انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مذہبی خدمات اشاعت اسلام صحابہ کرام نے آغاز اسلام ہی سے اس نیک کام کو شروع کیا اوراخیر تک اس کو قائم رکھا، سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ اسلام لائے تو ان کے اخلاقی اثر سے متعدد اکابر صحابہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، جن میں پانچ بزرگ عشرہ ٔمبشرہ میں سے تھے، اسد الغابہ تذکرہ حضرت ابوبکرؓ میں ہے۔ اسلم علی یدہ جماعۃ لمجبتھم ویلبھم الیہ حتی انہ اسلم علی یہ خمسۃ من العشرۃ ان کے ہاتھ پر ایک جماعت جس کو ان کے ساتھ محبت تھی اسلام لائی یہاں تک کہ عشرہ مبشرہ میں سے بھی پانچ بزرگ ان کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ حضرت عثمانؓ کے تذکرے میں صاحبِ اسد الغابہ نے بعض ناموں کی تفصیل بھی کی ہے چنانچہ لکھتے: كان رجال قريش يأتونه ويألفونه لغير واحد من الأمر، لعلمه وتجاربه وحسن مجالسته، فجعل يدعو إلى الإسلام من وثق به من قومه، ممن يغشاه ويجلس إليه. فأسلم على يديه، فيما بلغني الزبير بن العوام، وعثمان بن عفان، وطلحة بن عبيد الله (اسد الغابۃ، باب عثمان بن عفان،حدیث:۲۴۹) قریش کے لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آتے تھے اورمتعدد وجوہ مثلاً علم ،تجربہ اورحسن مجالست کی بنا پر ان سے محبت کرتے تھے؛چنانچہ ان آنے والوں اورساتھ بیٹھنے والوں میں جن لوگوں پر ان کو اعتماد تھا ان کو انہوں نے دعوت اسلام دی اورجیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے ان کے ہاتھ پر حضرت زبیربنؓ عوام، حضرت عثمان بن عفانؓ ،اورحضرت طلحہ بن عبیدؓ اللہ اسلام لائے۔ تاریخ خمیس میں ان بزرگوں کے ساتھ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبدالرحمان ابن عوفؓ،حضرت عثمان ؓبن مظعون، حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ اورارقم بن ابی الارقمؓ کا نام بھی لیا ہے۔ (تاریخ خمیس،صفحہ۲۸۷) حضرت ابوبکرؓ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کی کوششوں سے قریش میں اسلام پھیلا،حضرت عمیرؓ ایک صحابی تھے جو ابتداء میں اسلام کے سخت دشمن تھے، غزوۂ بدر میں ان کا ایک لڑکا گرفتار ہوا تو وہ اس کی رہائی کے بہانے سے مدینہ میں آئے کہ چل کر نعوذ باللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ کردیں، لیکن توفیق ایزدی نے یاوری کی اوریہاں آکر مسلمان ہوگئے،پلٹے تو قریش کو دعوتِ اسلام دی اوران کے اثر سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عمیر بن وہبؓ) مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اس شرف سے محروم نہ رہیں،چنانچہ حضرت ام شریکؓ ایک صحابیہ تھیں جو مخفی طور پر قریش کی عورتوں کو اسلام کی دعوت دیتی تھیں،قریش کو ان کی مخفی کوششوں کا حال معلوم ہوا تو ان کو مکہ سے نکال دیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ام شریکؓ) ان بزرگوں کی مساعی جمیلہ کا اثر اگرچہ صرف مکہ بلکہ صرف قریش تک محدود رہا لیکن اور متعدد صحابہ کو اللہ تعالی نے توفیق عطا فرمائی اوروہ باہر سے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام لائے اورآپ کی خدمت سے واپس جاکر اپنے اپنے حلقہ اثر میں اشاعت اسلام کی مقدس خدمت انجام دی، ان بزرگوں میں حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت طفیل بن عمرووسیؓ،حضرت اکثمؓ، حضرت عروہ بنؓ مسعودثقفی اورانصار کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے ،حضرت ابوذر غفاریؓ فطرۃ نیکی کے قبول کرنے کا مادہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے پا بند نماز ہوچکے تھے، ایک بار حسن اتفاق سے ان کے بھائی حضرت انیسؓ مکہ میں آئے اور پلٹ کر ان کو خبردی کہ مکہ میں تمہارا ایک ہم مذہب پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو خدا کا رسول کہتا ہے لوگ اگرچہ اس کو شاعر، کاہن اور ساحر کہتے ہیں، لیکن مجھ کو اس کا کلام ان سب سے مختلف معلوم ہوتا ہے یہ سن کر حضرت ابو ذر غفاریؓ کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا اورتحقیق کے لئے خود مکہ تشریف لائے ایک دن رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ نکلے اورخانہ کعبہ کا طواف کیا، حضرت ابو ذر غفاریؓ بھی وہیں موجود تھے، آپ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے آکر اسلامی طریقہ کے موافق سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مختلف حالات پوچھے اورحضرت ابوبکرؓ نے درخواست کی کہ آج کی رات مجھے ان کی دعوت کا شرف حاصل ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ تشریف لے گئے، حضرت ابوبکرؓ نے گھر کا دروازہ کھولا اور طائف کے منقے پیش کئے اس کے بعد وہ دوبارہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپﷺ نے فرمایا مجھے مدینہ کی ہجرت کا حکم ہوا ہے تم میری طرف سے اپنی قوم کو اسلام کا پیغام پہونچاسکتے ہو؟ شائد تمہاری وجہ سے خدا ان کو نفع پہونچائے اور تمہیں ثواب دے وہ پلٹے تو اپنے بھائی انیس کو دعورت اسلام دی اورانہوں نے بخوشی لبیک کہا اس کے بعد ماں کو مائل بہ اسلام کی وہ بھی بخوشی حلقہ اسلام میں داخل ہوئیں ، پھر تمام قوم کو اسلام کی طرف بلایا، نصف لوگ اسی وقت مسلمان ہوگئے اور نصف لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد ہم لوگ اسلام لائیں گے، چنانچہ جب آپ مدینہ آئے تو وہ لوگ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے قبیلہ غفارہی کے متصل اسلم کا قبیلہ آباد تھا، وہ لوگ بھی حاضر خدمت ہوئے اورکہا کہ یا رسول اللہ ﷺ جس چیز پر ہمارے بھائی اسلام لائے ہیں اس پر ہم بھی اسلام لاتے ہیں آپ نے یہ سن کر فرمایا۔ غفار غفراللہ لھا واسلم سالمھا اللہ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ابی ذرؓ) خدا غفار کی مغفرت کرے اوراسلم کو سلامت رکھے۔ حضرت طفیل بن عمروؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پہلےہی سے دل نور ایمان سے لبریز تھا چاہا کہ خود ان کے وطن کو دارالہجرت بننے کا شرف حاصل ہو، اس غرض سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایک محفوظ قلعہ میں پناہ گزین ہونا پسند فرماتے ہیں؟ یہ قلعہ خود ان کی قوم کا تھا؛لیکن آپ نے انکار کیا، اس لئے وہ واپس گئے اور جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہ ایک مہاجر کو ساتھ لے کر مدینہ میں آئے اور شرف ہجرت حاصل کیا (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ن قاتل نفس لا یکفر)یہ صحیح مسلم کی روایت ہے جس سے فی الجملہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اثر سے بعض لوگوں نے اسلام قبول کیا ؛لیکن اسد الغابہ میں ہے کہ وہ آپﷺ کی خدمت سے پلٹ کر متصل اشاعت اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے یہاں تک کہ جب آپﷺ نے ہجرت فرمائی تو انہوں نے بھی قبیلہ دوس کی ستر یا اسی گھرانوں کے ساتھ ہجرت کی جو سب کے سب ان ہی کے اثر سے مسلمان ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت طفیل بن عمرودوسیؓ) حضرت اکثمؓ کو ظہور اسلام کے خبر ہوئی تو دوشخصوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ تحقیق حال کریں وہ دونوں خدمت مبارک میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے ان کو یہ آیت سنائی۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل:۹۰) بےشک اللہ انصاف کا،احسان کا، اور رشتہ داروں کو(اُن کے حقوق)دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی،بدی اور ظلم سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ ان لوگوں نے جاکر ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے تمام قوم کی طرف خطاب کرکے کہا کہ اے قوم! میری رائے میں یہ پیغمبراچھے اخلاق کا حکم دیتا ہے اور بُرے اخلاق سے روکتا ہے، تم لوگ قبول اسلام میں دُم نہ بنو، سر بنو، مقدم ہو ،مؤخر نہ ہو، اس کے بعد تادم مرگ اس کوشش میں مصروف رہے ،انتقال ہو تو اہل و عیال کو تقویٰ اورصلہ رحمی کی وصیت کی۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت اکثم بن صیفیؓ) حضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ قبیلہ ثقیف کے سردار اوران میں نہایت ہردلعزیز تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ طائف سے فارغ ہوکر مدینہ کو پلٹے تو انہوں نے راستہ ہی میں جاکر اسلام قبول کیا اور وہاں سے آکر اپنے قبیلہ کو دعوت اسلام دی ان کو اگرچہ اس مقصد میں کامیانی نہیں ہوئی ؛بلکہ ان کو خود ان کی قوم نے اشاعت اسلام کے جرم میں قتل کردیا، تاہم انہوں نے اپنا مذہبی فرض ادا کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عروہ بن مسعودؓ) انصار میں اولاً چھ افراد مکہ میں آئے اور اسلام قبول کیا، مکہ سے پلٹ کر انہوں نے خود تبلیغ اسلام کا فرض ادا کرنا شروع کیا اوران کو اس قدر کامیابی ہوئی کہ انصار کا کوئی گھر کلمہ توحید کی آواز اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر سے نا آشنا نہ رہا، دوسرے سال بارہ آدمی آئے اور آپﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی، جو بیعت عقبہ اولی کے نام سے مشہور ہے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت رافع بن مالکؓ و مسند ابن حنبل ،صفحہ ۳۱۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو تعلیم قرآن کے لئے کردیا اورانہوں نے اس خدمت کے ساتھ اشاعت اسلام کا مقدس فرض بھی ادا کیا؛ چنانچہ ان کی کوششوں سے بکثرت لوگ مسلمان ہوئے جن میں انصار کے گل سرسبد حضرت اسید بن حضیرؓ اورحضرت سعد بن معاذ ؓ بھی شامل تھے، مسلمانوں کی تعداد میں معتدبہ اضافہ ہوا تو