انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسمعیل صفوی کا حال اسمعیل صفوی کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے ،اسمعیل بن حیدر بن جنید بن ابراہیم بن خواجہ علی بن صدر الدین بن شیخ صفی الدین بن جبرئیل ،اس خاندان میں سب سے پہلے جس شخص نے شہرت ونام وری حاصل کی وہ شیخ صفی الدین تھے جو ارد بیل میں سکونت پذیر اورپیری مریدی کرتے تھے انہیں کے نام سے اس خاندان کا نام صفوی خاندان مشہور ہوا جب شیخ صفی الدین کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے صدر الدین نے باپ کا خرقہ سنبھالا اوراپنے باپ کے مریدین اور حلقہ اثر میں پیر طریقت تسلیم کئے گئے شیخ صدرالدین سلطان بایزید یلدرم اورتیمور کے ہم عصر تھے تیمور نے ۸۰۴ھ میں سلطان بایزید یلدرم کو شکست دے کر گرفتار کیا تو اس کے ساتھ اور بھی بہت سے ترک سپاہی اس لڑائی میں قید ہوئے،تیمور اس فتح کے بعد اردبیل پہنچا تو وہاں عقیدتاً یا مصلحتاً شیخ صدر الدین کی خانقاہ میں بھی گیا اورشیخ سے کہا کہ اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہویا کوئی کام میرے کرنے کا ہو تو فرمائیے میں اس کو ضرور پورا کروں گا،شیخ ص در الدین نے کہا کہ جنگ انگورہ میں جس قدر ترک سپاہی تم نے قید کئے ہیں ان سب کو رہا کردو،تیمور نے فوراً ان کے آزاد کرنے کا حکم دیا، یہ ترک قیدی آزاد ہوتے ہی شیخ کے مرید ہوئے اوراردبیل ہی میں طرح اقامت ڈال کر شیخ صدر الدین کی خدمت گزاری میں مصروف رہنے لگے،شیخ صدر الدین نے چونکہ سفارش کرکے ان کو آزاد کرایا تھا، اس لئے انہوں نے اس احسان کا بدلہ یہی مناسب سمجھا کہ شیخ کے مریدوں میں شامل ہوکر اپنی بقیہ زندگی شیخ کی خدمت میں گزاردیں ،جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان ترک قیدیوں کی اولاد بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ان کی عقیدت وفرماں برداری شیخ اور شیخ کی اولاد کے ساتھ ترقی کرتی گئی،تیمور کی وفات کے بعد تیموری سلطنت اس کی اولاد میں تقسیم ہوکر پارہ پارہ ہوگئی تھی،بحیرۂ اسود کے درمیانی علاقے یعنی آذر بائیجان میں ترکمانوں کے قبیلۂ قراقو نیلونے تیمور کے بعد ہی اپنی حکومت دوبارہ قائم کرلی تھی، اس طرح کردستان یعنی عراق کا شاملی حصہ ترکمانوں کے دوسرےقبیلہ آق قونیلو کے حصہ میں آگیا ترکمان آق قونیلو کردستان میں تیمور ہی کے زمانہ سے بطور باج گزار فرماں روا تھے،قراقو نیلو کا سردار قرایوسف ترکمان تیمور سے برسر خاش اوراس کی زندگی میں مصر وغیرہ کی طرف فرار رہا ،تیمور کی وفات کا حال سنتے ہی واپس آکر آسانی سے آذر بائیجان پر قابض ومتصرف ہوگیا، اردبیل،آذر بائیجان کا ھاکم نشین شہر تھا اورکردستان کا دارالسلطنت دیار بکر تھا، شیخ صدر الدین کا پڑپوتا شیخ جنید تھا، شیخ جنید کے زمانے میں مریدوں کی اس قدر کثرت ہوئی کہ جہاں شاہ ابن قرایوسف ترکمان بادشاہ آذربائیجان نے متوہم ہوکر شیخ جنید کو حکم دیا کہ آپ اردبیل سے تشریف لے جائیں اس حکم کی تعمیل میں شیخ جنید اپنے مریدوں کے ساتھ جو قریبا سب انہیں مذکورہ ترک قیدیوں کی اولاد تھے ازدبیل سے رخصت ہوکر دیار بکر کی طرف روانہ ہوا،دیار بکر یعنی کردستان کا بادشاہ اس زمانے میں حسن طویل آق قونیلو تھا، اس نے جب شیخ جنید کی اس طرح تشریف آوری کا حال سنا تو بہت خوش ہوا اورنہایت عزت واحترام کے ساتھ شیخ کا استقبال کیا اور عزت وآرام کے ساتھ شیخ اوراس کے مریدوں کو ٹھہرایا۔ چند روز کے بعد حسن طویل نے اپنی بہن کی شادی شیخ جنید سے کردی ،ترکمانوں کے ان دونوں قبیلوں یعنی آق قونیلو اورقراقونیلومیں قدیمی رقابت چلی آتی تھی، اب چونکہ شیخ جنید ایک درویش گوشہ نشین کی حیثیت سے تبدیل ہوکر شاہی خاندان کے قریب رشتہ دار بن چکے تھے اور ریاست وحکومت ان کے گھر میں داخل ہوچکی تھی لہذا انہوں نے اپنے مریدوں کو جو ترک سپاہیوں کی اولاد تھے،درویشوں سے سپاہیوں کی شکل میں تبدیل کردیا اورایک فوج ترتیب دے کر حسن طویل کے مشورے سے ازد بیل پر حملہ کیاچونکہ ارد بیل کے بادشاہ نے شیخ کو اردبیل سے خارج کیا تھا اس لئے یہ حملہ آوری اورفوج کشی انتقاماً سمجھی گئی اورشیخ کے مریدوں یا دوسرے لوگوں کو زیادہ عجیب نہ معلوم ہوئی شیخ کا جب جہاں شاہ سے مقابلہ ہوا تو شیخ کو جو ایک ناتجربہ کار سپہ سالار تھا فرار ہونا پڑا، وہاں سے فرار ہوکر شیخ حاکم شیروان پر جا چڑھے جو جہان شاہ کا حلیف اوردوست تھا،مگر جب شاہ شیروان کی فوج سے مقابلہ ہوا تو شیخ کو پھر شکست ہوئی اور اسی افرا تفری میں کہ شیخ اپنی جان بچا کر لے جانے کی فکر میں تھا ایک تیر آکر لگا اورشیخ نے سفر آخرت اختیار کیا۔ شیخ جنید کے مارے جانے پر اس کا بیٹا حیدر جو سلطان حسن طویل کا بھانجا تھا باپ کی جگہ گدّی نشین اورزہد وارشاد کے سلسلے کا پیر تسلیم کیا گیا،حیدر ماں کی جانب سے شہزادہ اور باپ کی جانب سے درویش تھا،اس میں امارت اورطریقت دونوں چیزیں جمع ہوگئیں اس کے گرد شیخ جنید سے بھی زیادہ مریدوں کا ہجوم ہوگیا،شیخ جنید کی وفات کے بعد امیر حسن طویل نے جہاں شاہ سے عارضی صلح کرلی اور مرزا ابو سعید تیموری کو قتل کرکے خراسان کا ملک اپنی حکومت میں شامل کرلیا، اس کے بعد ہی امیر حسن طویل نے جہان شاہ سے آذر بائیجان کا ملک بھی چھین لیا اور تمام ملک ایران کا ایک زبردست بادشاہ بن گیا،اس کے بعد حسن طویل شہنشاہ ایران نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھانجے شیخ حیدر سے کردی، اس طرح شیخ حیدر شاہ ایران کا ہمشیر زادہ تھا اب داماد بھی بن گیا حسن طویل نے طرابزون کے عیسائی بادشاہ کی بیٹی سے شادی کی تھی،طرابزون کی حکومت کا ذکر اوپر آچکا ہے،اس عیسائی حکومت کو سلطان محمد خاں ثانی فاتح قسطنطنیہ نے ۸۶۶ھ میں فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل کرلیا تھا،حسن طویل کی