انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** استحقاق خلافت قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ زمین پر حکومت وسلطنت یعنی خلافت کا عطا کرنا یا حکومت و سلطنت کا کسی سے چھین لینا خدائے تعالی ہی کا خاص کام ہے اگر چہ ہر ایک کام کا فاعل حقیقی خدائے تعالی ہی ہے؛ لیکن اس نے خلافت وسلطنت کے عطا کرنے کا فاعل ہر جگہ اپنے آپ ہی کو ظاہر فرمایا ہے،اس فعل کو استعارۃبھی کسی دوسرے کی طرف نسبت نہیں کیا گیا ایک جگہ صاف طور پر فرمایا "قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ"،اب دیکھنے اور غور کرنے کے قابل بات یہ ہے کہ خدائے تعالی کن لوگوں کو خلافت یا حکومت عطافرماتا ہے،یعنی جو لوگ خلافت حاصل کرتے ہیں ان کے امتیازی نشانات کیا ہیں، آدم یا بنی آدم کو جو زمینی مخلوقات پر حکمرانی حاصل ہے،اس کا سبب قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم ہے "وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا"فرشتوں نے سفک دم اورفساد کو خلافت الہیہ کے منافی سمجھا اور خدائے تعالی کی تحمید وتقدیس بیان کرنے کو خلافت کا استحقاق اور علامت قرار دیا،ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،نوع انسان کو محض وسعت علم ہی کے سبب تمام دوسری مخلوقات پر حکمرانی وفرماں روائی حاصل ہے،اگر انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت علمی حاصل نہ ہو تو اس کا ایک جھونکا،پانی کی ایک لہر،درخت کا ایک پتہ اور جمادات کا ایک ذرہ انسان کو عاجز کرسکتا ہے اوراس کو فنا کے گھاٹ اتار سکتا ہے مگر علم کی بدولت شیر ،ہاتھی، دریا،پہاڑ،ہوا،آگ بجلی وغیرہ سب انسان کی خدمت گزاری و فرماں برداری اور راحت رسانی پر مستعد غلاموں کی طرح فرماں بردار نظر آتے ہیں، قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب طالوت کی بادشاہت پر لوگوں نے اعتراض کیا تو خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کی معرفت معترضین کو جواب دیا کہ ‘‘إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ’’ یعنی طالوت کو خدائے تعالی نے بادشاہت کے لئے منتخب فرمالیا اور علم اور جس میں وسعت عطا کی اور اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے سلطنت عطا فرماتا ہے اورحکومت عطا فرماتا ہے، اوراللہ ہی صاحب وسعت اور صاحب علم ہے،حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت وخلافت عطا فرما کر خدائے تعالی نے حکم دیا کہ‘‘فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى’’پھر ایک جگہ فرمایا‘‘وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ، ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ’’ قرآن کریم سے اسی قسم کی سینکڑوں آیات تلاش کی جاسکتی ہیں کہ خلیفہ سے مراد حکمراں اور خلافت سے مراد سلطنت ہے اور سلطنت وحکمرانی کے لئے علم، عدل ،اصلاح ،قوت اوررفاہِ خلائق کی شرطیں لازمی ہیں جن کی ہمیشہ بادشاہوں اور خلیفوں کو ضرورت رہی ہے اور بغیر ان شرائط وصفات کے کوئی بادشاہ یا کوئی سلطان اپنی بادشاہت اورسلطنت کو قائم نہیں رکھ سکتا،یہ تمام صفات حسنہ پیغمبروں اوررسولوں کی تعلیمات سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں؛ لیکن یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر ایک رسول اور ہر ایک پیغمبر بادشاہ بھی ضروری ہو،خلافت کے لئے اگر محض عبادت اورخدائے تعالی کی تحمید وتقدیس کا بجا لانا ہی ضروری ہوتا تو صرف پیغمبر یا فرشتے ہی دنیا میں حکمران نظر آتے اوران کے سوا کسی کو سلطنت وحکمرانی میسر نہ آتی مگر مشاہدہ اس کی تائید کررہا ہے،پس نتیجہ اس تمام تحقیق کا یہ نکلا کہ خلافت در حقیقت حکمرانی وسلطنت ہے نہ کچھ اور خلیفہ یا بادشاہ خدائے تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بناتا ہے اورجب کوئی حکمراں قوم من حیث القوم ظلم وفساد پر اتر آتی ہے تو اس سے خدائے تعالی حکومت یا خلافت چھین لیتا ہے اور جس دوسری قوم کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