بصرہ کے وفد میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ نے وفد سے اہل بصرہ کی شکایتیں اورضرورتیں پوچھیں احنف نے جو ضروریات تھیں وہ پیش کیں،حضرت عمرؓ نے اُن کی تقریر بہت پسند کی اورخاندانِ کسری کی بعض مفتوحہ جاگیریں انہیں عطا کیں اور والی بصرہ کو لکھ بھیجا کہ وہ انتظامی امور میں احنف سے صلاح و مشورہ کیا کریں اوران پر عمل کیا کریں (ایضاً:۲/۲۲۴،۲۲۵) پھرا ہواز کی فتح کے بعد مشہور ایرانی افسر ہرمزان کو جس نے خوزستان کی مہم میں سپرڈال دی تھی،لے کر مدینہ آئے۔ ایران پر عام فوج کشی کا مشورہ اس وقت عراق فتح ہوچکا تھا،لیکن ایران پر عام فوج کشی نہ ہوئی تھی اور مفتوحہ علاقے بار بار باغی ہوجاتے تھے،اسی زمانہ میں مجاہدین کا وفد مدینہ آیا ،حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ ایرانی بار بار باغی کیوں ہوجاتے ہیں، معلوم ہوتا ہے مسلمان انہیں ستاتے ہیں مسلمانوں نے اس کی تردید کی،لیکن کوئی حضرت عمرؓ کے سوال کا تشفی بخش جواب نہ دے سکا،احنف کا دماغ نہایت نکتہ رس تھا،یہ اصل تہ تک پہنچ گئے،انہوں نے کہا،اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر المومنین نے مسلمانوں کو ایران کے اندرون ملک فوج کشی سے روک دیا ہے اورسلطنت کا وارث تاج وتخت ملک میں موجود ہے،جب تک وہ باقی رہے گا ایرانی اس کے سہارے پر برابر بغاوت کرتے رہیں گے؛کیونکہ ایک ملک میں دوحکومتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں، ایران کا بادشاہ ایرانیوں کوابھارتا رہتا ہے،اس لیے جب تک ہم لوگ ایران کے اندر فوج کشی کرکے اس کو ختم نہ کردیں گے اس وقت تک ایرانیوں کی یہی روش رہے گی،جب وہ لوگ اپنی حکومت سے بالکل مایوس ہوجائیں گے اس وقت خاموش ہوں گے، حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر کو سن کر فرمایا تم سچ کہتے ہو اوران کے مشورہ کے مطابق ایران پر عام فوج کشی کے انتظامات شروع کردیئے اور ہر ہر صوبے پر علیحدہ علیحدہ فوجیں روانہ کیں۔ (ابن اثیر:۲/۴۳۹،۴۴۰) یزدگرد کااستیصال چونکہ یزدگرد کے استیصال کا مشورہ احنف ہی نے دیا تھا اور وہ اپنے دل و دماغ کے لحاظ سے اس مہم کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے، اس لیے خراسان کی مہم جہاں یزد گرد پناہ گزیں تھا، حضرت عمرؓ نے انہی کے سپرد کی،یہ ۲۲ھ میں خراسان کی طرف بڑھے اورطبسین ہوکر ہرات پہنچےاور اس کو فتح کرکے مرد شاہجہاں کا جہاں یزد گرد مقیم تھا رخ کیا،وہ ان کی پیش قدمی کی خبر سن کر مروالروز چلا گیا یہاں پہنچ کر خاقان چین اوردوسرے سرحد ی حکمرانوں کو مدد کے لیے خطوط لکھے،یزد گرد کے مروالروز جانے کے بعد احنف مرد شاہجہاں میں حارثہ بن نعمان باہلی کو چھوڑ کر مرد کی طرف بڑھے،ان کا رخ دیکھ کر یزد گردیہاں سے بھی بھاگا اوربلخ پہنچا،اس دوران میں کوفہ سے تازہ دم امداد ی فوجیں آگئیں،احنف نے انہیں لے کر بلخ پر حملہ کردیا ،یزد گرد شکست کھاکر دریاپارخاقان کے حدود حکومت میں چلا گیا،اس کے بعد احنف نے خراسان کے تمام علاقوں میں فوجیں پھیلادیں خراسانی نہیں نہ روک سکے اور نیشا پور سے طخارستان تک کا پورا علاقہ صلحاً فتح ہوگیا اور احنف نے مروالروذواپس ہوکر حضرت عمرؓ کو فتح کا مژدہ لکھا، آپ فتوحات کا دائرہ ایران سے آگے نہیں بڑھانا چاہتے تھے،اس لیے دریا پار پیش قدمی کرنے سے روک دیا۔ یزد گرد کے حدود چین میں داخل ہونے کے بعد خاقان چین نے اس کی بڑی پذیرائی کی اورایک لشکر جرار کے ساتھ اس کی مد د کے لیے خراسان پہنچا اورسیدھا بلخ کی طرف بڑھا بلخ کی اسلامی فوجیں احنف کے ساتھ مروالروزواپس جاچکی تھیں اس لیے یزد گرد اورخاقان دونوں بلخ ہوتے ہوئے مرو کی طرف بڑھے،یزد گرد مروشاہجہاں جہاں اس کا خزانہ تھا،چلاگیا احنف اوریزدگرد کا مقابلہ ہوا،احنف نے پہاڑ کے دامن میں صف آرائی کی فریقین میں عرصے تک صبح شام معمولی جھڑپ ہوتی رہی،ایک دن احنف خود میدان میں نکلے،خاقان کی فوج سے ایک بہادر ترک طبل اوردمامہ بجاتا ہوا ،مقابل میں آیا، احنف نے اس کا کام تمام کردیا ،اس کے بعد دو اوربہادر یکے بعد دیگرے مقابلہ میں آئے،مگر دونوں احنف کی تلوار کا لقمہ بنے،اس کے بعد ترکوں کا پورا لشکر آگے بڑھا،خاقان کی نظر لاشوں پر پڑی اس نے فال بدلی ،یزد گرد کی حمایت میں اس کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا اورمسلمانوں کو زیر کرنا بھی آسان نہ تھا، اس لیے اس نے کہا ہم کو یہاں آئے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں،ہمارے بہت سے نامور بہادر قتل ہوچکے ہیں،ہم کو ان لوگوں سے لڑنے میں کوئی فائدہ نہیں نظر آتا اورفوج کو کوچ کا حکم دے دیا۔ اس وقت یزد گرد مروشاہجہاں میں تھا،اس کو خاقان کی واپسی کی خبر ملی تو اس کی ہمت چھوٹ گئی اوراس نے خزانہ لے کر ترکستان نکل جانا چاہا،ایرانیوں نے اس کو اس ارادہ سے روکا اورکہا کہ ترکوں کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے اورنہ ان کے عہدو پیمان کا ہمیں کوئی تجربہ ہے مسلمان بہرحال صاحب مذہب اور عہد کے پابند ہیں،اس لیے اگر آپ کو ملک ہی چھوڑنا ہے تو مسلمانوں سے صلح کرلیجئے؛ لیکن یزدگرد نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ،ایرانیوں نےجب دیکھا کہ ان کے ملک کی دولت دوسرے ملک میں نکلی جارہی ہے،تو لڑکر یزدگردسے کل خزانہ چھین لیا اور وہ شکست کھا کر ترکستان چلا گیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک خاقان کے پاس مقیم رہا۔ یزدگرد کے ترکستان چلے جانے کے بعد ایرانیوں کا آخری سہارا بھی جاتا رہا اور انہوں نے مایوس ہوکر احنف سے صلح کرلی اوریزد گرد کا کل خزانہ ان کے حوالہ کردیا،احنف نے اُن کے ساتھ ایسا شریفانہ برتاؤ کیا کہ انہیں اس کا افسوس ہوا کہ وہ اب تک مسلمانوں کی حکومت سے کیوں محروم رہے۔ ایک پر اثر تقریب اس مصالحت کے بعد احنف نے حضرت عمرؓ کو فتح کی اطلاع بھجوائی اور مسلمانوں کو جمع کرکے ایک پر اثر تقریر کی،جواپنی اثر پذیری کے اعتبار سے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس بصیرت ہوسکتی ہے،تقریر یہ تھی۔ مسلمانو!آج مجوسیوں کی حکومت برباد ہوگئی اوراب ان کے قبضہ میں ان کے ملک کا ایک چپہ بھی باقی نہیں رہا کہ وہ مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچا سکیں،خدانے اب تم کو ان کی زمین،ان کے ملک اوران کے اہل ملک کا وارث بنایا ہے تاکہ تمہارا امتحان لے،اگر تم بدل گئے تو خدا بھی تمہاری جگہ دوسری قوم کو بدل دے گا،مجھے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں سے ان کی بربادی کا خوف ہے۔ (ابن اثیر :۳/۳۶،۲۹ ملحضاً) عہد عثمانی حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب ایران میں بغاوت ہوئی اورخراسان مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا،اس وقت احنف ہی نے فوج کشی کرکے دوبارہ اس پر قبضہ کیا۔ (ایضاً:۹۶،۹۹) خانہ جنگی سے اجتناب اورحضرت علیؓ کے ہاتھوں پر بیعت حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا اوراس وقت احنف نے اپنی تلوار میان میں کرلی؛چنانچہ جب حضرت علیؓ اورحضرت عائشہؓ میں اختلافات شروع ہوئے،اس وقت احنف نے جو مکہ میں تھےحضرت عائشہؓ،طلحہؓ اورزبیرؓ سے مل کر اصل حقیقت کا اندازہ کرکے حضرت علیؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی (ابن اثیر:۲/۱۹۵) لیکن جنگ میں کسی جانب سے حصہ نہ لیا(اخبار الطوال:۱۵۷) حضرت عائشہؓ نے بھی انہیں اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی لیکن اس وقت وہ بیعت کرچکے تھے۔ جنگ صفین میں شرکت البتہ جب حضرت علیؓ اورامیر معاویہؓ میں جنگ چھڑی ،اس وقت ان کی حق شناس تلوار میان میں نہ رہ سکی اورانہوں نے حضرت علیؓ کی حمایت میں نہایت پرجوش حصہ لیا اوراہل بصرہ کو ان کی امداد واعانت پر آمادہ کیا۔ (ایضاً:۱۷۶) جنگ صفین کے التواء پر جب تحکیم کا مسئلہ پیش ہوا اورحضرت علیؓ کی جانب سے ابو موسیٰ اشعریؒ کا نام لیا گیا،اس وقت احنف نے سخت مخالفت کی اورکہا آپ کو عرب کے مدبر اعظم سے سابقہ پڑا ہے ،ابو موسیٰ کا مجھ کو خوب تجربہ ہے،وہ اس اہم کام کے اہل نہیں ہیں اس کے لیے نہایت چالاک اور عاقل شخص کی ضرورت ہے اگر ہوسکے تو آپ مجھے حکم بنائیے اوراگر اس کے لیے صحابی ہونا ضروری ہے تو آپ کسی اورصحابی کو منتخب کیجئے اور مجھ کو اس کا مشیر بنائیے لیکن عراقی قوم کا فیصلہ ابوموسیٰؓ کے حق میں تھا، اس لیے حضرت علیؓ احنف کے خیر خواہانہ اورزرین مشورہ پر عمل پیرا نہ ہوسکے (ایضاً:۲۰۶) جنگِ صفین کے بعد خوارج پر فوج کشی میں بھی حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اورکئی ہزار اہل بصرہ کو آپ کی مدد کے لیے لے گئے۔ (ابن اثیر:۳/۴۱۴) امیر معاویہؓ کی اطاعت اورآزادی رائے حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کی خلافت تسلیم کرلی،لیکن اس وقت بھی انہوں نے آزادی اورحق گوئی کا جوہر قائم رکھا اورامیر معاویہؓ کی ہر جائز و ناجائز خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے؛بلکہ ان کے نزدیک ان کا جو فعل درست نہیں ہوتا تھا،اس پر نہایت جرأت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کرتے تھے،امیر معاویہؓ نے جب یزید کی ولیعہدی کے لیے تمام ممالک محروسہ سے وفود طلب کیے،تواحنف بھی بصرہ کے وفد کے ساتھ آئے ،امیر معاویہؓ نے ان سے بھی یزید کی ولیعہدی کے بارہ میں پوچھا انہوں نے کہا امیر المومنین آپ یزید کے شبانہ یوم کے مشاغل، اس کے ظاہر اورمخفی حالات،اس کے آنے جانے کے مقامات سے اچھی طرح واقف ہیں،اگر اس واقفیت کے بعد بھی آپ اس کو خدا اورامت محمدی کے لیے بہتر سمجھتے ہیں تو اس میں مشورہ کی ضرورت نہیں اور اگر بہتر نہیں سمجھتے ،تو ایسی حالت میں کہ آپ کو عنقریب آخرت کا سفر پیش آنے والا ہے یزید کو دنیا کا توشہ نہ دیجئے ،ورنہ یوں ہمارا فرض ہے کہ آپ جو کچھ فرمائیں ہم اُس کو بجالائیں۔ (ابن اثیر:۳/۴۲۱) امیر معاویہؓ پر ان کا اثر لیکن ان کی حق پرستی اورصاف گوئی کے باوجود امیر معاویہؓ ان کی بڑی قدر ومنزلت کرتے تھے اوربڑے بڑے عمال کو ان کے اشارہ پر معزول کردیتے تھے،عبید اللہ بن زیاد امیر معاویہؓ کے نہایت معتمد علیہ اوران عمال میں تھا جنہوں نے اموی حکومت کی بنیاد مستحکم کی تھی، اس کا طرز عمل احنف کے ساتھ پسندیدہ نہ تھا،۵۹ھ میں عبید اللہ چند عمائد کوفہ کے ساتھ جس میں احنف بھی تھے،امیر معاویہؓ کے پاس شام آیا،امیر معاویہؓ حسب معمول احنف کے ساتھ بڑے تپاک سے پیش آئے اور انہیں اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا دیا،عمائد بصرہ نے عبید اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے امیر معاویہ کے سامنے اُس کی بڑی تعریفیں کیں،احنف کی رائے ان سب کے خلاف تھی،اس لیے وہ خاموش رہے،امیر معاویہؓ نےپوچھا ابو بحر تم کیوں نہیں بولتے،انہوں نے جواب دیا، اگر میں بولوں گا تو قوم کی مخالفت ہوگی،ان کا خیال سن کر امیر معاویہ نے اسی وقت عبید اللہ کو معزول کردیا اوراہل بصرہ سے کہا تم لوگ جس والی کو پسند کرتے ہو اس کو پیش کرو، ان لوگوں نے امیر معاویہؓ کی خوشامد میں اموی خاندان اورشامیوں میں سے انتخاب کیا،احنف اس وقت بھی خاموش رہے اورکسی کو پیش نہیں کیا امیر معاویہؓ نے پیش کرنے والوں سے پوچھا تم نے کسے منتخب کیا؛چونکہ ان میں سے ہر شخص کا انتخاب جداگانہ تھا، اس لیے کسی ایک شخص پر اتفاق نہ ہوسکا احنف بالکل خاموش تھے ،امیر معاویہؓ نے ان سے کہا تم کیوں نہیں بولتے یہ منتخب کرنے والوں کارنگ دیکھ چکے تھے،اس لیے انہوں نے کہا اگر آپ کو اپنے خاندان والوں میں سے کسی کو والی بنانا ہے،تو ایسی صورت میں ہم عبید اللہ ہی کو ترجیح دیں گے اوراگر کسی تیسرے شخص کو بنانا ہو اس میں جو آپ کی رائے ہو، ان کا منشاء سن کر معاویہ نے عبید اللہ ہی کو برقرار رکھا اوراس کو احنف کے نظر انداز کرنے پر ملامت اورآیندہ ان کے ساتھ حسن عمل کی تاکید کی۔ (ابن اثیر:۳/۴۳۱) یزید کی خلافت امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد احنف نے یزید کی خلافت تسلیم کرلی ،حضرت امام حسینؓ جب یزید کے مقابلہ کے لیے اُٹھے تو احنف کو بھی امداد کے لیے خط لکھا (ابن اثیر:۳/۴۳۱) لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا اوریزید کی بیعت پر قائم رہے۔ ابن زبیرؓ کی حمایت: یزید کی موت کے بعد جب اموی حکومت میں انقلاب برپا ہوا اورعراق سے اموی حکومت اُٹھ گئی ،اس وقت بصریوں کی رہنمائی کرتے رہے، اس سلسلہ میں ان کے قبیلہ بنی تمیم اوربعض دوسرے قبائل میں کچھ ہنگامہ آرائیاں ہوئیں،پھر جب عراق عبداللہ بن زبیرؓ کے قبضہ میں آگیا،اس وقت احنف ان کے ساتھ ہوگئے،ان کے زمانہ میں بھی احنف کا قدیم اعزاز ووقار قائم رہا،ابن زبیرؓ کے حکام ان سے صلاح ومشورہ کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے؛چنانچہ جب عراق میں خوارج کا زور بڑھا اوراس کا اثر بصرہ تک پہنچا اس وقت احنف ہی کی تحریک سے مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صقرہ خوارج کے مقابلہ پر مامور کیے گئے۔ (ایضاً:۲۸۱) عبداللہ بن زبیرؓ کے دورخلافت میں مختار ثقفی نے جب عراق پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اس وقت احنف نے ابن زبیرؓ کی حمایت میں مختار کے داعی مثنیٰ کو عراق سے نکالا (ابن ثیر:۴/۲۰۳) لیکن رفتہ رفتہ جب عراق میں مختار کا اثر نفوذ کرنے لگا، اس وقت احنف نے ابن زبیر کے بھائی مصعب کے ساتھ مل کر مختار کے آدمیوں کا مقابلہ کیا۔ (اخبار الطوال:۳۱۳) اسی زمانہ میں عبداللہ بن زبیرکے اصل حریف عبدالملک اموی نے احنف کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی؛لیکن گذشتہ تجربات کے بعد سے یہ امویوں کے سخت خلاف ہوگئے تھے اس لیے انہوں نے نہایت سخت جواب دیا کہ ابن زرقاء مجھے شامیوں کی دوستی کی دعوت دیتا ہے،خدا کی قسم میں چاہتا ہوں کہ میرے اوراس کے درمیان آگ کا پتھر حائل ہوجاتا کہ نہ اس کے آدمی ادھر آسکتے اورنہ میرے آدمی ادھر جاسکتے۔ (ابن سعد،ق۱،ص۶۸) وفات عبداللہ بن زبیرؓ کے بھائی مصعب والی کوفہ کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے،احنف ان سے ملنے کے لیے کوفہ گئے،یہیں انتقال ہوگیا (ایضاً:۶۹) ابن عماد حنبلی کے بیان کے مطابق یہ ۷۲ ھ تھا ۔ (شذرات الذہب :۱/۷۸) فضل وکمال علمی اعتبار سے احنف کوئی قابل ذکر شخصیت نہ رکھتے تھے،تاہم اکابر صحابہ کی صحبت اٹھائی تھی،اس لیے علم سے تہی دامن نہ تھے،حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ،حضرت عبداللہ بن سعدؓ اورحضرت ابوذرؓ جیسے اجلہ صحابہ سے انہوں نے سماع حدیث کیا تھا اوراُن سے ان کی روایات موجود ہیں،خود ان سے استفادہ کرنے والوں میں حسن بصری ابوالعلا بن شخیراورطلق بن حبیب وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب :۱/۱۵۱) عقل ودانش ان کی فضیلت کا میدان مسند علم کے بجائے خارزار سیاست تھا،وہ اپنے عہد کے بڑے عاقل،مدبر،حکیم اورحلیم تھے (استیعاب:۱/۵۵) ان کے بارہ میں لوگوں کی رائے تھی کہ کسی قوم میں احنف سے بہتر شریف نہیں دیکھا گیا (ابن سعد،جلد۷ق۱،ص:۶۷) جب ان کی وفات ہوئی تو مصعب نے کہا آج سے حزم اور رائے کا خاتمہ ہوگیا۔ (تہذیب التہذیب :۱/۱۹۱) عبادت وریاضت عام طور سے غیر معمولی عقل ودانش اورتدبر کے ساتھ زہد وتقویٰ اورعبادت وریاضت کا اجتماع کم ہوتا ہے،لیکن احنف جس درجہ کے مدبر تھے،اسی درجہ کا اُن میں زہد و تقویٰ تھا،اُن کی عبادت کا خاص وقت پر دۂ شب تھا، جب دنیا خواب شیریں کے مزے لیتی تھی،اس وقت وہ اپنے رب کے حضور میں اظہار عبودیت کرتے تھے،اسی وقت وہ اپنے اعمال کا جائزہ بھی لیتے تھے،ابو منصور کا بیان ہے کہ احنف کی نماز کا وقت عموماً رات کو ہوتا تھا، وہ چراغ جلا کر اس کی لو پر انگلی رکھتے اورنفس سے خطاب کرکے کہتے تجھ کو فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا۔ (ابن سعد،جلد۷،ق اول،ص:۶۷) ضعف پیری میں جب کہ قویٰ روزے کے متحمل نہ رہ گئے تھے،سعید بن زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ کسی نے احنف سے کہا کہ اب آپ کے قویٰ بہت ضعیف ہوگئے ہیں،روزے آپ کو اورزیادہ کمزور کردیں گے جواب دیا میں اس کو ایک بہت لمبے سفر کے لیے تیار کرتا ہوں۔ (ایضاً:۶۸) قرآن قرآن کی تلاوت سے خاص شغف تھا، جب تنہائی ہوتی تو فوراً قرآن لے کر بیٹھ جاتے۔(ایضاً:۶۷) ان عبادتوں پر بھی پورا اعتماد نہ تھا،خداسے عرض کیا کرتے تھے خدایا اگر تو میری مغفرت کردے تو یہ تیری رحمت ہے اور اگر سزادے تو میں اس کا مستحق ہوں۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۱،ص:۶۸) طہارت میں غلو طہارت میں اتنا غلوتھا کہ سخت سے سخت موسم میں بھی تیمم نہ کرتے تھے اوربرف آلود پانی کی ٹھنڈک برداشت کرلیتے تھے،خراسان کی مہم کے زمانہ میں ایک شب کو نہانے کی حاجت ہوگئی،سردی کا موسم تھا، وہ بھی خراسان کی سردی،رات بھی ٹھنڈی تھی،احنف نے کسی خادم اورسپاہی تک کو نہ جگایا اوراسی وقت تن تنہا پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے راستہ میں کانٹے دار جھاڑیاں تھیں ان کو روندتے ہوئے آگے بڑھے کانٹوں کی خراش سے دونوں پاؤں لہو لہان ہوگئے بالآخر ایک برف کی تہ تک پہنچے اور اس کو توڑ کر برف آلودپانی سے غسل کیا۔ (ابن سعد،جلد۷،ق ۱ول:۶۷) حق گوئی نہایت حق گو اور حق پرست تھے،سلاطین اور امرا کے سامنے بھی ان کی زبان اظہار حق میں باک نہ کرتی تھی،یزید کی ولیعہدی کے مسئلہ میں اظہار رائے کا واقعہ اوپر گزرچکا ہے ایک اورکسی موقع پر اسی قبیل کا کوئی اختلافی مسئلہ پیش آیا تھا اورلوگ اپنی اپنی رائے ظاہرکرتے تھے لیکن احنف خاموش تھے،امیر معاویہؓ نے ان سے کہا ابو بحر تم بھی کچھ بولو ،انہوں نے کہا کیا بولوں،اگر جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کا خوف ہے اور اگر سچ بولتا ہوں تو تم لوگوں کا ڈر ہے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق ا،ص:۶۷) حلم ضبط وتحمل ان کاخاص وصف تھا،علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ان کے مناقب بہ کثرت ہیں ان کا حلم ضرب المثل تھا(تہذیب التہذیب:۱/۹۱) لیکن خود ہمیشہ انکسارا ً کہتے تھے کہ میں حقیقۃ حکیم نہیں ہوں؛بلکہ اپنے کو حکیم دکھانا چاہتا ہوں۔ (ابن سعد،ج،ق اول،ص:۶۷) بعض اصول احنف کے بعض اصول ایسے تھے کہ وہ ہر شخص کے لیے لائق عمل ہیں فرماتے تھے کہ میں تین کاموں کے کرنے میں زیادہ جلدی کرتا ہوں،نماز پڑھنے میں جب اس کا وقت آجائے،جنازہ دفن کرنے میں اور لڑکی کی شادی کرنے میں جب اُس کی نسبت ہوجائے۔ (ایضاً ،جلد۷،ق اول:۱۶۵) اجمالی تبصرہ ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ وہ سادات تابعین میں تھے،ان کا حکم مثالاً پیش کیا جاتا تھا،حسن بصری فرماتے تھے کہ میں نے کسی قوم کے شریف کو احنف سے افضل نہیں پایا، انہوں نے متعدد خلفاء کا عہد پایا تھا،ان میں سے کسی خلیفہ نے ایک شخص سے ان کے اوصاف پوچھے اس نے کہا اگر آپ ایک وصف سننا چاہتے ہوں تو ایک بتاؤں،اگر دوچاہتے ہوں تو دوبتاؤں، اگر تین چاہتے ہوں تو تین بتاؤں، خلیفہ نے کہا دو بتاؤ،اس شخص نے کہا وہ بھلائی کرتے تھے اوربھلائی کو پسندکرتے تھے اور شر سے بچتے تھے اور اس سے بغض رکھتے تھے،خلیفہ نے کہا اچھا تین اوصاف بتاؤ اس شخص نے کہا کسی پر حسد نہیں کرتے تھے،کسی پر بیجا زیادتی اورظلم نہیں کرتے تھے اورکسی کو اس کے حق سے نہیں روکتے تھے،خلیفہ نے کہا ایک وصف بیان کرو اس شخص نے کہا کہ وہ اپنے نفس کے سب سے بڑے حکمران تھے۔ (شذرات الذہب :۱/۷۸)