انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مولانا محمد عاشق الہیٰ صاحب بلند شہریؒ ۱۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے عمل کرنے کو اخلاص کہتے ہیں جو بھی نیک کام کرو اسی نیت سے کرو کہ اس کے متعلق جو مجھے اللہ نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرکے محض اللہ کو راضی کرنا مقصود ہے،دنیا کا نفع اورشہرت اورنام ونمود مقصود نہیں، آخرت سنور جانے کے لئے عمل کرنا ہے اوریہ جب ہی ہوتا ہے جب نیک عمل کا ثواب مل جانے کا پورا یقین ہو اورثواب کو کام کی چیز سمجھا جائے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۳) ۲۔اگر کوئی شخص ریاکاری سے کوئی ایسا کام کرے جو فی نفسہ نیک ہو(خواہ مالی عبادت ہویا جانی) ریاکاری کی وجہ سے ثواب سے محروم رہے گا ؛بلکہ ریاکاری اس کے لئے وبال ہوگی اورآخرت میں مستحق عذاب ہوگا۔ (کام کی باتیں،ص:۱۷) ۳۔جن کاموں کو لوگ خالص دنیا کا کام سمجھتے ہیں تلاش کرکے اگر ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا پہلو نکال لیا جائے تو ان میں بھی ثواب ملے گا، اگر کھانا کھانے میں یہ نیت کرے کہ اس سے جو طاقت آئے گی وہ آخرت کے کام میں لگے گی اورپیٹ میں بھوک کا احساس نہ ہوگا تو نماز بھی ٹھیک ہوگی ایسی نیت کرنے سے کھانے میں بھی ثواب مل جائے گا۔ (کام کی باتیں،ص:۱۸) ۴۔عدم الریاء کے دعویٰ میں بھی ریا ہوتا ہے،تنہائی میں عمل کرکے لوگوں سے کہتے ہیں کہ الحمد للہ بڑی پابندی سے اتنے برس سے یہ عمل جاری ہے لوگوں کو دکھانا تھوڑا ہی مقصود ہے جو سامنے کیا جائے اوراس کا ڈھنڈورہ پیٹا جائے،دیکھوریاکاری سےبیزاری ظاہر کرنے میں دوہری ریاکاری کر گئے،ایک تو عمل ظاہر کردیا کہ اتنے عرصہ سے پابندی سے کررہا ہوں، دوسرے یہ فرمادیا کہ میں ریاکار نہیں ہوں (میرے اخلاص کے معتقد ہوجاؤ) (کام کی باتیں،ص:۲۳) ۵۔مخلوق کو راضی رکھنے کی فکر نہ کرو ؛بلکہ خالق ومالک کو راضی رکھو،جس نے وجود دیا ہے اورزندگی بخشی ہے،آج کل لوگ مخلوق کو راضی کرنے کے لئے خالق ومالک کی نافرمانی کرتے ہیں،صرف اس لئے داڑھی منڈاتے اور پتلون پہنتے ہیں کوئی ملا نہ سمجھے،بیوی کو پردہ اس لئے نہیں کراتے کہ کوئی دقیانوسی نہ کہہ دے،بس اتنی سی بات کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کو تیار ہیں،ارے مخلوق کی بھی کوئی حیثیت ہے جسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے راضی کیا جائے،صرف خالق ومالک کو راضی کرو اس کو راضی رکھتے ہوئے جو راضی ہوجائے۔ (کام کی باتیں ،ص:۲۶) ۶۔جو لوگ شہرت کے طالب ہوتے ہیں اگر ان کی شہرت ہو بھی جائے تو اچھائی کے ساتھ نہیں ہوتی،ایسے شخص کو لوگ برائی سے یاد کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ارے میاں!وہ تو ریاکار ہے،برائی کے ساتھ مشہور ہونا یہ توکوئی اچھی بات نہیں،یوں تو شیطان بھی مشہور ہے،شہرت وہی اچھی ہے جو اچھائی کے ساتھ ہو اور یہ اچھی شہرت انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو شہرت کے طالب نہیں ہوتے،صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کام کرتے ہیں۔ (کام کی باتیں،ص:۲۹) ۷۔عمل بغیر علم کے نہیں اور علم بغیر محنت کے نہیں اور محنت بھی ایسی ہوکہ قلب طلب علم کے لئے فارغ ہو اور علم اس وقت نافع اورمفید ہوگا جب کہ طلب دنیا کے لئے نہ ہو۔ (کام کی باتیں ،ص:۳۲) ۸۔