انہوں نے ان کے ساتھ باجماعت جمعہ کی نماز ادا کی۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت مصعب بن عمیرؓ وتاریخ خمیس ،صفحہ ۳۱۷) حضرت سعد بنؓ معاذ اسلام لائے تو اپنے قبیلہ سے کہا کہ اب مجھ پر تم سے بات چیت کرنا حرام ہے؛ چنانچہ اسی روز ان کا تمام قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت سعد بن معاذؓ) ان بزرگوں کے علاوہ اوربھی بہت سے صحابہ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے قبائل میں اشاعت اسلام کی خدمت انجام دی؛ چنانچہ ان کے حالات میں ان کوششوں کا ذکر جا بجا آیا ہے؛ مثلاً صاحب اسد الغابہ حضرت قیس بن غزیہؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔ دعا قومہ الی الاسلام اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی حضرت قیس بن یزیدؓ کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں۔ فدعا قومہ الی الا سلام فاسلموا انہوں نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی اوروہ مسلمان ہوگئے۔ حضرت قیس بن نشیہؓ اسلمی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔ اسلمورجع الی قومہ فقال یا بنی سلیم سمعت ترجمۃ الروم وفارس واشعار العرب والکھانو مقادل حمیروما کلام محمد یشبہ من کلامھم فاطیعو نی فی محمد فانکم اخوالہ وہ اسلام لاکر پلٹے تو کہا کہ اے بنو سلیم میں نے روم و فارس کے تراجم اور عرب اورکھان اورحمیر کے بہاوؤں کے اشعار سنے؛ لیکن محمد کا کلام ان سب سے الگ ہے ،پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں میری اطاعت کرو کیونکہ تم ان کے ماموں ہو۔ فتح مکہ کے بعد اس سلسلہ کو اور ترقی ہوئی اور تمام قبائل کے سرداروں نے اشاعت اسلام میں حصہ لیا، چنانچہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: ان مکۃ لما فتحت بادرت العرب با سلامھم فکان کل قبیلۃ ترسل کبراھا یسلموا ویتعلموا یرجعواالی قومھم فید عوھم الی الاسلام فتح مکہ کے بعد تمام عرب نے اسلام کی طرف نہایت تیزی سے قدم بڑھایا، ہر قبیلہ اپنے سرداروں کو بھیجتا تھا کہ جاکر اسلام لائیں اور تعلیم دین حاصل کرکے پلٹیں تو اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دیں۔ اس بنا پر تمام قبائل کا اسلام ان سرداروں کے اسلام اورتبلیغ ودعوت پر موقوف تھا ،ابوداؤد میں ہے کہ قبیلہ ہمدان نے حضرت عامر بن شہرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ جو تمہاری رائے قرار پائے گی اس کو ہم سب منظور کرلیں گے ،وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے اوران کے بعد ان کا تمام قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج،باب فی حکم ارض الیمن) ایک صحابی کسی چشمے کے مالک تھے جب ان تک دعوت اسلام پہونچی تو انہوں نے اپنی قوم کو اسلام لانے کے لئے سو اونٹ دیئے، لیکن یہ اسلام کا حقیقی معاوضہ نہ تھا، چنانچہ جب وہ لوگ اسلام میں پختہ ہوگئے تو انہوں نے اونٹوں کو واپس لینا چاہا اور مشورہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کو بھیجا، آپ نے فرمایا ان کو واپس لینے یا نہ لینے کا اختیار ہے۔ (ابوداؤد کتاب الخراج باب فی العرافتہ) جن لوگوں کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاعت اسلام کے لئے بھیجا ان کے نام رجال و سیر کی کتابوں میں بہ کثرت ملتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ حضرت مالک بن مرارہ الرہادی رضی اللہ عنہ انہوں نے عک اورذی خیوان کو دعوت اسلام دی اور اس کے ساتھ ان کی قوم نے بھی اسلام قبول کیا۔ حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قبیلہ بنو لیث کی تبلیغ وہدایت کیلئے بھیجا۔ حضرت عبداللہ بن عویجبۃ البجلیؓ آپ ﷺ نے ان کو قبیلہ بنی حارثہ کے پاس بھیجا۔ حضرت محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ نے ان کو اہل فدک کی ارشاد و ہدایت کے لئے بھیجا۔ حضرت مسعود بن وائل رضی اللہ عنہ آپ ﷺ نے ان کے متعلق خود ان کی قوم کی تبلیغ و ہدایت فرمائی۔ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ان کی نانہال قبیلہ بلی میں تھی جو بدؤں کا ایک قبیلہ ہے اور اس تعلق سے بدوان سے مانوس تھے ،آپ ﷺ نے ان کو بدوں کی تبلیغ وہدایت کے لئے منتخب فرمایا۔ حضرت مالک بن احمر رضی اللہ عنہ یہ اسلام لائے اورخود درخواست کی کہ مجھے ایک فرمان لکھ دیا جائے کہ اس کے ذریعہ سے اپنی قوم کو دعوت اسلام دوں۔ حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ آپ نے ان کے ذریعہ سے عبید و جعفر کو دعوت اسلام دی وہ دونوں اسلام لائے اور وہاں کے تمام عرب کو دعوت اسلام دی جس کو سب نے بخوشی قبول کیا۔ حضرت علاء بن عبید اللہ الحضرمیؓ آپ نے ان کو بحرین میں بھیجا کہ وہاں کے لوگوں کو دعوت اسلام دیں اور منذربن ساوی اورسیخبت کے نام خصوصیت کے ساتھ خط دیا، وہ دونوں مسلمان ہوگئے اور ان کے اثر سے وہاں کے تمام عرب اور بعض عجم نے اسلام قبول کیا۔ حضرت وبربن نجنس کلیؓ آپ نے ان کو یمن میں بھیجا وہ نعمان بن برزخ کی صاحبزادیوں کے یہاں اترے اور وہ سب مسلمان ہوگئیں، انہوں نے فیروز ویلمی اورمرکنود کو پیغام اسلام دیا اور وہ بھی مسلمان ہوگئے۔ٍ (یہ مختصر فہرست اسد الغابہ اور فتوح البلدان سے تیار کی گئی ہے ابوداؤد کتاب الخراج میں بھی ان بزرگوں کے نام ملتےہیں، اگر رجال کی کتابوں میں مزید تلاش کیا جائے تو ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے) وعظ وپند، ارشاد و ہدایت اورتبلیغ و دعوت کے علاوہ صحابہ کرام کے حسن اخلاق کی خاموش زبان نے بھی بعض قبائل کو اسلام کی طرف مائل کیا اور وہ لوگ بطیب خاطر مسلمان ہوئے ،ایک غزوہ میں صحابہ کرام پیاس سے بے تاب ہوکر پانی کی تلاش میں نکلے تو حسن اتفاق سے ایک عورت مل گئی جس کے ساتھ پانی کا مشکیزہ تھا، صحابہ ؓ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اورآپ کی اجازت سے پانی کو استعمال کیا ،اگرچہ آپﷺ نے اسی وقت اس کو پانی کا معاوضہ دلوادیا؛ تاہم صحابہ کرام پر اس کے احسان کا یہ اثر تھا کہ جب اس عورت کے گاؤں کے آس پاس حملہ کرتے تھے تو خاص اس کے گھرانے کو چھوڑدیتے تھے اس پر اس منت پذیری کا یہ اثر ہوا کہ اس نے اپنے تمام خاندان کو قبول اسلام پر آمادہ کیا اور وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (بخاری کتاب الغسل باب الصعید الطیب وضو المسلم) صحابہ کرام کے یہ وہ مساعی جمیلہ تھے جن کے اثر سے متعدد قبائل نے اسلام قبول کیا؛ لیکن ان قبائل کے علاوہ اور بھی متفرق لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے ذریعہ سے اسلام لائے،حضرت ام حکیم بنت الحارث رضی اللہ عنہا کی شادی عکرمہؓ بن ابی جہل سے ہوئی تھی، وہ خود فتح مکہ کے دن اسلام لائیں ؛لیکن ان کے شوہر بھاگ کر یمن میں چلے آئے ،حضرت ام حکیمؓ نے یمن کا سفر کیا اوران کو دعوت اسلام دی وہ مسلمان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے ،بدن پر چادر تک نہ تھی ؛لیکن ان سے اسی حالت میں بیعت لی۔ (موطا امام مالک کتاب النکاح باب نکاح المشرک اذا اعظمت زوجہ قبلہ ) حضرت ابو طلحہؓ نے حالت کفر میں حضرت ام سلیمؓ سے نکاح کرنا چاہا؛ لیکن انہوں نے کہا کہ تم کافر ہو اور میں مسلمان ہوں نکاح کیونکر ہوسکتاہے؟ اگر اسلام قبول کر لو تو وہی میرا مہر ہوگا اس کے سوا تم سے کچھ نہ مانگوں گی، چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور اسلام ہی ان کا مہر قرار پایا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت زید بن سہل بن اسودؓ) حضرت جبار سلمیؓ نے حالت کفر میں شہدائے بیر معونہ میں سے ایک قاری کو نیزہ مارا تو انہوں نے زخم کھانے کے ساتھ ہی نہایت موثر لہجے میں کہا۔ فزت واللہ خدا کی قسم میں کامیاب ہوا۔ حضرت جبارؓ کو تعجب ہوا کہ میں نے تو ان کو قتل کردیا آخر ان کو کامیابی کیونکر ہوئی؟ بعد کو معلوم ہوا کہ صحابہ کرام شہادت ہی کو اپنی کامیابی سمجھتے تھے؛ چنانچہ اس اثر سے انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (اسد الغابہ تذکری حضرت جابر بن سلمیؓ) حضرت ابو ہریرہؓ اگرچہ خود مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے؛ لیکن ان کی ماں کافرہ تھیں اس لئے ان کو برابر دعوت اسلام دیتے رہتے تھے، ایک روز ان کو اسلام کی ترغیب دی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا ان کو یہ کیونکر گوارا ہوسکتا تھا روتے ہوئے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا کہ آپ میری ماں کے لئے دعائے ہدایت فرمایے آپﷺنے دعا فرمائی کہ خدا وندا ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دےپلٹے تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے اورپانی گرنے کی آواز آرہی ہے، ان کی ماں نے پاؤں کی آہٹ پائی تو کہا، ابوہریرہؓ آگے نہ بڑھو، نہا دھوکر فوراً کپڑے پہن کر دروازہ کھولا اورکلمہ توحید پڑھا، حضرت ابوہریرہؓ کو اس قدر مسرت ہوئی کہ خوشی کے مارے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا کہ اللہ نے آپ کی دعا قبول کرلی۔ (مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ابوہریرہؓ الدوسی) وفد بنو تمیم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے؟ سب نے جواب دیا کہ: ہم اپنے شاعر اوراپنے خطیب کو لائے ہیں کہ آپ سے مفاخرت کریں، ارشاد ہوا کہ: ہم نہ شاعری کے لئے مبعوث ہوئے نہ ہم کو خدانے مفاخرت کا حکم دیا؛ تا ہم آؤ اور مفاخرت کرو، اقرع بن حابس ساتھ تھے انہوں نے ایک جوان کی طرف اشارہ کیا اس نے کھڑے ہوکر تقریر کی اوراپنی قوم کے تمام مفاخر گنائے ،حضر ثابت بن قیسؓ آپ ﷺکے خطیب تھے ،آپﷺ نے ان کو مقابلے کے لئے کھڑا کیا تو انہوں نے اس کا جواب دیا اس کے بعد زبر قان بن بدر کے حکم سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اوراپنی قوم کی مدح میں چند اشعار سنائے آپﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ کو جواب دینے کا حکم دیا اورانہوں نے ایک قصیدے میں انصار کے اسلامی کارنامے گنائے، ابھی قصیدہ ختم نہیں ہوا تھا کہ اقرع نے کہا یا رسول اللہ میرا مقصد ان سب سے الگ ہے، یہ دو شعر سن لیجئے اس نے شعر پڑھے تو آپﷺ کے حکم سے حضرت حسانؓ نے اس کی تردید کی کہ یہ کل دو شعر تھے جس کا آخری مصرع یہ تھا۔ لنا خول من بین ظیر وخادم تمہارا قبیلہ ہمارا نوکرتھا ،عورتیں دایہ اور مرد خادم تھے۔ آپ ﷺنے یہ سنا تو فرمایا کہ، اے بنو دارم کے بھائی(اقرع کا قبیلہ تھا) جب کہ تمام لوگ اس کو بھول گئے تھے مجھ کو اس کی یاد تازہ کرانے کی ضرورت نہ تھی ان لوگوں پر اس کا سخت اثر ہوا، اس جملہ معترضہ کے بعد حضرت حسان بن ثابتؓ نےپھر اپنا قصیدہ پڑھنا شروع کیا آخر کار اقرع بول اٹھا کہ خدا جانے کیا بات ہے کہ ان کا خطیب ہمارے خطیب سے اوران کا شاعر ہمارے شاعر سے بہتر ثابت ہوا، یہ کہہ کر آپﷺ کے قریب آیا اور کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت اقرع بن حابسؓ) خلفائے راشدین کے زمانے میں اور بھی کثرت سے اسلام پھیلا،حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں مثنی بن حارثہ شیبانی ایک نہایت مشہور اور بہادر شخص تھا جو خود بخود مسلمان ہوگیا اوراس کے ساتھ اس کی قوم کے بہت سے لوگ بھی اسلام لائے وہ پہلے عراق میں غارتگری کیا کرتا تھا، اب وہ خود حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اوردرخواست کی کہ میری قوم کے جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں مجھ کو ان کا امیر العکسر مقرر فرمادیجئے ان کی ذریعہ سے میں ایرانیوں پر حملہ کروں گا، حضرت ابوبکرؓ نے اس کو ایک اجازت نامہ لکھ دیا وہ وہاں سے چل کر مقام خفان میں آیا اور بقیہ قوم کو دعوت اسلام دی اور تمام لوگ بخوشی مسلمان ہوگئے۔ (فتوح البلدان،صفحہ۲۵۰) حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں فتوحات کے ساتھ ساتھ اور بھی وسعت سے اسلام کی اشاعت ہوئی، جب جنگ قادسیہ میں رستم مارا گیا تو اس کے ساتھ ویلم کی جو چار ہزار منتخب فوج تھی اورخسرو پرویز کی باڈی گارڈ ہونے کی وجہ سے چند شاہنشاہ کے لقب سے ممتاز تھی، کل کی کل فوج مسلمان ہوگئی اور مسلمان ہونے کے بعد مدائن اور جلو لاء کے معرکہ میں نمایاں حصہ لیا،(فتوح البلدان،صفحہ ۲۸۹، طبری ،صفحہ ۲۲۶۱ میں ہے کہ ان میں کچھ لوگ جنگ سے پہلے اور کچھ جنگ کے بعد مسلمان ہوکر شریک جنگ ہوئے اورا ن کو مال غنیمت سے حصہ دیا گیا اور دو دو ہزار کا وظیفہ مقرر ہوا) قادسیہ کی جنگ میں ضخیم مسلم ،رافع اور عشتق بھی اپنے تمام رفقاء کے ساتھ مسلمان ہوئے اور انہی کے مشورے سے مسلمانوں نے جنگی ہاتھیوں پر قابو پایا،(طبری ،صفحہ ۲۳۲) اصفہان کے حملہ کے بعد جب جے فتح ہوا تو آس پاس کے تمام رؤسا جو اپنے قلعوں میں پناہ گزین تھے مسلمان ہوگئے،(فتوح البلدان،صفحہ ۳۲۱) قزدین پر حملہ ہوا تو ویلم کی جو قوم وہاں آباد تھی کل کی کل مسلمان ہوگئی۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۳۲۹) سیاہ اسواری یزد گرد کے مقدمۃ الجیش کا ایک بڑا افسر تھا، یزد گرد جب اصفہان کو روانہ ہوا تو سیاہ کو تین سو سواروں کے ساتھ جن میں ستر سردار تھے اصطخر کی طرف روانہ کیا اورحکم دیا کہ ہر شہر سے اپنے ساتھ سپاہی انتخاب کرکے لیتا چلے وہ اصطخر پہونچا تو معلوم ہوا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے سوس کا محاصرہ کیا ہے اس لئے یزد گرد نے سیاہ کو سوس بھیج دیا، وہ جب فتح ہوگیا تو سیاہ نے تمام سرداروں کو جمع کرکے کہا کہ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ قوم اس سلطنت پر غالب ہوجائے گی اور اصطخر کے محل ان کے گھوڑوں کے اصطبل بن جائیں گے ،اب بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ ان کے مذہب میں داخل ہوجائیں ؛چنانچہ وہ سب کے سب چند شرائط پر مسلمان ہوگئے اوران کے ساتھ سیا،بچہ،زط اور اندغار نے بھی جو ہندوستانی قومیں تھیں اسلام قبول کرلیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۳۲۸) جلولاء کی فتح کے بعد اس اطراف کے تمام بڑے بڑے رؤساء مثلا جمیل ابن بصبھری بسطام بن ترسی، رفیل اورفیروز مسلمان ہوگئے۔ (فتوح البلدان ،صفحہ(۲۷۴) تستر کا محاصرہ ہوا تو ہرمزان نے اطاعت قبول کرلی اورحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے اس کو حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھیج دیا اور وہ ان کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہوگیا ،تستر سے فارغ ہوکر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے جند یساپور کا رخ کیا تو وہاں سے کچھ لوگ بھاگ کر کلبانیہ چلے گئے حضرت ابوموسٰی اشعریؓ نے ربیع بن زیاد کو ان کے تعاقب میں روانہ کیا اورانہوں نے جاکر کلبانیہ کو فتح کرلیا، وہاں کے اسادرہ نے امان طلب کیا اور امان حاصل ہونے کے بعد سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۳۸۹) یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ؛لیکن ان کے علاوہ تاریخوں میں اور بھی بہت سے نو مسلموں کے نام ملتے ہیں، جو متفرق طورپر اسلام لائے، فتوح البلدان میں ہے کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، میرا خراج معاف کردیجئے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۲۷۷) تستر کی جنگ میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے پاس ایک عجمی نے آکر امان طلب کی اورمسلمان ہوگیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۲۸۸) روز بہ بن برز چمہر بن ساسان ایرانی فوج کا ایک افسر تھا جو رومیوں سے مل گیا تھا، لیکن اس کو رومیوں پر اعتماد نہیں تھا،بالآخر حضرت سعد بن مالکؓ نے اس کو ایک خط کے ساتھ حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھیجا جس میں اس کے حالات سے اطلاع دی وہ دربار خلافت میں پہونچ کر مسلمان ہوگیا اورحضرت عمرؓ نے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ (طبری،صفحہ ۲۴۵۴) دمشق فتح ہوا تو وہاں کا پادری جس کا نام اور کون تھا حضرت خالدؓ کے ہاتھ پر اسلام لایا۔ (معجم البلدان ذکر قنطرہ سنان) حضرت کعب احبارؓ سفر بیت المقدس میں حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراسلام لائے۔ (وفاء الوفاء ،صفحہ ۴۰۹) شریح بن ہانی شیبانی ایک شخص تھا جس کی بی بی حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر اسلام لائی اورحضرت عمرؓ نے ان دونوں میں تفریق کرادی۔ (وفاء الوفاء،صفحہ،۲۱۴) مصر اور افریقہ میں بھی بکثرت اسلام پھیلا،حضرت عمروبن العاصؓ نے جب مصر کے بعض قصبات کے لوگوں کو لونڈی غلام بناکر عرب میں بھیجا اوروہ فروخت ہوکر عرب میں پھیل گئے، تو حضرت عمرؓ نے ان کو ہرجگہ سے بلاکر مصر بھیج دیا اورلکھا کہ ان کو اختیار ہے خواہ اسلام لائیں خواہ اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ چنانچہ ان میں بلہیب کے رہنے والے کل کے کل مسلمان ہوگئے،(مقریزی ،صفحہ ۱۶۶،جلد اول) ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قیدیوں نے اسلام قبول کیا، تاریخ طبری میں ہے کہ جب تمام قیدی اکٹھا کئے گئے تو عیسائیوں کے سامنے ایک ایک قیدی کو لایا گیا اوراس کو عیسائیت پر قائم رہنے یا اسلام قبول کرنے کا اختیار دیا گیا، جب کوئی قیدی اسلام قبول کرتا تھا تو مسلمان اس زور سے تکبیر کا نعرہ مارتے تھے کہ کسی شہر کے فتح پر بھی تکبیر کی صدا میں یہ غلغلہ انگیزی نہیں پائی جاتی تھی؛ لیکن اگر وہ عیسائیت پر قائم رہتا تھا تو مسلمانوں کو اس قدر صدمہ ہوتا تھا کہ گویا کوئی آدمی خود ان کی جماعت سے نکل گیا ہے، بعض واقعات نے اسلام اور عیسائیت کی اس کشمکش کو نہایت دلچسپ بنادیا تھا،ابو مریم ایک عیسائی تھا جس کے سامنے یہ دونوں مذہب پیش کئے گئے، توفیق ایزدی نے اعانت کی اوراس نے اسلام قبول کرلیا اورمسلمانوں نے فورا ًاس کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا؛ لیکن ابو مریم کے باپ، ماں اور بھائی بھی موجود تھے، انہوں نے اس کو اپنی طرف کھینچا اورباہم اس قدر کشمکش ہوئی کہ اس کے کپڑے پر زے پرزے ہوگئے۔ (طبری ،صفحہ:۲۵۸۳) ومیاط کی فتح کے بعد جب اسلامی فوجیں آگے بڑھیں تو بقارہ اوردرادہ سے لے کر عسقلان تک ہر جگہ اسلام پھیل گیا۔ (مقریزی،صفحہ:۱۸۴) شطا مصر کا ایک مشہور شہر ہے، وہاں کا رئیس پہلے ہی سے مسلمانوں کی طرف مائل تھا، جب اسلامی فوجیں دمیاط میں پہونچیں تو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ نکل کر مسلمانوں سے جا ملا، اورمسلمان ہوگیا۔ (مقریزی، جلد۱،صفحہ :۲۲۶) ان نو مسلموں کی اس قدر کثرت ہوئی کہ وہ الگ الگ محلوں میں آباد کرائے گئے،چنانچہ فسطاط میں تین محلے قائم کئے گئے جن میں دو محلے یونانی نو مسلموں کے اورایک یہودی نومسلموں کا تھا اوران کا خاندان اس قدر وسیع تھا کہ ایک ایک معرکہ میں ان کے ہزار ہزار آدمی شریک ہوتے تھے۔ (مقریزی،جلد اول ،صفحہ ۲۹۸) حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں بھی بہت کچھ اسلام کی اشاعت ہوئی، ان کے زمانے میں جب آذر بائیجان والوں نے بغاوت کی اور اشعث بن قیس نے اس کو فتح کرکے ان کے ساتھ معاہدہ صلح کیا تو وہاں بہت سے عرب آباد کروادیئے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں ان لوگوں کی ہدایت وارشاد کایہ اثر ہوا کہ اشعث بن قیس دوبارہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے آذر بائیجان کے گورنر مقرر ہوکر آئے تو ان میں اکثر لوگ مسلمان ہوکر قرآن مجید پڑھ چکے تھے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۳۳۷) ایک بار بہت سے رومی لونڈیاں گرفتار ہوکر آئیں تو حضرت عثمان ؓ نے ان کو دعوتِ اسلام دی اوران میں سے دو اسلام لائیں۔ (ادب المفرد باب خفض المراۃ) حضرت امیر معاویہؓ کے عہد خلافت میں بھی بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ؛چنانچہ جب انہوں نے افریقہ کو فوج روانہ کی تو نافع بن قیس قریشی نے جو برقہ اور زویلہ کے گورنر تھے اس میں ان برابرہ کو بھی داخل کیا جو اسلام لاچکے تھے، اس فوج گراں کے ساتھ جب نافع نے افریقہ کے شہروں پر حملہ کیا تو اور بھی بہت سے بربراسلام لائے ،معجم البلدان میں ہے۔ واسلم علی یدہ بخلق من البربر وفشافیھم دین اللہ حتی اتصل ببلاد السودان (معجم البلدان،ذکر قیروان) ان کے ہاتھ پر بہت سے بربراسلام لائے اوران میں خدا کا دین پھیل گیا،یہاں تک کہ سوڈان تک پہونچ گیا۔ غیر قوموں کے علاوہ عرب نے ابتدا ہی سے نہایت ذوق و شوق کے ساتھ اسلام قبول کرنا شروع کیا ؛چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے عراق پر حملہ کیا تو ربیعہ وغیرہ کے جو قبائل وہاں آباد تھے سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (طبری،صفحہ۱۲۲۲) حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب حضرت ابو عبیدہؓ نے قنسرین پر حملہ کیا تو قبیلہ تنوج کے بہت لوگ مسلمان ہوگئے جو لوگ عیسائیت پر قائم رہے ان میں بھی ایک جماعت نےخلیفہ مہدی کے زمانے میں اسلام قبول کرلیا، قبیلہ طے کے جو لوگ یہاں آباد تھے ان میں بھی بہت سے لوگ اسلام لائے،جن لوگوں نے جزیہ پر مصالحت کرلی تھی وہ بھی کچھ دنوں کے بعد دائرہ اسلام میں شامل ہوگئے ،حلب کے آس پاس جو عرب آباد ہوگئے تھےا س سلسلہ میں انہوں نے پہلے تو جزیہ پر مصالحت کرلی پھر بعد کو اسلام قبول کرلیا،(فتوح البلدان،صفحہ ۱۵۲) اسی طرح جب مسلمان شام میں آئے تو بہت سے شامی عرب مسلمان ہوگئے۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۱۵۷) تکریت پر حملہ ہوا تو تغلب ،ایاد،تمروغیرہ کے جو قبائل وہاں آباد تھے سب کے سب اسلام لائے اور مسلمانوں نے انہی کی جاسوسی سے تکریت کو فتح کیا۔ (طبری ،صفحہ،۲۴۷۵) ابتدائے اسلام سے خلفاء کے زمانے تک جن قوموں اورجن ملکوں میں اسلام پھیلا یہ اس کی نہایت سادہ تاریخ ہے، اب تاریخی حیثیت سے صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں اسلام کیونکر پھیلا؟ یورپ کے نزدیک اس سوال کا جواب ہمیشہ تلوار کی زبان نے دیا ہے ؛لیکن ہم نے جو واقعات جمع کردیے ہیں ان میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جس سے جبری اسلام کی شہادت مہیا کی جاسکے، عہد نبوت میں صحابہ کرام کے مساعی جمیلہ سے اسلام کی جو کچھ اشاعت ہوئی وہ محض ان کے وعظ و پند، ہدایت وارشاد، فضائل اخلاق اور ذاتی رسوخ و اقتدار کے بدولت ہوئی، عہد خلافت میں بے شبہ فتوحات کے ساتھ ساتھ اشاعتِ اسلام نے بھی وسعت و عمومیت حاصل کی؛ لیکن اس زمانہ میں بھی کسی سے تلوار کی زبان سے کلمہ نہیں پڑھوایا گیا۔ (۱)بلکہ چند لوگوں نے تو صرف صحابہؓ کے فضائل اخلاق کی بنا پراسلام قبول کیا،چنانچہ جنگ قادسیہ میں ایک ایرانی گرفتارہوکرآیا اورمسلمان ہوگیااس کو مسلمانوں کی وفاداری، راست بازی اور ہمدردی کا منظر نظر آیا تو بے ساختہ کہنے لگا کہ جب تک تم میں یہ اوصاف موجود ہیں تم شکست نہیں کھاسکتے، اب مجھے ایرانیوں سے کچھ مطلب نہیں۔ (طبری،صفحۃ۲۲۶۴) شطا جو مصر کا ایک بہت بڑا رئیس تھا، مسلمانوں کی اخلاقی حالت کا چرچا سن کر گرویدہ اسلام ہوگیا اوردوہزار آدمیوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا، تاریخ مقریزی میں ہے۔ فخرج شطا فی الفین من اصحابہ و الحق بالمسلمین وقد کان قبل ذالک یحب الخیر ویمیل الی مایسمعہ من سیرۃ اھل الاسلام شطا دوہزار آدمیوں کے ساتھ نکلا اورمسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگیا، وہ پہلے نیکی کو دوست رکھتا تھا اورمسلمانوں کے محاسن اخلاق کو سن کر ان کی طرف مائل تھا۔ صحابہؓ کے محاسن اخلاق میں مساوات ایک ایسا وصف تھا جو خود قلوب کو اپنی طرف مائل کرتا تھا، بالخصوص جب مسلمانوں کی مساویانہ طرز معاشرت کا ایرانیوں کی ناہموار طرز معاشرت سے مقابلہ ہوتا تھا تو یہ وصف خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہوجاتا تھا اورحق پسند لوگ خواہ مخواہ بندوں کی غلامی سے رہائی حاصل کرنا چاہتے تھے،چنانچہ ایک بار زہرہ نے رستم سے دوران گفتگو میں اسلام کے جو محاسن بتائے ان میں ایک یہ تھا۔ اخراج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ تعالی۔ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں داخل کرنا اسلام کا اصلی مقصد ہے۔ رستم نے یہ سن کر کہا لیکن ایرانیوں نے تو اروشیر کے زمانے سے طبقہ سافلہ کے پیشے متعین کردیئے ہیں اورکہتے ہیں کہ اگر وہ اس دائرے سے نکلے تو شرفاء کے حریف بن جائیں گے، رفیل ایک شخص ابتدا ہی سے اس گفتگو کو سن رہا تھا اس پر اس کا یہ اثر ہوا کہ رستم چلا گیا تو اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ (طبری) (۲)بہت سے لوگ دعوت و تبلیغ سے اسلام لائے،مثلاً مثنی بن حارثہ شیبانی کی کل قوم اس کی دعوت سے اسلام لائی ،ایک بار بہت سی رومی لونڈیاں آئیں، حضرت عثمانؓ نے ان کو دعوتِ اسلام دی اوران میں سے دو مسلمان ہوگئیں، قنسرین اورحلب پر حملہ ہوا تو وہاں کے عرب قبائل حضرت ابو عبیدہؓ کی دعوت سے اسلام لائے۔ جب اشعث بن قیس نے حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں آذر بائیجان کو فتح کیا تو وہاں اہل عرب کی ایک جماعت مقرر کردی کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں؛ چنانچہ اس مقدس جماعت کے اثر سے چند ہی دنوں میں بہت سے لوگ مسلمان ہوکر قرآن مجید کی تعلیم سے بہرہ اندوز ہوگے۔ (۳)بہت سے لوگوں نےاپنی خوشی اور رضا مندی سے اسلام قبول کیا؛چنانچہ جنگ اسکندریہ کے بعد جب اسیران جنگ کو جب اختیار دیا گیا کہ وہ چاہے تو اسلام قبول کریں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں، تو ان میں بہت سے قیدیوں نے خود بخود اسلام قبول کرلیا۔ (۴)بعض لوگ بے شبہ مغلوب ہوکر اسلام لائے؛ لیکن ان کو اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا گیا؛ بلکہ ان کو خود نظر آیا کہ اب ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوجائیں ؛چنانچہ جنگ قادسیہ میں رستم کے قتل کے بعد پرویز کی باڈی گارڈ فوج نے کہا کہ ہماری حالت ایرانیوں سے مختلف ہے اب ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں ہم نے ایرانیوں کے لئے کوئی نمایاں کام نہیں کیا اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم مسلمانوں کے دین میں داخل ہوکر ان کے ذریعہ سے عزت حاصل کریں،(فتوح البلدان،صفحہ ۲۸۹) سیاہ اسواری نے اپنے رفقاکے ساتھ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو کہا کہ ہم لوگ پہلے ہی سے کہتے تھے کہ یہ لوگ (مسلمان) سلطنت پر غالب ہوجائیں گے اوراصطخر کے محل ان کے گھوڑوں کے اصطبل بن جائیں گے اب تم ان کا غلبہ اعلانیہ دیکھ رہے ہو،سوچو، اوران کے دین میں داخل ہوجاؤ۔ نو مسلموں کا تکفل اسلام کی ابتداء نہایت غربت کے ساتھ ہوئی اوراس کے ساتھ وہ ابتدا میں یہ قربانیاں دینی پڑتی تھیں کہ جو شخص اس کو قبول کرتا تھا اس کو مجبوراً اپنے گھر بار ،اہل و عیال اوردولت ومال سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا، اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوتے تھے، اسلام ہی کو ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا نظم کرنا پڑتا تھا،اس بنا پر آنحضرت ﷺ نے حضرت بلالؓ کو اس خاص خدمت پر مامور کردیا تھا کہ جو محتاج مسلمان آئیں قرض لے کر ان کے کھانے اور کپڑے کا انتظام کردیں، اس کے بعد جب کہیں سے مال آتا تو وہ قرض ادا کردیا جاتا ،(ابوداؤد کتاب الخراج باب فی الامام یقبل ہدایا المشکرین) لیکن صحابہؓ کی ذاتی فیاضیاں بھی بہت کچھ اس کارخیر میں حصہ لیتی تھیں، بالخصوص حضرت ابوبکرؓ کو اکثر اس کی توفیق ہوتی تھی ان کو تجارتی کاروبار نے نہایت دولتمند بنادیا تھا اوران کی دولت کا بڑا حصہ مسلمانوں کی دستگیری اور اعانت میں صرف ہوتا تھا اصابہ میں ہے: وعندہ اربعون الفا فکان یعتق منھا ویعول لمسلمین ان کے پاس چالیس ہزار تھے جن سے وہ غلاموں کو آزاد کراتے تھے اور مسلمانوں کا تکفل فرماتے تھے۔ حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا ایک نہایت دولت مند اورفیاض صحابیہ تھیں ،اس لئے ان کا گھر گویا مسلمانوں کا مہمان خانہ بن گیا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ان کے یہاں صرف اس بنا پر عدت بسر کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ان کے گھر میں مہمان کی کثرت سے پردہ کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا، (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثا لاففقہ لہاد کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب فی خروج الدجال) حضرت درہ بنت لہب ؓ بھی نہایت فیاض تھیں اور مسلمانوں کوکھانا کھلایا کرتی تھیں، (اصابہ تذکرہ درۃ) کبھی کبھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ایک بارقبیلہ بنو عذرہ کے تین شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ،آپ ﷺنے فرمایا ان کا بار کون اٹھائے گا حضرت طلحہؓ نے کہا "میں"۔ (مسند جلد۱،صفحہ ۱۶۳) مہاجرین میں جو لوگ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو صحابہؓ کے حوالے کردیتے تھے اورصحابہ ان کو تعلیم دیتے تھے اوران کی معاش کے متکفل ہوتے تھے ؛چنانچہ تعلیم قرآن کے عنوان میں اس کی مثالیں آئیں گیں۔