انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صحابہؓ کے اعمال پر بدعت کا اطلاق نہیں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ(۱۰۵۲ھ)لکھتے ہیں کے خلفائے راشدین کوئی بات اپنے اجتہاد اور قیاس سے بتائیں اور اس پر کوئی صریح نص ان کے پاس نہ ہو تو بھی اس پر بدعت کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا اور ان کی اس بات کو موافق سنت ہی سمجھا جائے گا: پس ہرچہ خلفائے راشدین بداں حکم کردہ باشند....اطلاق بدعت برآں نتواں کرد۔ (اشعۃ اللمعات:۱/۱۲۰) حضرت شیخ کا یہ فیصلہ اہل سنت والجماعت کے اس بنیادی اصول کے تحت ہے کہ بدعت کی حدیں صحابہ کے بعد سے شروع ہوتی ہیں حافظ بن کثیرؒ(۷۷۴ھ)لکھتے ہیں: "وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔ (تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ) ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضورﷺ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔ صحابہ کرام خود بھی اس بات کو جانتے تھے کہ ان کی نیکی کا ہر عمل شرعی سند رکھتا ہے وہ نصاً ہو یااجتہاداً سب کے سب قولاً اورعملاًترجمان شریعت تھے، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ(۳۶ھ)فرماتے ہیں: "کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔ (الاعتصام:۱/۵۴) ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔ بدعت کا مبدا ہویٰ اور نفسانی خواہشات ہوتی ہیں؛ سو جن حضرات کے دل تزکیہ وطہارت کی دولت پاچکے تھے ان سے بدعت کا صدور قریب قریب ناممکن ہوگیا تھا، یہ صحیح ہے کہ وہ انسان تھے اور نفوس انسانی رکھتے تھے؛ لیکن حضورﷺ کی نظر کامل سے تزکیہ قلب کا فیض اس قدر لے چکے تھے کہ دوسرے رواۃ حدیث کی طرح ان پر جرح کی اجازت نہ ہوگی،جرح کا منشاءعدم رضا ہے، سوجن سے خدا راضی ہوچکا اور وہ خدا سے راضی ہوچکے ان پر جرح کیسے ہوسکے، ان پر جرح تو خدا سے عدم رضا کا اظہار ہوا(معاذاللہ)سو! ان حضرات قدسی صفات پر نہ جرح کی اجازت ہے نہ ان سے اتصال سند کا مطالبہ ہے اوروں کی روایت کثرت رواۃ سے قوت پائے گی ؛یہاں ایک صحا بی بھی کوئی بات کہہ دے تو اب اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، یہاں تک کہ اپنے ہر مسئلہ میں کسی ایک صحابی کو مرکز علم بنالیا جائے اور ہر مسئلے میں اس کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ بالکل درست ہوگا۔