ہرمؤمن کوچاہئے کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے،رسول اللہ ﷺ سے اور آخرت بنانے والے علوم واعمال سے محبت کرنا لازم وضروری سمجھے،علوم نبوت کے سامنے مال ودولت اورہر علم وہنر ہیچ ہے اگر اہل دنیا علوم نبوت کا وزن نہ سمجھیں تو کم از کم علماء کرام کو تو اپنے علم پر بہت خوش رہنا چاہئے، اپنے سے زیادہ کسی کو بھی صاحب نصیب اورغنی نہ سمجھیں اوردنیا اوراہل دنیا کے سامنے ہرگز نہ جھکیں اوریہ یقین کریں کہ جو کچھ ہم کو ملا ہے نہ کسی صاحب حکومت کے پاس ہے نہ دولت مند کی تجوری میں ہے نہ کوٹھی میں ہے نہ بنگلہ میں ہے،علم ِنبوت سب سے بڑا انعام ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۳۵،۳۶) ۹۔جو آدمی اس کا یقین رکھتا ہے کہ مجھے مرنا ہے اورموت کے بعد میری پیشی ہونی ہے،میری نماز بھی بارگاہ صمدیت میں پیش ہوگی وہ اچھی طرح نماز پڑھے گا اور اسے خشوع کی کیفیت حاصل ہوگی اور نفس کو خشوع کی نماز کے لئے آمادہ کرے گا۔ (کام کی باتیں ،ص:۵۶) ۱۰۔مؤمن بندوں کو محبوب حقیقی کے ذکر میں مزا آتا ہے اور اس سے لذت محسوس ہوتی ہے اورجولوگ دنیا کی محبت میں پھنسے ہوئے ہیں وہ فرض نماز تک سے جان چراتے ہیں اور دس پانچ مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے بھی گھبراتے ہیں ایسے لوگ ذاکرین کو دیوانہ اوربے وقوف کہتے ہیں اور شیطان کے بہکانے اورنفس کے ورغلانے سے کثرت ذکر کے عمدہ ترین مشغلہ میں لگنے والوں کا رہبانیت کا طعنہ دیتے ہیں،قرآن مجید میں کثرت ذکر کا حکم ہے اورحضوراقدس ﷺ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے اوراپنی امت کو اس کی ترغیب دی اورزندگی بھر کے احوال اوراوقات کے مطابق دعائیں سکھائیں۔ (کام کی باتیں،ص:۶۲) ۱۱۔درحقیقت زبان کے اپنے ذاتی جوگناہ ہیں وہ بھی بہت سارے ہیں اوربڑے بڑے ہیں،لیکن دوسرے اعضاء سے جو گناہ صادر ہوتے ہیں ان میں بھی زبان کی شرکت ہوتی ہے،چور ڈاکو مل کر آپس میں مشورے کرتے ہیں،رشوت کے لین دین میں بھی زبان استعمال ہوتی ہے ،زناکار مرد اورعورت کے درمیان بھی زبان سے مفاہمت ہوتی ہے،دھوکہ فریب دینے میں بھی زبان کی شرکت ہوتی ہے،اسی لئے دوسرے اعضاء اس کی خوشامد اورعاجزی کرتے ہیں کہ دیکھ تو ہماری سلامتی کو خطرہ میں مت ڈال دینا،دیکھو زبان گالی دیتی ہے اوربہت مرتبہ اس گالی کی وجہ سے جوتا سرپر پڑتا ہے اورزبان اپنی جگہ ۳۲ دانتوں کے قلعہ میں محفوظ رہتی ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۶۵) ۱۲۔ایمان کتنی بڑی نعمت ہے دنیا میں اورآخرت میں اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بن کر رہے اورآخرت میں دائمی جنت پائے،اتنی بڑی چیز کتنی سستی کردی،اس میں کچھ خرچہ ہی نہیں اورنہ کچھ محنت اورکوشش۔ (کام کی باتیں،ص:۷۱) ۱۳۔درحقیقت اسلام پر چلنا بہت آسان کام ہے،لوگوں نے دنیا داری اوردکھلاوے کے لئے جو لوازم اپنے ذمہ لگالئے ان کو پورا کرنا مصیبتوں کا باعث ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۷۳) ۱۴۔صرف آرزو اور دعا سے کام نہیں چلتا عمل بھی کرے،دعا بھی کرے اورامید بھی رکھے ڈرتا بھی رہے (کام کی باتیں،ص؛۷۵) ۱۵۔نفس آرام طلب ہے تکلیف اٹھانے کو تیار نہیں،مزے اورلذتیں ڈھونڈتا ہے اس کو سمجھا بجھا کر ترکیب سے ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ (کام کی باتیں،ص:۷۵) ۱۶۔خوف اورامید دونوں کی ضرورت ہے نہ تو ایسی امید ہو کہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے اوربے باک ہوکر گناہ کرے اور مغفرت کی امید پر جیتا رہے اورنہ ہی ایسا خوف ہو کہ امید ہی نہ رہے اورایسا زیادہ خوف بھی نہ ہو جو حواس ظاہرہ وباطنہ کو ختم کردے۔ (کام کی باتیں،ص:۸۰) ۱۷۔