انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یہودیوں کا معاندانہ رویہّ یہودی بھی مسلمانوں کے اقتدار اورمذہب اسلام کی اشاعت کو بہت مکروہ سمجھتے تھے اوران کی عداوت عبداللہ بن ابی کی عداوت سے بڑھی ہوئی تھی،مدینہ کی متعلقہ بستیوں یا یوں سمجھئے کہ مدینہ کے نواحی محلوں میں یہودیوں کے تین قبیلے بہت طاقتور تھے اوراپنی جُد ا جُدا گڑھیاں یا قلعے رکھتے تھے،ان تینوں قبیلوں کے نام یہ تھے: بنی قینفاع،بنی نضیر،بنی قریظہ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں تشریف لاتے ہی جو معاہدہ مرتب فرمایا تھا اس میں یہ تمام قبیلے یہودیوں کے شامل تھے،قریش نے جس طرح عبداللہ بن ابی کے ساتھ ساز باز شروع کیا تھا،اسی طرح وہ ان یہودیوں کو بھی برابر اپنا ہمساز بنانے میں مصروف رہے،یہودیوں کو چونکہ مسلمانوں کی ترقی دل سے ناپسند تھی لہذا وہ قریش کی ہمدردی اورمسلمانوں کی بربادی کے لئے برابر کوشاں رہے اب جنگِ بدر کے بعد ان کی عداوت مسلمانوں کے ساتھ اور بھی بڑھ گئی اورآتشِ حسد میں جل کر وہ کباب بن گئے؛چنانچہ جب بدر سے فتح کی خوش خبری لے کر حضرت زیدؓ بن حارث مدینہ میں پہنچے ہیں تو کعب بن اشرف نامی ایک یہودی نے اس خبر کو سُن کر حضرت زیادؓ سے کہا کہ تیرا بُرا ہو، مکہ والے لوگوں کے بادشاہ اوراسرافِ عرب ہیں،اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر فتح پائی ہے تو پھر اس زمین پر رہنے کا کوئی لطف باقی نہیں رہا۔ جب اس خبر کی خوب تصدیق ہوگئی تو کعب بن اشرف مدینہ چھوڑ کر مکہ کی جانب چلا گیا مکہ میں جاکر اس نے مقتولین بدر کے نوحے لکھنے اورسُنانے شروع کئے اور چند روز تک اپنے اشعار سُنا سُنا کر اہل مکہ کی آتش انتقام کے بھڑکانے میں مصروف رہا،پھر مدینہ میں واپس آکر مسلمانوں کی ہجو میں اشعار لکھتا اورمسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتا رہا،یہودی سب کے سب سود خوار اوربڑے مال دار تھے،قبائل اوس اورخزرج یعنی انصارِ مدینہ ان یہودیوں کے مقروض اورمالی اعتبارسے ان کے دبیل تھے۔ یہودیوں کو اپنی دولت اورچالاکیوں پر بھی بڑا گھمنڈ تھا، وہ اپنے آپ کو بڑا معزز اورشریف جانتے اورہمسایہ قبائل اوربے وقوف سمجھ کر خاطر میں نہ لاتے تھے،جنگ بدر کے بعد وہ پورے طور پر قریش مکہ کے ہمدرد وشریک کار بن گئے،عبداللہ بن ابی اوریہودیوں کے درمیان دوستی اورمحبت قائم ہوئی اورمسلمانوں کے خلاف مدینہ کے منافقوں اوریہودیوں نے بڑی بڑی عظیم الشان اورخطرناک تدبیریں سوچیں اور قریشِ مکہ کی مہمات کو کامیاب بنانے کا اہتمام گویا اپنے ہاتھ میں لے لیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبو لیت اوراثر کو مٹانے کے لئے عام طور پر بد زبانیوں کا سلسلہ بھی برابر جاری کیا گیا، آپ کی مجلس میں بھی آ آ کر ہتک آمیز اوربیہودہ کلمات کہنے شروع کئے،السلام علیکم کی جگہ السام علیکم (تم پر موت آئے) کہتے راعنا(ہماری رعایت کیجئے یا ہماری بھی بات سنئے) کی جگہ رعن(احمق ہے) وغیرہ ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے منافقوں اور یہودیوں نے مل کر یہ بھی منصوبہ گانٹھا کہ اول بظاہر مسلمان ہوجاؤ اورپھر یہ کہہ کر کہ ہم نے مسلمان ہوکر دیکھ لیا ہے کہ یہ مذہب اچھا نہیں ہے ،مرتد ہوجاؤ،اس طرح ممکن ہے کہ بہت سے مسلمان بھی ہمارے ساتھ مرتد ہوجائیں اوران کی جمعیت منتشر ہوجائے،غرض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے جلسوں اورمجمعوں میں خود جاجا کر ان کو نصیحتیں کیں اورکہا کہ تم خوب واقف ہو کہ میں خدائے تعالیٰ کا سچا رسول ہوں،اورتم خود خدائے تعالیٰ کی طرف سے رسول کے آنے کا انتظار کررہے تھے،تمہارا فرض تھا کہ سب سے پہلے میری تصدیق کرتے اوراپنی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی پیش گوئیوں کو تلاش کرتے،تم انکار اور مخالفت میں ترقی کررہے ہو، خدا کے غضب سے ڈرو،ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اسی طرح عذابِ الہی نازل ہو جس طرح ابو جہل و عتبہ وغیرہ کا انجام ہوا کہ میدانِ بدر میں ذلیل ونامراد ہوکر مرے،یہودیوں نے بجائے اس کے کہ نصیحت حاصل کرتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت وسست جواب دیئے اورکہا کہ قریش مکہ تدبیراتِ جنگ سے ناواقف تھے،ہم سے جب مقابلہ کروگے تو قدر وعافیت معلوم ہوجائے گی،ہم کو قریشِ مکہ کی طرح نہ سمجھنا۔