انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اچھی بُری تقدیر پرایمان لانا ایمان بالقدر یہ ہے کہ اس بات پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یاشر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے؛ حتی کہ بندہ کے اختیاری افعال بھی اس کی مشیت اور حکمت وتقدیر کے تابع ہیں، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں کرتا، جن کو وہ پہلے ہی طے کرچکا ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دنیا کا یہ کارخانہ اس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی سے ہٹ کر چل رہا ہو، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بیچارگی لازم آئیگی۔ (ملخص من فتح الملہم، باب الایمان والاسلام والاحسان ووجوب الایمان بقدر اللہ سبحانہ: ۱/۴۴۶، مؤلف: حضرت مولاناشبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، مکتبہ فیصل دیوبند۔ "إِنَّا کُلَّ شَیْْء ٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ"القمر:۴۹۔ "وَإِن مِّن شَیْئٍ إِلاَّعِندَنَا خَزَائِنُہُ"الخ، الحجر:۲۱۔ "مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْض"الخ، الحدید:۲۲۔ "قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی"الخ، التوبہ:۵۱۔ "وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا"الخ، الانعام:۵۹۔ بخاری، "عن زیدِ بنِ وہب قال عبد اللہ حدثنا رسول اللہﷺ وہوالصادِق"الخ، باب ذکر الملائکۃ، حدیث نمبر:۲۹۶۹۔ ترمذی، "عن ابنِ عباس قال کُنت خلف رسولِ اللہﷺ یوماً فقال یاغلامُ إِنِی"الخ، وہذا حدیث حسن صحیح، باب منہ بعد باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض، حدیث نمبر:۲۴۴۰) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہ ہوگا جب تک کہ تقدیر پر ایمان نہ لائے، اس کی بھلائی پر بھی اور اس کی برائی پر بھی؛ یہاں تک کہ یقین کرے کہ جو بات واقع ہونے والی تھی وہ اس سے ہٹنے والی نہ تھی اور جو بات اس سے ہٹنے والی تھی وہ اس پر واقع ہونے والی نہ تھی۔ (ترمذی، "عن جابِرِ بنِ عبدِ اللہ قال قال رسول اللہﷺ لایؤمِن عبدٌ"الخ، وھذا حدیث غریب، باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ، حدیث نمبر:۲۰۷۰) تقدیر پر ایمان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ شخص کامیابی میں شکر کریگا اور ناکامی میں صبر کریگا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس آیت میں بتلایا "لِّکَیْلَاتَاْسَوْا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلَاتَفْرَحُوْا بِمَااٰتٰکُمْ" (الحدید:۲۳) "تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر رنج نہ کرو اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے اس پر اتراؤ نہیں" (ترجمہ تھانویؒ) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تقدیر کا بہانہ کرکے شریعت کے موافق ضروری تدبیر کو بھی چھوڑ دے بلکہ یہ شخص تو کمزور تدبیر کو بھی نہ چھوڑیگا اور اس میں بھی امیدرکھے گا کہ خدا تعالیٰ اس میں بھی اثردے سکتا ہے اس لیے کبھی ہمت نہ ہاریگا، جیسے بعض لوگوں کو یہ غلطی ہوجاتی ہے اور دین تو بڑی چیز ہے، دنیا کے ضروری کاموں میں بھی کم ہمتی کی برائی حدیث میں آئی ہے؛ چنانچہ "عوف بن مالکؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ فرمایا تو ہارنے والا کہنے لگا "حَسْبِیَ اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْل" (مطلب یہ کہ خدا کی مرضی میری قسمت) حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کم ہمتی کو ناپسند فرماتا ہے؛ لیکن ہوشیاری سے کام لو (یعنی کوشش اور تدبیر میں کم ہمتی مت کرو) پھر جب کوئی کام تمہارے قابو سے باہر ہوجائے تب کہو "حَسْبِیَ اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْل"۔ (ابوداؤد، "عن عوفِ بنِ مالِک أَنہ حدثہم أَن النبِیﷺ قضی بین رجلینِ فقال المقضِیُ علیہِ"الخ، باب الرجل یحلف علی حقہ، حدیث نمبر: ۳۱۴۳)