انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مفاخرت ان حالات میں ظاہر ہے کہ اہل عرب کے اندر دو ہی چیزیں خوب ترقی کرسکتی تھیں،ایک شعر گوئی جس کے لئے وسیع فرصتیں اورکھلے میدان میں راتوں کو بے کار پڑے رہنا کافی محرک تھے،دوسرے حفاظت خود اختیاری کی مسلسل مشق اور صعوبت کشی کی عادت نے اُن کو جنگ و پیکار اور بات بات پر معرکہ آرائی اورزور آزمائی کا شوقین بنادیا تھا،آپس میں معرکہ آرائیوں کے میدان گرم رکھنے کے سبب وہ خود ستائی اورباہمی تفاخر کی جانب بھی زیادہ مائل ہوگئے تھے فخر و تعلی کے لئے بہادری اورسخاوت دو مضمون بہت دلچسپ تھے،بے کاری اور شاعری نے اُن کو عشق بازی اوراُن کے امراء کو شراب خوری کی طرف بھی متوجہ کردیا تھا،بہادری اورسخاوت نے ان کو اعلیٰ درجہ کا مہمان نواز اورقول و قرار کا پکا بناکر مستحق تکریم بنادیا تھا،جوا،تیر اندازی ،مشاعرے،مفاخرت،مسابقت وغیرہ اُن کے دل بہلانے کے مشاغل تھے،غرض کہ عرب والوں کے اخلاق ملکِ عرب اوراس کی آب و ہوا نے بے ساختہ طور پر مرتب کردیئے تھے،عرب بائدہ کی طرف حضرت ہود علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام وغیرہ کئی نبی مبعوث ہوئے اوران انبیاء کی نا فرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تمام طبقہ ہلاک وبرباد ہوا،دوسرے طبقہ یعنی قحطانی عربوں کی طرف بھی بعض ہادی مبعوث ہوئے اوراہل عرب بہت کم اُن کی طرف متوجہ ہوسکے؛چنانچہ نافرمانیوں اور سرکشیوں کی پاداش میں بار بار اُن پر بھی ہلاکتیں وارد ہوئیں،اس ملک کے باشندوں کی سرکشی و آزد مزاجی نے ان کو تعلیمات انبیاء سے بھی زیادہ مستفیض نہ ہونے دیا،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام پر بھی اس ملک کے تھوڑے سے آدمی ایمان لائے تھے،دین ومذہب کے معاملہ میں اُن کے فخرِ نسب اور خود ستائی نے ان کو اپنے نسبی بزرگوں کی مدح سرائی پر متوجہ کرکے بآسانی مشاہیر پرستی پر آمادہ کرکے اوربالآخر انہیں کے ناموں کے بُتوں کی پوجا کا عادی بنادیا تھا،بُت پرستی نے ان کو اوہام پرستی اورعجیب عجیب حماقتوں میں مبتلا کردیا تھا،جب قحطانی قبائل کا زور ملک میں کم ہونے لگا اور بنی اسمعیل یا عدنانی قبائل نے زور پکڑنا شروع کیا تو قبیلہ خزاعہ کی مکہ پر چڑھائی اور قبیلہ جُرہم کی شکست نے عدنانی قبائل کو اطرافِ ملک میں پریشان و آوارہ کرکے حجاز میں بنی اسرائیل کے اُبھرتے ہوئے زور کو سخت صدمہ پہنچایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے ہر حصہ اور ہر صوبہ میں عدنانی وقحطانی قبائل ایک دوسرے کے ہمسر ومد مقابل نظر آنے لگے اور اس طرح تمام جزیرہ نمائے عرب میں آزاد ومطلق العنان چھوٹے چھوٹےقبائل کے سواکوئی بھی بڑی اور قابل تذکرہ حکومت باقی نہ رہی،اگرچہ ملک عرب کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی طوائف الملوکی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھیں،اور کسی عربی بادشاہ کی حکومت اپنی رعایا پر ایسی بھی نہ تھی جیسی کہ فارس کے کسی معمولی سے جاگیر دار یا اہل کار کی باشندگانِ فارس پر ہوتی تھی،تاہم اس طوائف الملوکی اورقبائل کی آزادی کے زمانے میں ملکِ عرب کے اندر بد تمیزیوں،ناہنجاریوں،بداخلاقیوں نے اوربھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی اوریہ ترقی اپنی پوری تیز رفتاری اورزبردست طاقت کے ساتھ اس وقت تک جاری رہی جب تک اس تاریک تر ملکِ عرب میں آفتابِ اسلام طلوع ہوا۔ اہل عرب کی بڑی تعداد خانہ بدوشی کی حالت میں رہتی تھی اوربہت ہی تھوڑے لوگ تھے جو قصبوں اورآبادیوں میں مستقل سکونت رکھتے تھے،اہل عرب کہ اپنے نسب کے سلسلے یاد اورمحفوظ رکھنے کا بہت شوق تھا، آباواجداد کے ناموں اور کاموں کو وہ فخریہ بیان کرتے اوراسی ذریعہ سے لڑائیوں میں جوش اوربہادری دکھانے کا شوق پیدا ہوتا تھا،ملک کی آب وہوا کا اثر تھا یا نسب دانی کے شوق کا نتیجہ تھا کہ اہل عرب کی قوتِ حافظہ بہت زبردست تھی،کئی کئی سو اشعار کے فصیدے ایک مرتبہ سن کر یاد کرلینا اورنہایت صحت کے ساتھ سُنادینا ان کے لئے معمولی بات تھی،شاعری اور قادر الکلامی کے عام شوق نے ان کی زبان کو اس قدر ترقی یافتہ حالت تک پہنچادیا تھا کہ وہ بجا طور پر تمام غیر عرب کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے،اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی کسی دوسرے قبیلہ کے ہاتھ سے مارا جاتا تو جب تک تمام قبیلہ اس دوسرے قبیلہ سے اپنے مقتول کا بدلہ نہ لے لے چین سے نہیں بیٹھتا تھا،قصاص نہ لینا اورخاموش ہوکر بیٹھ رہنا ان کے نزدیک بڑی بھاری بے عزتی کی بات سمجھی جاتی تھی،خانۂ کعبہ کی عظمت اوربیت اللہ کا حج تمام قبائل عرب میں ہر زمانہ میں مروّج رہا ہے،مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کے مقابلہ پر مستعد ہونا بھی ان میں ایک خوبی سمجھی جاتی تھی،بزدلی اورکنجوسی کو وہ سب سے بڑا عیب جانتے تھے۔