انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ضمام ؓبن ثعلبہ نام ونسب ضمام نام، باپ کا نام ثعلبہ تھا، قبیلہ بنی سعد سے نسبی تعلق تھا۔ اسلام سے پہلے ضمام فطرۃً سلیم الطبع تھے؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی جب سارا عرب طرح طرح کے فواحش میں مبتلا تھا، ضماد کا دامن اخلاق ان سے محفوظ رہا۔ (اصابہ:۳/۳۷۱) اسلام ۹ھ میں جب اسلام کا چرچا سارے عرب میں پھیل گیا اور دور دور کے قبائل مدینہ آنے لگے، تو ضمامہ کے قبیلہ نے انہیں تحقیق حال کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا جس وقت یہ پہنچے،اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرما تھے، ضمام مسجد کے دروازہ پر اونٹ باندھ کر اندر داخل ہوئے،آنحضرتﷺ کے گرد صحابہ کا مجمع تھا، ضمام سیدھے آپ کے پاس پہنچے اورپوچھا تم میں عبدالمطلب کا پوتا کون ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا میں ہوں،ضمام نے کہا محمد!فرمایا ہاں ،اس کےبعد ضمام نے کہا اے ابن عبدالمطلب! میں تم سے سختی کے ساتھ چند سوالات کرونگا ،تم آزردہ نہ ہونا، فرمایا نہیں آزردہ نہ ہوں گا، جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو، کہا میں تم سے اس خدا کا واسطہ دلاکر پوچھتا ہوں ،جو تمہارا معبود ، تمہارے اگلوں کا معبود اورتمہارے بعد آنے والوں کا معبود ہے، کیا خدا نے تم کو ہمارا رسول بناکر بھیجا ہے، فرمایا خدا کی قسم ہاں، کہا میں تم سے اس خدا واسطہ دلا کر پوچھتا ہوں جو تمہار ا معبود تمہارے اگلوں کا معبود اورتمہارے پچھلوں کا معبود ہے، کیا خدا نے تم کو یہ حکم دیا ہے کہ بلا کسی کو شریک کئے ہوئے صرف اسی کی پرستش کریں اوراس کے علاوہ ان بتوں کو چھوڑدیں جن کی ہمارے آبا واجداد پر ستش کرتے چلے آئے ہیں،فرمایا خدا کی قسم ہاں، پوچھا میں تم سے اس خدا کا واسطہ دلاکر پوچھتا ہوں جو تمہارے اگلوں کا اور تمہارے پچھلوں کا معبود ہے، کیا تم کو خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں، آنحضرتﷺ نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا، ضمام نے اسی طرح روزہ، حج اورزکوٰۃ اسلام کے تمام ارکان کے متعلق قسم دلا دلا کر سوالات کیے اورآپ ﷺ اثبات میں جواب دیتے رہے، یہ سوالات کرنے کے بعد ضمام نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور میں عنقریب ان تمام فرائض کو پورا کروں گا، اورجن جن چیزوں سے آپ نے منع کیا ہے انہیں چھوڑ دونگا اور اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی نہ کرونگا، اس اقرار کے بعد یہ لوٹ گئے،آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے فرمایا، کہ اگر اس گیسووں والے نے سچ کہا ہے،توجنت میں جائے گا۔ (مسند دارمی کتاب الصلوٰۃ باب فرض الوضو ولصلوٰۃ) اپنے قبیلہ میں تبلیغ ضمام شروع ہی سےفطرت سلیم رکھتے تھے،زمانہ جاہلیت میں بھی ان کا دامن آلودگیوں سے پاک رہا،اسلام نےاس میں اورجِلادیدی؛چنانچہ مدینہ سے واپسی کے بعد انہیں اپنے گمراہ قبیلہ کے اسلام کی فکر ہوئی اورسیدھے بنی سعد پہنچے،اہل قبیلہ ان کی آمد کی خبر سن کر جوق جوق حالات سننے کے لئے جمع ہوئے،یہ لوگ اس خیال میں تھے کہ ضمام کوئی اچھا اثر لے کر نہ آئے ہوں گے، مگر اپنی امیدوں کے برخلاف ضمام کی زبان سے پہلا جملہ یہ سنا ،"لات وعزیٰ کا برا ہو" محترم دیوتاؤں کی شان میں اس گستاخی پر ہر طرف سے"ضمام خاموش ضمام خاموش" تم کو خوف نہیں معلوم ہوتا کہ اس گستاخی کی پاداش میں تم کو جنون برص یا جذام ہوجائے کی صدائیں اٹھیں، ضمام نے ان تمام کا یہ جواب دیا، تم لوگوں کی حالت پر افسوس ہے،لات و عزیٰ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے، خدا نے محمد کو رسول بنا کر بھیجا ہے اوران پر ایسی کتاب اتاری ہے جو اس (گمراہی) سے نجات دلائیگی جس میں اب تک تم گھرے ہوئے ہو میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں محمد کے پاس سے تمہارے لیے ایسا پیام لایا ہوں جس میں انہوں نے بعض چیزوں کے کرنے کا حکم دیاہے اور بعض چیزوں سے منع کیا ہے، ان کی اس پرجوش تقریر کا یہ اثر ہوا کہ شام تک پورا قبیلہ اسلام کے نور سے منور ہوگیا۔ (مسند دارمی کتاب الصلوٰۃ باب فرض الوضو والصلوٰۃ وسیرت ابن ہشام :۲/۳۶۴،۳۶۵) فضل وکمال مذہبی علوم میں ضمام کو کوئی خاص کمال نہ تھا، لیکن فہم وفراست ،انداز گفتگو اورنمایندگی میں بڑا ملکہ تھا خود زبان وحی الہام نے انہیں سمجھداری کی سند عطا فرمائی تھی ؛چنانچہ ایک موقع پر آپ نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ ضمام سمجھدار آدمی ہیں، حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ میں نے ضمام سے بہتر اور مختصر الفاظ میں سوال کرنے والا نہیں دیکھا، (اصابہ:۳/۲۷۱)حضرت ابن عباسؓ فرماتے تھے کہ میں نے کسی قوم میں ضماد سے بہتر کوئی فرد نہیں پایا۔ (اصابہ:۱/۳۴۰)