عمل پر ابھارنے کا سب سے بڑا ذریعہ آخرت کا یقین ہے،آخرت کا پورا پکا یقین نہ ہونے کی وجہ سے فرائض بھی ترک ہوتے ہیں،واجبات بھی چھوٹتے ہیں،سنتوں پر عمل بھی نہیں ہوتا اورچھوٹے بڑے گناہوں کا ارتکاب بھی ہوتا ہے،اگر اعمال صالحہ پر آخرت میں بڑی بڑی نعمتیں ملنے اورگناہ کرنے پر قبر وحشر اوردوزخ کے عذاب میں مبتلا ہونے کا یقین ہو تو نفس کو اعمال صالحہ ادا کرنے اورگناہوں سے روکنے پر آمادہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۸۵) ۱۸۔شریعت اسلامیہ میں کھانے پینے اورپہننے میں اورزندگی کے دوسرے اعمال اوراشغال میں حرام اورحلال پابندیاں ہیں انسانوں کو یہ پابندی ناگوار ہے،لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پابندی شرافت انسانی کی وجہ سے ہےچونکہ انسان مکرم ہے،عقل مند ہے،باہوش ہے،سردار ہے اس لئے پابندیاں لگائی گئی ہیں اگر انسانوں پر کوئی بھی پابندی نہ رہے اوراس کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑدیا جائے تو انسانوں اورجانورں میں فرق ہی کیا رہے گا؟ جانور جو چاہتا ہے کھاتا ہے جہاں چاہتا ہے منہ مارتا ہے سب کے سامنے جفتی کرلیتا ہے،انسانیت کے شرف کواجاگر کرنے کے لئے اس پر پابندیاں لگائی گئی ہیں لیکن دور حاضر کے انسان کو یہ پابندیاں ناگوار ہیں،یورپ امریکہ کے انسان کھانے پینے کی آزادی اورنفسانی خواہشات پورا کرنے کے ذیل میں حیوان بن کر رہ گئے ہیں اورانہیں حیوانیت پسند ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۹۳) ۱۹۔حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہے،عام طور پر لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی،دین داری بس نماز،کرتہ اورداڑھی میں رہ گئی۔ (کام کی باتیں،ص:۱۰۱) ۲۰۔کیا ہی مبارک ہیں وہ لوگ جو قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس میں مشغول ہیں یا کسی اعتبار سے دینی کاموں میں لگے ہوئےہیں، بات یہ ہے کہ انسان جب دنیا میں آیا ہے تو اسے کچھ تو کرنا ہی ہے۔ (کام کی باتیں ،ص:۱۰۷) ۲۱۔ذکروفکر،صبروشکر مؤمن کی گاڑی کے پہیے ہیں،اللہ تعالیٰ کی یاد میں بھی لگارہے اورترقی درجات کے لئے بھی فکر مند رہے تکلیف پر صبر بھی کرے اورہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۱۰) ۲۲۔دکھ تکلیف رنج وغم کم ہو یا زیادہ اس سب میں مؤمن کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۱۲) ۲۳۔جب دعا کرے تو دعا میں بھی سچائی ہونی چاہئے یعنی جب یوں کہے کہ اے اللہ!میں آپ سے سوال کرتا ہوں تو پوری طرح متوجہ ہوکر حقیقی سائل بن کر سوال کرے زبان سے دعا کے الفاظ جاری ہیں لیکن دل غافل ہے اوریہ بھی پتہ نہیں کہ کیا مانگ رہاہوں یہ سچ اورسچائی کے خلاف ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۲۲) ۲۴۔سچ اورجھوٹ اقوال میں منحصر نہیں،اعمال واحوال اور لباس اور دعاوی وعزائم ان سب میں سچ اور جھوٹ کی شان پیدا ہوجاتی ہے ہرمؤمن بندہ اپنی نگرانی کرے اورسچ ہی کو اختیار کرے اور ہر طرح کے جھوٹ سے بچے،جو شخص عالم نہ ہو طرز گفتگو سے ظاہر نہ کرے کہ میں عالم ہوں، اگر کوئی شخص عالم بھی ہو اورمسئلہ معلوم نہ ہو تو اٹکل سے مسئلہ نہ بتائے کیونکہ اس میں اس کا دعویٰ ہے کہ میں جانتا ہوں اور یہ دعویٰ جھوٹا ہے پھر اٹکل سے بتانے میں غلطی ہوجاتی ہے اس میں اپنا بھی نقصان ہے اورسوال کرنے والے کو بھی دھوکہ دینا ہے اورگمراہ کرنا ہے۔ (کام کی باتیں ،ص:۱۲۴) ۲۵۔ناحق پر اصرار کرنا حق کو ٹھکرانا،غلط بات کہہ کر غلطی واضح ہوجانے پر حق قبول نہ کرنا، شریعت پر چلنے میں خفت محسوس کرنا، گناہوں کو اس لئے نہ چھوڑنا کہ معاشرہ والے کیا کہیں گے،یہ سب تکبر سے پیدا ہونے والی چیزیں ہیں۔ (کام کی باتیں،ص:۱۲۸) ۲۶۔کافروں کے بارے میں شیطان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ کفر وشرک پر جمے رہیں اوراہل ایمان کا بہت پیچھا کرتا ہے اورانہیں طرح طرح سے ستاتا ہے،ایمانیات اوراعتقادیات میں شک ڈالنے کی کوشش کرتا ہے،طرح طرح سے وسوسے لاتا ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۳۳) ۲۷۔جولوگ نیک کاموں میں لگے ہوتے ہیں ان کے لئے شیطان نے ایک اورحربہ نکالا ہے اوروہ یہ کہ بدعتیں جاری کروادیتا ہے لوگ چونکہ بدعت کو ثواب سمجھ کرکرتے ہیں اس لئے انہیں گناہ نہیں سمجھتے لہذا توبہ بھی نہیں کرتے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۳۵) ۲۸۔جیسے زیادہ بولنے سے دل میں قساوت آجاتی ہے ایسے ہی ناجائز نظر ڈالنے سے ایمانی کیفیت میں فرق آجاتا ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۵۸) ۲۹۔جس شخص کو دین کی طرف راغب دیکھو گے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ یہی پتہ چلے گا کہ اس پر کسی اللہ والے کا سایہ پڑا ہے خواہ صحبت اٹھائی ہو خواہ کتاب پڑھی ہو۔ (کام کی باتیں،ص:۱۶۰) ۳۰۔اللہ باقی ہے باقی کے ہوجاؤ باقی رہو گے،دنیا فانی ہے اس کے طالب بنو گے تو اگر مل بھی گئی تو تھوڑی سی ملے گی اوروہ بھی فنا ہوجائے گی اورخود بھی فنا ہوجاؤ گے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۶۰) ۳۱۔جو اللہ تعالیٰ کا نہیں ہوتا وہ کسی کا نہیں ہوسکتا جو اپنے خالق ومالک کا نہیں وہ کسی کا نہیں۔ (کام کی باتیں ،ص:۱۶۵) ۳۲۔جسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی اللہ تعالیٰ کی شان خالقیت ومالکیت کو پہچانا اورمخلوق میں اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو دیکھا خود اپنی پیدائش،حیات اورحالات پر نظر ڈالی اوراپنی محتاجگی کا احساس ہوا،اسے ظاہراً وباطناً اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ ہونا پڑتا ہے ایسے لوگ بقدر ضرورت حلال روزی بھی کماتے ہیں ؛لیکن توجہ اللہ تعالیٰ کی ہی طرف رہتی ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۷۸) ۳۳۔اولاد کی تربیت صرف یہی نہیں ہے کہ روٹی کپڑا پہنادیں اورنرم بستر پر سلادیں،محبت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ انہیں اعمال صالحہ والا بنائیں،گناہوں سے پرہیز کرنے والا بنائیں اورانہیں شرعی احکام سکھائیں،قرآن مجید پڑھائیں ،حفظ کرائیں ،نماز یں صحیح یاد کروائیں،نماز پڑھنے پر خوب زوردیں۔ (کام کی باتیں،ص:۱۸۳) ۳۴۔جولوگ آزاد منش ہیں ان کو متنبہ کرنے کے لئے جب حضرات علماء کرام کچھ لکھتے ہیں یا زبانی طور پر حق کا اظہار کرتے ہیں تو یہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مولویوں کو بس کافر بنانا اوردوزخ میں بھیجنا ہی آتا ہے اورمولوی دین کے ٹھیکہ دار بنے ہوئے ہیں، جب یہ بات حق ہے کہ دین قرآن اورحدیث ہی سے ملتا ہے تو جس کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہوگا وہی دین کا ٹھیکہ دار ہوگا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۹۷) ۳۵۔حضرات علماء کرام کسی کو کافر نہیں بناتے ،قرآن کریم کی تحریفات اورعقائداسلامیہ کا انکار کرنے کی وجہ سے ملحد اورزندیق خود ہی کفر اختیار کرلیتے ہیں،علماء بتادیتے ہیں کہ تو کافر ہوگیا،تو احسان ماننے کے بجائے ان کی شکایتیں کرنا اوربُرے الفاظ میں یاد کرنا، گھر بیٹھ کر صلواتیں سنانا یہ تو خود اپنی جان پر ظلم ہے۔ (کام کی باتیں،ص:۱۹۷)