انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عالمِ آخرت پر ایمان کا فائدہ اب جو شخص عالم آخرت پر ایمان رکھے گا اس کی نظر ہمیشہ ہر عمل خیرو شر میں آخری نتیجہ پر ہوگی، وہ اپنے عمل کے سامنے دنیا کا فائدہ یا نقصان صرف ایک عارضی اور وقتی چیز سمجھے گا اوراصل چیز آخرت کا دائمی فائدہ ونقصان ہے اور وہ ہمیشہ نیکی کے راستے پر چلے گا چاہے اس کی وجہ سے دنیا کا کتنا ہی بڑا نقصان اٹھا نا پڑے اوربرائی سےلازماً بچے گا چاہے اس برائی سے دنیوی کتنا ہی فائدہ اسے کیوں نظر نہ آئے؛نیز ایسے شخص کے اعمال واخلاق بھی لائق تحسین ہونگے،کسی دنیوی فائدے ونقصان کے محتاج نہیں ہوں گے،اس عقیدہ کا انسانی زندگی کے سدھار وبناؤ میں بڑادخل واثرہے، چنانچہ والیٹر کہتا ہے، خدا اور دوسری زندگی کے تصور کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ وہ اخلاقیات کے لیے مفروضے کا کام دیتے ہیں، اس کے نزدیک صرف اسی کے ذریعہ سے عمدہ اخلاق کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے، اگر یہ عقیدہ ختم ہوجائے تو حسن عمل کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا اور اسی طرح سے سماجی نظم کا برقرار رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ (اسلام مکمل دین مستقل تہذیب:۱۶۱،۱۶۲) دراصل یہ عقیدہ ہی انسان کو برائیوں سے روکتا اور بھلائیوں پر آمادہ ومجبورکرتا ہے، قانون حکومت بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا؛ اس لیے کہ یہ معلوم ہے کہ حکومت کی سزا کیسی ہی سخت ہو وقتی وعارضی ہوتی ہے اور آخرت کی سزا ہمیشہ کی اور سخت ترین ہوگی اور مشاہدہ وتجربہ بھی یہی ہے کہ اس یقین کے حامل لوگ ہی پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں۔ البتہ اس کی تفصیلات زبان نبوت کے ذریعہ ہی جانی جاسکتی ہیں، عقل سے نہیں؟ اس لیے کہ آخرت کی نسبت سے عقل کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ بچہ کو جوکہ ماں کے پیٹ میں ہو،اسے دنیا کی خبر پہنچائی جائے تو وہ ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا نہ یقین کرسکتا ہے، اس لیے انبیاء پر یقین کی بناپر ان باتوں کا ہمیں یقین کرنا ہوگا، آخرت کا پہلا مرحلہ زندہ ہوکر اللہ کے حضور میں پیشی اور پوچھ گچھ کا ہوگا اور دوسرا مرحلہ اللہ کے فیصلہ کے مطابق جائے قیام یعنی جنت یا دوزخ میں جانا ورہنا ہوگا۔