انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسلام بیزاری کے اسباب شروع سے یہود کے ساتھ مسلمانو ںکا جومحبت آمیز برتاؤ تھا او رجس رفق ولینت اور حسنِ سلوک کے ساتھ وہ ان سے پیش آرہے تھے اس کا توتقاضا یہ تھا کہ وہ مسلمانوں سے قریب ہوتے، ان کی دعوت کوقبول کرتے ان کے معاون ومددگار بنتے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کے باوجود وہ اسلام سے بیزار اور مسلمانوں سے دن بدن دُور ہوتے جارہے تھے اس کے اسباب اور موانع کیا تھے اس کوہم ذرا تفصیل سے یہاں لکھتے ہیں: (۱)ایک طبقہ تویہ سمجھتا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور تورات کے نزول کے بعد اب کسی اور نبی کی بعثت یا کسی اور کتاب الہٰی کا نزول نہیں ہوگا (التلمود، بحوالہ تاریخ الیہود) لیکن یہ بہت محدود تھا اس خیال کے یہود عرب میں زیادہ نہ تھے۔ (ب)دوسرے کا خیال یہ تھا کہ ایک اور نبی کی بعثت توہونے والی ہے؛ مگروہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور اگربنی اسرائیل سے نہ بھی ہوا توہرمعاملہ میں کم از کم ان کی تائید ضرور کریگا؛ چنانچہ انھوں نے بارہا آپ کے سامنے اس کا اظہار کیا۔ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ ایک بار دویہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کیے، آپ نے جواب دیا توکہا کہ بیشک آپ نبی ہیں، ارشاد ہوا کہ پھرمیری اتباع سے کیوں گریز کرتے ہو؟ کہا حضرت داؤد علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ نبوت ان ہی کی اولاد (بنی اسرائیل) میں رہے گی؛اگرہم آپ کی اتباع کریں گے تویہود ہم کوقتل کریں گے۔ (مسندطیالسی:۵/۱۶۔ نسائی، باب تحریم الدم) اس خیال کے یہود بکثرت تھے اور یہی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ (ج)تیسرا گروہ وہ تھا جونہ نبوت کوحضرت موسیٰ علیہ السلام پرختم سمجھتا تھا اور نہ اس کوبنی اسرائیل میں محدود؛ بلکہ وہ انبیاء کی اصل پیشین گوئی اور تورات کے بیان کے مطابق یہ سمجھتا تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے؛ خواہ وہ عرب میں ہویاعجم میں؛ یہی یہود کا اعتدال پسندگروہ تھا اور یہی آپ کی بعثت کا منتظر تھا اور اسی کے بعض افراد نے اسلام قبول کیا (تفسیر وسیرت میں یہود کے بارے میں بظاہر مختلف ومتضاد روایتیں ملتی ہیں اس لیے مطالعہ کرنے والوں کے لیے پریشانی اور انتشار خیال کا باعث بن جاتی ہیں؛ لیکن اگریہ تقسیم پیشِ نظر رہے توان شاء اللہ ان روایتوں میں کوئی تضاد نظر نہ آئے گا) مگربعض ذاتی مصالح کے تحت بیشتر افراد نے دوسرے گروہ کا راستہ اختیار کیا اور ان کے ساتھ رہے اور دولتِ ایمان سے محروم رہے۔ (۲)عام طور پریہود یہ سمجھتے تھے کہ جونبی بھی آ:ے گا، ان کے ہرخیال اور ان کی زندگی کے ہرمعاملہ میں ان کی تائید کریگا؛ لیکن جب ان کی یہ توقع پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی توانھوں نے مخالفت شروع کردی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہود جوغلط اور فاسد عقیدہ رکھتے تھے، قرآن نے ابتدائے نزول ہی میں اس کا ابطال کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوراست باز اور ان کومجرم ٹھہرایا، دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے متعلق بھی ان کی دینی کتابوں میں ایسی بے سروپا باتیں اور اُن کے درمیان، ایسے قصے عام طور پرمشہور تھے جن سے ان کے دامنِ عفت پرنعوذ باللہ من ذالک داغ ہی آتا تھا؛ بلکہ ان کے فساد عقیدہ کا بھی پتہ چلتا تھا، قرآن نے اس طرح کے قصوں اور افسانوں کی بھی تردید کی اور انبیاء کی عصمت وعفت کی شہادتیں پیش کیں، سورہ انعام، سورۂ مریم، سورہ صافات میں ایک ایک کا نام لے کر کسی کو صِدِّيقًا نَبِيًّاکسی کو إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَوغیرہ کہا اور سورۂ انعام میں تمام مشہور انبیاء کے ذکر کے بعد کہا: كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَسب کے سب صالح اور نیکوکارتھے، حضرت سلیمان علیہ السلام کوخصوصیت کے ساتھ انھوں نے بہت زیادہ متہم کیا تھا اور عجیب وغریب واقعات بلکہ کفروشرک تک کوان کی طرف منسوب کردیا تھا، قرآن نے سورۂ نحل، پھرسورۂ بقرہ میں اس کی تردید کی اور ان کوان چیزوں سے منزہ قرار دیا؛ اسی طرح دوسرے واقعات وقصص وحکایات کا بھی قرآن نے رد کیا، ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں یہود کے توقعات کے خلاف تھیں، اس لیے ان کا برافروختہ ہونا بالکل طبعی تھا اور وہ برافروختہ ہوئے۔ (۳)یہود، جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں، ہرطرح کے اخلاق ذمیمہ اور معائب سیئہ میں مبتلا تھے؛ مگراس کے باوجود اہلِ عرب میں عزت وشرف کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، اس لیے وہ اپنی موجودہ اخلاقی حالت وروش پرمطمئن ہی نہیں تھے؛ بلکہ دینی حیثیت سے اس کواپنے لیے جائز بھی سمجھتے تھے؛ جیسا کہ اہلِ کتاب کے اموال کے بارے میں انھوں نے اپنے خیال کا اظہار کیا تھا۔ (آل عمران) اسلام اس کے برخلاف مکارم اخلاق، فضائل ومحاسن کی تعلیم دیتا تھا جس کے فروغ کا لازمی نتیجہ یہودیوں کے موجودہ حالات کا زوال تھا، خصوصیت سے ان کی اقتصادی زندگی توقطعی موت تھی اور چونکہ وہ اپنی روش کوبدل نہیں سکتے تھے اس لیے انھوں نے مہرہدایت ہی پرخاک ڈالتی شروع کردی؛ چنانچہ یہود کے جس طبقہ اور قبیلہ میں جتنی ہی اخلاقی کمزوریاں زیادہ تھیں اتنا ہی وہ اسلام کی دشمنی میں پیش پیش تھا۔ (۴)یہود نے شرف ونجابت کا مدار ایمان وعمل کے بجائے نسل وذات پررکھا تھا اسلام آیا تواُ س نے شرف وعزت، نجابت وبخشایش کا مدار ایمان وعمل قرار دیا، اس نے یہ اصول بتایا: وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا۔ (المزمل:۲۰) ترجمہ: اور جونیک عمل اپنے لیے آگے بھیج دوگے اس کواللہ کے پاس پہنچ کراس سے اچھا اور ثواب میں بڑا پاؤ گے۔ شرف وعزت کا یہ معیار قرار دیا: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (الحجرات:۱۳) ترجمہ: تم سب میں بڑا شریف وہ ہے جوسب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ چونکہ قرآن کے ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے ان کے مزعومہ شرف وعزت کے قلعہ کی دیواریں مسمار ہورہی تھیں اس لیے وہ چراغ پا ہوگئے۔ (۵)اسلام سے پہلے اہلِ عرب عام طور سے علمی اور دینی اعتبارسے بالکل بے مایہ تھے اور یہودیوں میں علم بھی تھا اور مذہب بھی، اس لیے وہ قدرتی طور پرعربوں کواپنے سے کم ترحقیر اور بے مایہ سمجھتے تھے؛ خود عربوں کوبھی ان کی برتری کا اعتراف تھا، ان میں اسلام آیا اور انھوں نے اس کی تعلیمات کوقبول کیا توان کی دینی اور علمی بے مایگی دور ہونے لگی اور ان کا احساسِ برتری خود بخود بیدار ہونے لگا، قاعدہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی شرف وفضل کی حامل ہوتی ہے توطبعاً کسی دوسری قوم کواس کا شریک بننا پسند نہیں کرتی چاہے اس عزت وشرف کی خصوصیات کا کوئی ادنی شائبہ بھی اس میں باقی نہ رہ گیا ہو، اس بناپریہود اپنے فضل وشرف میں عربوں کوشریک اور اپنے اوصاف وخصوصیات ان کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتے تھے۔ (۶)ظہورِ اسلام سے پہلے عربوں میں آپس میں نہ کوئی وحدت تھی، نہ اُخوت؛ بلکہ ہرطرف اختلاف انتشار اور ظلم وستم کا دور دورہ تھا، وہ بے شمار قبیلوں اور خاندانوں میں بٹے ہوئے تھے، جب اسلام آیا تواُس نے ان چیزوں کومٹایا، اس نے اختلاف کواتحاد سے، انتشار کووحدت سے بدلا، ظلم وستم کے بجائے اخوت ومساوات کی تعلیم دی جس کی وجہ سے عربوں میں اُخوت ومساوات اور اتحاد واتفاق کی نئی روح دوڑنے لگی؛ پھرمدینہ پہنچ کرآپ نے اس کا علمی نمونہ یہ پیش کیا کہ انصار کے ان قبائل کوجوبرسوں سے آپس میں لڑتے آرہے تھے ان کوشیروشکر کردیا؛ پھراس سے بھی بڑھ کرمہاجرین اور انصار میں آپ نے مواخات یعنی بھائی چارہ کرادیا، انصار کے قبائل خصوصیت سے اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ میں صدیوں سے اختلاف چلاآرہا تھا اور یہود اس سے برابر فائدہ اُٹھاتے رہتے تھے، اس لیے ان کومتحد ومتفق ہوتے اور گلے ملتے یہ کیسے دیکھ سکتے تھے؛ پھراسی اُخوت ومساوات کی فضا سے عربوں ہی کوفائدہ نہیں پہنچا؛ بلکہ خود یہود مدینہ میں ضعیف اور کمزور طبقہ تھا اس کے دلوں می بھی نئے حوصلے اور انقلابی عزائم کروٹ لینے لگے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہود مدینہ دوطبقوں میں بٹ گئے تھے ایک غالب اور مضبوط تھا، دوسرا مغلوب اور مقہور، غالب طبقہ ان غریب یہودیوں پرہمیشہ ظلم وستم کرتا رہتا تھا؛ حتی کہ اگرغالب گروہ کا کوئی آدمی مغلوب گروہ کے ہاتھوں مارا جاتا توان کوسووسق دیت دینی پڑتی اور اگراس کے برعکس ہوتا تووہ ان کوصرف پچاس وسق دیت دیتے یہ ظلم وستم کا بازار اسی طرح گرم تھا کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، آپ کی آمد کے بعد ایک بار اسی طرح کا ایک معاملہ پیش آیا تومغلوب گروہ نے دیت دینے سے انکار کیا اور غالب گروہ کے پاس کہلا بھیجا کہ: إِنَّاإِنَّمَا أَعْطَيْنَاكُمْ هَذَا ضَيْمًا مِنْكُمْ لَنَا وَفَرَقًا مِنْكُمْ فَأَمَّا إِذْقَدِمَ مُحَمَّدٌ فَلَانُعْطِيكُمْ ذَلِكَ۔ (مسنداحمدبن حنبل، بِدَايَة مُسْنَد عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ،حدیث نمبر:۲۲۱۲، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:ہم اب تک زیادہ دیت صرف تمہارے ظلم اور خوف کی وجہ سے دیتے رہے ہیں، اب جب کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آنے کے بعد (ظلم وزیادتی کا خوف نہیں ہے) توہم زیادہ دیت نہیں دے سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں یہود کے لیے کس قدر سوہانِ روح ہوئی ہوں گی۔ (۷)یہود کی مخالفت کے اسباب میں ایک سبب تحویل قبلہ بھی ہے، جب تک مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا، عام عربوں اور مسلمانوں میں اس کی وجہ سے ان کی ایک عظمت باقی تھی؛ مگرجب تحویلِ کعبہ ہوا توان کی اس عظمت کوایک اور دھکا لگا، ان کی مخالفت پہلے ہی سے کیا کچھ کم تھی، اب اس می ںاور اضافہ ہوگیا، پہلے وہ یہ کہہ کرلوگوں کے سامنے اسلام کی اہمیت کم کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) توہمارے ہی قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں، اب وہ یہ کہہ کرمخالفت کرنے لگے کہ یہ نبی عجیب دین لے کرآئے ہیں کہ جن کا قبلہ بھی بدلتا رہتا ہے اور پھریہ کہتے کہ جولوگ اس سے پہلے والے قبلہ کی طرف رُخ کرکے عبادت کرچکے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یامُردہ ان کی تمام عبادتیں اکارت گئیں؛ چنانچہ ان کے اس کہنے سننے کا اثر مسلمانوں پربھی پڑا، اس لیے قرآن نے ان کے تمام اعتراضات کا جواب دیا، سورۂ بقرہ رکوع ۱۷،۱۸، میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ اس تحویلِ قبلہ کا اثر ان پراس قدر پڑا کہ جواسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے، مثلاً کعب بن اشرف، رفاعہ بن قیس اور قروم بن عمر وغیرہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ یامحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! یہ کیا بات ہے کہ تم نے قبلہ تبدیل کردیا؛ اگرپہلے قبلہ کی طرف پھرلوٹ جاؤ توہم تمہاری تصدیق اور اتباع کریں گے۔ (طبری میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے) ظاہر ہے کہ یہ بات انھوں نے کسی اخلاص کی بناپر نہیں کی تھی، نہ یہ منشاء تھا کہ وہ دین اسلام کوقبول ہی کرلیں گے؛ بلکہ اس تحویل قبلہ سے ان کے وقار اور ان کی دینی عظمت کوجودھکالگا تھا چاہتے تھے کہ اس طرح ا س کوسنبھال لیں اور پھران کویہ بھی خیال تھا کہ اگروہ دوبارہ بیت المقدس کوقبلہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے توعام عربوں اور کمزور مسلمانوں کوبرگشتہ کرنے کا ان کوموقع مل جائے گا۔ (۸)ان موانع کے باوجود جونیک فطرت اور حق پسند افراد تھے، وہ اسلام کی حقانیت کے قائل بلکہ اس کے قبول کرلینے کی طرف بھی مائل تھے؛ مگرچونکہ عام یہودی آبادی اس کی مخالف تھی، اس لیے وہ ان کے خوف سے قدم آگے نہیں بڑھاسکے، اس سلسلہ میں احادیث وسیر میں متعدد واقعات ملتے ہیں، مسند طیالسی اور نسائی میں ہے کہ کچھ یہود آپ کے پاس آئے اور انھوں نے آپ سے تسع بینات (قرآن میں ہے کہ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ (الإسراء:۱۰۱) اس روایت میں اسی طرف اشارہ ہے تِسْعَ آيَاتٍ کیا ہیں؟ اس میں اختلاف ہے) کے متعلق سوال کیاارشاد ہوا کہ شرک نہ کرو، آپس میں قتل وخونریزی نہ کرو، چوری اور زنا سے پرہیز کرو، جادوگری اور سود خواری سے باز آؤ، پاکباز عورتوں پرتہمت نہ لگاؤ، بزدلی نہ دکھاؤ، کسی کمزور وبےقصور کوناحق کوئی الزام رکھ کرقتل کرنے یااس کے مال کے لینے کی کوشش نہ کرو (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ تمام عیوب ان میں موجود تھے) آپ جب یہ سب کچھ ارشاد فرماچکے توانھوں نے آپ کے ہاتھوں اور پیروں کوبوسہ دیا اور پکار اُٹھے: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ۔ ترجمہ: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بیشک نبی ہیں۔ (مسنداحمد بن حنبل، حَدِيثُ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ ،حدیث نمبر:۱۸۱۱۷، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) آپ نے فرمایا جب تمھیں میری نبوت تسلیم ہے تومیری اتباع کرنے میں کیا چیز مانع ہے؛ انھوں نے کہا: وَإِنَّا نَخْشَى تَبِعْنَاكَ أَنْ يَقْتُلَنَا الْيَهُودُ۔ (مسند الطيالسي، وصفوان بن عسال المرادي:۳/۳۵۶،حدیث نمبر:۱۲۴۷، شاملہ، موقع جامع الحديث) ترجمہ: ہم کوڈر ہے کہ اگرہم نے آپ کی اتباع کی توہمیں یہودی مارڈالیں گے۔ اسی طرح کعب بن اشرف جوبڑا مالدار یہودی تھا، اس کے متعلق زرقانی میں ہے کہ اس کے یہاں سے تمام یہودی علماء واحبار کووظیفے ملتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد جب وہ ایک بار اس کے پاس اپنے وظائف لینے آئے تواس نے کہا کہ اس شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؛ انھوں نے کہا کہ : هُوَ الذِي كُنَّا نَنْتَظِرُ۔ ترجمہ: یہ وہی ہیں جن کا ہم انتظار کررہے تھے۔ چونکہ یہ جواب اس کی توقع کے خلاف تھا اس لیے یہ کہہ کرکہ میرے مال میں اور بہت سے لوگوں کے حقوق ہیں، وظیفہ دینے سے انکار کردیا، علماء واحبار اس کے یہاں سے لوٹے توان کواپنے اظہارِ حق پربڑا رنج ہوا، دوبارہ واپس آئے اور کعب سے عرض کیا کہ ہم نے عجلت میں جواب دے دیا تھا، بعد میں جب ہم نے غور کیا تومعلوم ہوا کہ ہم نے جواب میں غلطی کی، یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) وہ مُنْتَظَر نبی نہیں ہیں، اس کے بعد کعب نے ان کے وظائف جاری کردیے اور یہ اعلان کردیا کہ: لِكُلِّ مِنْ تَابِعهم مِنَ الْأَحْبًارِ شَيْئًا مِنْ مَالِهِ۔ (سیرتِ حلبیہ:۳/۱۴۷، شاملہ، الناشر دار المعرفة) ترجمہ:جوعلمائے یہود (آپ کی نبوت کی تکذیب میں) ان احبار کا اتباع کریں ان کوبھی کچھ نہ کچھ وظیفہ ملے گا۔ اوپر جواسباب وموانع بیان کیے گئے ہیں ان سے یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہود کی مخالفت اور اسلام دشمنی کسی حقانیت اور کسی بھٹوس بنیاد پرنہیں تھی؛ بلکہ اس میں صرف ان کی نفسانیت خود غرضی اور دنیاوی مصلحتیں کام کررہی تھیں اور اُس کوچھپانے کے لیے وہ مذہب کی آڑ لے رہے تھے۔