اس عیسائی بیوی کے پیٹ سے یہ لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام پارسا اوربقبو کی بعض شاہ بیگم رکھا گیا تھا، اسی کی شادی شیخ حیدر سے کی گئی تھی،جس کے پیٹ سے شیخ حیدر کے تین بیٹے علی،ابراہیم اوراسمعیل پیدا ہوئے،حسن طویل کی زندگی میں شیخ حیدربالکل خاموش رہا لیکن جب حسن طویل فوت ہوا اوراس کابیٹا امیر یعقوب ایران کے تخت پر بیٹھا تو شیخ حیدر نے اپنےمریدوں کی ایک فوج تیار کی اوردوسرے لوگوں کو بھی اپنی فوج میں بھرتی کرنے کے لئے ترغیب دی تاکہ شاہ شیروان سے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لے حسن طویل کی زندگی میں خاموش رہنے کا سبب یہ تھا کہ شیخ جنید کے مارے جانے پر حسن طویل نے جس طرح جہان شاہ سے جس طرح صلح کرلی تھی اسی طرح شاہ شیروان سے بھی اس نے صلح کی تھی اورشاہ شیروان نے ابو سعید مرزا تیموری کے قتل کرنے میں حسن طویل کی بہت مدد کی تھی، اس لئے حسن طویل کی زندگی تک شیروان کے بادشاہ سے اس کی صلح قائم رہی اوراسی لئے شیخ حیدر شاہ شیروان کے خلاف کسی کاروائی پر آمادہ نہ ہوسکا اب شیخ حیدر نے شیروان پر حملہ کیا،شیروان میں کئی سو سال سے ایک ایرانی خاندان کی حکومت چلی آتی تھی جو اپنے آپ کو بہرام چوبین کی اولاد میں بتاتے تھے شیروان کے بادشاہ کا نام فرخ یسار تھا فرخ یسار نے جب سنا کہ شیخ حیدر اپنے خون کا بدلہ لینے آرہا ہے تو وہ بھی مقابلہ پر مستعد ہوگیا اور ۸۹۳ھ میں جب دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا تو شیخ حیدر بھی باپ کی ہزیمت پاکر مارا گیا،اس کی لاش کو لوگوں نے اردبیل میں لے جاکر دفن کردیا۔ شیخ حیدر کے بعد اس کے مریدوں نے اس کے بڑے لڑکے علی کو جو جوان ہوچکا تھا اپنا پیر بنایا اور باپ کی گدّی پر بٹھایا ،علی کے گرد بھی مریدوں کا بہت ہجوم رہنے لگا، امیر یعقوب نے جو حسن طویل کے بعد ایران کا فرماں روا تھا یہ دیکھ کر کہ علی بھی اپنے باپ اوردادا کی طرح شروان پر چڑھائی کرنے کی تیاری کرے گا اوراس طرح ملک میں خواہ مخواہ فتنہ پیدا ہوگا،فرخ یسار شاہ شروان سے حسن طویل کے زمانے کی صلح کو قائم رکھنا مناسب سمجھا اور علی اور اس کے بھائیوں کو اسظخر کے علاقے میں ایک قلعہ کے اندر نظر بند کردیا،یہ تینوں بھائی چار سال سے زیادہ عرصہ تک اس قلعہ میں قید رہے،جب امیر یعقوب بیگ فرماں روائے ایران فوت ہوا اوراس کی جگہ اس کا بیٹا الوند بیگ تخت نشین ہوا تو علی مع اپنے بھائیوں کے قید خانہ سے فرار اور اردبیل پہنچ کر مرید ین کی فراہمی میں مصروف ہوا، الوند بیگ نے یہ خبر سن کر اورعلی کو آمادہ بغاوت دیکھ کر اس کی تادیب اورگرفتاری کے لئے فوج بھیجی علی نے اس فوج کا مقابلہ کیا اور باپ دادا کی طرح شکست کھا کر مارا گیا۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی ابراہیم واسمعیل لباس بدل کر اردبیل سے گیلان کی طر بھاگے،ابراہیم گیلان پہنچ کر فوت ہوگیا، صرف اسمعیل جو سب سے چھوٹا اورابھی بچہ ہی تھا باقی رہ گیا، الوندبیگ نے اسمعیل کو کم عمر اورکم حوصلہ سمجھ کر اس کے حال سے کوئی تعرض نہ کیا؛بلکہ آزاد رہنے دیا، اسمعیل کے گرد اس کے کاندان کے باوفا مرید پھر آا ٓ کر جمع ہوگئے۔ ۹۰۶ھ میں جب کہ اسمعیل کی عمر چودہ سال کی تھی اس کے مریدوں کا جو ہمہ اوقات مسلح رہتے تھے اس قدر ہجوم ہوگیا کہ ایک نہایت زبردست اورشائستہ فوج مرتب ہوسکی،اسمعیل اپنے مریدوں کی اس زبردست فوج کو لے کر یکا یک شیروان پر حملہ آور ہوا اور اتفاقاً فرخ یسار فرماں روائے شروان اس لڑائی میں مارا گیا،اسمعیل اوراس کے ساتھیوں کے حوصلے اب دو چند ہوگئے اسمعیل کی اس فتح کا حال الوند بیگ نے سنا تو وہ چونکہ پڑا اوراس نے اسمعیل کے خطرے کو فوراً دور کرنا ضروری سمجھ کر اپنی حاضر رکاب تھوڑی سی فوج لے کر بلا توقف کوچ کردیا، الوند بیگ سے یہ بہت بڑی غلطی ہوئی کہ اس نے اسمعیل کی طاقت کا صحیح اندازہ کرنے اوراپنی طاقت کو مجتمع کرنے کے لئے مطلق توقف نہیں کیا، اس عجلت اورشتاب زدگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اسمعیل سے مقابلہ ہوا تو الوند بیگ بھی مارا گیا، اس کے بعد قبیلہ آق قونیلو کے ایک اور سردار مرادبیگ نے ہمدان کے قریب اسمعیل کا مقابلہ کیا مگر وہ بھی مغلوب ہوا، ان پیہم فتوحات کا نتیجہ ہوا کہ تمام عراق وایران و آذر بائیجان وغیرہ اسمعیل کے قبضے میں آگئے،چار برس پہلے ۹۰۳ھ میں جو شخص گیلان کے اندر ایک خستہ حال فقیر کی زندگی بسر کرتا تھا، اب صاحب گنج وادرنگ اورمالک مُلک ولشکر ہوگیا، ترکی سپاہیوں کی اولاد نے بھی خوب ہی حق وفاداری ادا کیا اوراپنے محسن صدر الدین اورد بیلی کی اولاد کو بادشاہ ہی بنا کر چھوڑا،کس قدر حیرت اورتعجب کا مقام ہے کہ جن لوگوں کی مسلسل پامردی وجواں مردی نے اسمعیل بن حیدر صفوی کو ایران کا بادشاہ بنایا انہیں کی ہم قوم سلطنت عثمانیہ کا اسمعیل صفوی بلاوجہ دشمن بن گیا، اسمعیل صفوی کوچونکہ ابتداء ہی سے پیہم فتوحات حاصل ہوئی تھیں اس لئے آئندہ فتوھات اورلڑائیوں میں یہ شہرت بہت مفید ثابت ہوئی اور عام طور پر اس سے مرعوب نظر آنے لگے،اگر اسمعیل صفوی سلطان سلیم ثانی کے ملک میں اپنی خفیہ سازشوں کا جال نہ پھیلاتا اورسلطان عثمان ثانی سے صلح وصفائی رکھنا ضروری سمجھتا تو یقیناً سلیم یورپ کی طرف متوجہ ہوتا اوراُس طویل زمانے کی مہلت جو بایزید ثانی کے عہد حکومت میں عیسائی بادشاہوں کو حاصل رہی ختم کرکے تمام یوروپ کو فتح کرتا ہوا اندلس تک جا پہنچتا لیکن اسمعیل صفوی نے سلیم کو یورپ والوں کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے عیسائی سلاطین کے ساتھ صلح کے عہد ناموں کی تجدید کرکے اس طرف سے اطمینان حاصل کیا اوریوروپ والوں کو اور بھی آٹھ دس سال کی مہلت مل گئی جس میں وہ اپنے آپ کو خوب طاقت وربنا کر اپنی حفاظت کی تدابیر سوچ سکے۔