انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کی ابتداء عہد جاہلیت کے مشہور شاعر اُمیہ بن صلت نے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی تحریر کی ابتداء " باسمک اللھم " ( یا اللہ تیرے نام سے شروع ہے ) سے کریں ، شروع میں تو آنحضرت ﷺ بھی اسی طرح لکھوایا کرتے تھے؛ لیکن سورۂ ہود کی۴۱ ویں آیت نازل ہونے کے بعد بسم اللہ لکھنے کا رواج ہوا:، (ترجمہ ) " (نوح علیہ السلام ) کہا اس میں سوار ہوجاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقینا میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے" ( سورۂ ھود : ۴۱ ) پھرسورۂ بنی اسرائیل کی ۱۱۰ ویں آیت نازل ہوئی : (ترجمہ ) " کہہ دو کہ تم اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں، " ( سورۂ بنی اسرائیل : ۱۱۰ ) سورۂ نمل کی آیت نمبر ۳۰ نازل ہونے کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جانے لگا ، (ترجمہ ) " یہ سلیمان کی جانب سے ہے اوریہ کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے " ، ( سورۂ نمل : ۳۰ ) اس کے بعد ہر تحریر کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جانے لگا ،عیسائی بادشاہوں کو لکھے جانے والے خطوط میں سورۂ آل عمران کی ۶۴ ویں آیت تحریر کروائی گئی جو اس طرح ہے: (ترجمہ ) " (اے پیغمبر) کہہ دو کہ اہل کتاب اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں طور پر(مسلم ) ہے وہ یہ کہ اﷲ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم سے کوئی کسی کو اﷲ کے سوا (اپنا)کارساز نہ بنائے، اگر یہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو ان سے کہہ دو کہ تم گواہ ہو کہ ہم (تو صرف اﷲ کے) فرمانبردار ہیں۔ (سورہ آل عمران : ۶۴) ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پانچ خطوط مبارک اصلی حالت میں دریافت ہوئے ہیں جو حسب ذیل ہیں: ۱ - بنام مقوقس ۲- بنام نجاشی ۳ - بنام المنذر ساویٰ ۴ - بنام ہرقل ۵ - بنام خسرو پرویز ان اصلی نامہ ہائے مبارک کے علاوہ (۲۵۰ ) سے زیادہ مکتوبات اور وثیقہ جات مختلف ماخذوں اور مصادر خطوط میں ملے ہیں ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ۱۹۴۲ ء میں اسے عربی میں مصر سے " الوثائق الیاسیہ فی العہد النبوی و الخلافتہ الر اشدہ " کے نام سے شائع کیا جس کا اردو ترجمہ " سیاسی وثیقہ جات " کے نام سے شائع ہوا ہے،