انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقلی دلائل انسان کو آغاز تمیز میں جن بدیہی اور حسی مقدمات (ابتدائی باتوں) کا علم ہوتا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کو مرتب، باقاعدہ اور منظم انداز میں دیکھتا ہے تو اس کو یقین ہوجاتا ہے کہ کسی دانشمند نے ان چیزوں کو ترتیب دیا ہے؛ اگر کسی جگہ ہم چند چیزیں بے ترتیب رکھی دیکھیں تو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ سے یہ چیزیں جمع ہوگئی ہوں گی؛ لیکن جب وہ اس ترتیب اور سلیقہ سے چنی گئی ہوں جسے ایک ہوشیار صنعت کار بھی بمشکل اس طرح چن سکتا ہو تو یہ خیال کبھی نہیں ہوسکتا کہ اپنے آپ سے یہ ترتیب پیدا ہوگئی ہوگی، اس کو اور واضح مثال سے سمجھئے، کسی اچھے شاعر کا کوئی شعر لیکر اس کے الفاظ الٹ پلٹ کرکے کسی معمولی آدمی کے حوالے کر کے؛اگر اُس سے کہا جائے کہ الفاظ کو آگے پیچھے رکھ کر صحیح ترتیب دیدیں، وہ سو سو بار الٹ پلٹ کریگا لیکن اتفاقیہ طور سے بھی کبھی یہ نہ ہوگا کہ وہ شاعر کا شعر نکل جائے؛ حالانکہ الفاظ وہی ہیں، وہی حروف ہیں، وہی جملے ہیں صرف ذراسی ترتیب کا پھیر ہے؛ پھرکیونکر ممکن ہے کہ نظام عالم جو اس قدر باقاعدہ، مرتب اور موزوں ہے، وہ خود بخود قائم ہوگیا ہو، قرآن مجید میں حق تعالیٰکے وجود پر اسی سے استدالال کیا گیا ہے: "صُنْعَ اللہِ الَّذِیْ أَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ"۔ (النمل:۸۸) "یہاللہ تعالیٰ کا کام ہوگا جس نے ہرچیز کو مضبوط بنارکھا ہے"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) "مَّاتَرَی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَی مِن فُطُورٍ"۔ (الملک:۳) "تو خدا کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا؛ سوتوپھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے؛ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھ، نگاہ ذلیل اور درماندہ ہوکر تیری طرف لوٹ آویگی"۔ ترجمہ حضرت تھانویؒ) "وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیْراً" (الفرقان:۲) "اور اُس نے ہرچیز کو پیدا کیا؛ پھرسب کا الگ الگ انداز رکھا" (ترجمہ حضرت تھانویؒ) "لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہ"۔ (الروم:۳۰) "اللہ تعالیٰ کی اُس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے بدلنا نہ چاہیے"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) "فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلاً"۔ (فاطر:۴۳) "سو آپاللہ عزّوجلکے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پاوینگے"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) اِن آیتوں میں عالم کے متعلق تین اوصاف بیان کئے گئے ہیں (۱)کامل اور بے نقص ہے (۲)موزوں اور مرتب ہے (۳)ایسے اصول اور ضوابط کا پابند ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتے، یہ دلیل کا صغری ہے، کبری خود ظاہر ہے یعنی جو چیز کامل، مرتب اور مستمر النظام (چلتے رہنے والا نظام پر) ہوگی وہ خود بخود پیدا نہیں ہوگئی بلکہ کسی صاحب قدرت اور صاحبِ اختیار نے اس کو پیدا کیا ہوگا۔ آج جب کہ تحقیقات وتدقیقات کی انتہاء ہوگئی ہے اور کائنات کے سینکڑوں اسرار (راز)فاش ہوگئے ہیں اورچیزوںکی حقیقتوں نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھالیا ہے، بڑے بڑے فلاسفر اور حکماء انتہائی غور وخوض کے بعد ذاتِ باری کے ثبوت میں یہی استدال پیش کرسکے جو قرآن مجید نے چودہ سو برس پہلے نہایت سمجھ کے قریب اور صاف طریقہ میں ادا کیا تھا۔ (الکلام:۳۷،۳۸، مصنف:علامہ شبلی نعمانیؒ)