انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ موتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تبلیغی و دعوتی خطوط سلاطین کے نام لکھے تھے،ان میں ایک خط حارث بن عمیرؓ ازدی کے ہاتھوں حاکمِ بصریٰ کے نام روانہ کیا تھا، حارث بن عمیر ازدی روانہ ہوکر ابھی بصریٰ تک نہ پہنچے تھے سرحد شام کے قریب مقام موتہ میں پہنچنے پائے تھے کہ وہاں کے حاکم شرجیل بن عمر غسانی نے جو قیصر روم کی طرف سے اس علاقہ کا صوبہ دار تھا ،حارث کو گرفتار کرلیا اوریہ معلوم کرکے یہ حاکم بصریٰ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لئے ہوئے جارہے ہیں اُن کو شہید کردیا، حارث بن عمریؓ کے بلاوجہ قتل ہونے کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم اس سرکش غسانی سردار کی سرکوبی کے لئے روانہ کی،اگر اس مہم کی روانگی میں ذرا بھی تامل ہوتا تو شام کی طرف سے مدینہ پر حملہ ہونا یقینی تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ مسلمان اپنے اپنے سلاح جنگ لے کر موضع حرق میں جمع ہوں؛چنانچہ تین ہزار اسلامی لشکر موضع حرق میں جمع ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کی سرداری زید بن حارثؓ کو عطا فرمائی اورحکم دیا کہ اگر زید بن حارث ؓ شہید ہوجائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ اس لشکر کے سردار ہوں گے، اگر جعفرؓ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ سردارِ لشکرہوں گے،اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر جس کو لشکری پسند کریں اپنا سردار بنالیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکر کو تھوڑی دُور تک بطریق مشایعت پہنچانے گئے ،پھر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ حضرت زید بن حارثؓ اپنے لشکر کو لئے مقام معاون تک بڑھے چلے گئے،مقام معان میں پہنچ کر خبر ملی کہ حاکم موتہ شرجیل بن عمرو نے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے ایک لاکھ جرار فوج فراہم رکھی ہے اورایک لاکھ فوج کے ساتھ موتہ سے تھوڑی دُور پیچھے وادیٔ بلقاء میں خود قیصر روم خیمہ زن ہے، اس خبر کو سُن کر لشکر اسلام میں آثارِ فکر و تردد نمایاں ہوئے، مسلمان دودن تک معان میں ٹھہرے رہے اور باہم یہ مشورہ ہوتا رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا جائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور امداد کا انتظار کیا جائے ابھی کوئی خاص رائے قائم نہ ہوئی تھی کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے بلند آواز سے لوگوں کو اپنی طرف مخاطب کرکے کہا: "تم لوگ شہادت کی جستجو میں نکلے ہو کفار سے ہم گنتی یعنی اعداد وشمار اورقوت کے ذریعہ نہیں لڑتے ؛بلکہ ہم اُس دین کے ذریعے لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہم کو مشرف کیا ہے،پس مقام موتہ اورلشکرِ ہر قل کی طرف پیش قدمی کرو اوراپنے لشکر کا میمنہ اور میسرہ درست کرکے کفار کا مقابلہ کرو، اس کا نتیجہ ان دو نیکیوں سے خالی نہ ہوگا،یا تو ہم کو فتح حاصل ہوگی یا شہادت میسر ہوگی۔" حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کا یہ بہادرانہ کلام سُن کر حضرت زید بن حارثؓ ایک ہاتھ میں نیزہ دوسرے میں جھنڈ ا لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے،تمام مسلمانوں میں جوش اورشہادت کا شوق پیدا ہوا، لشکرِ اسلام معان سے روانہ ہوا،ایک گاؤں مشارف نامی کے قریب دشمن کی جمعیت کثیر مقابل نظر آئی، مگر مسلمانوں نے وہاں مقابلہ مناسب نہ سمجھا،وہاں سے کترا کر مقام موتہ کی طرف بڑھے تاکہ جنگ کے لئے اچھا میدان ہاتھ آئے، بالآخر میدانِ موتہ میں دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا،ایک طرف ایک لاکھ لشکرِ جرار تھا، دوسری طرف تین ہزار غازیانِ اسلام تھے،اسی لشکرِ اسلام میں حضرتِ خالد بن ولیدؓ بھی شامل تھے اورمسلمان ہونے کے بعد اُن کو اسلام کی طرف سے پہلی مرتبہ جوہر شجاعت دکھانے کا موقع ملا تھا ،قیصر روم اورمسلمانوں کی یہ پہلی لڑائی تھی،اس لڑائی کو مسلمانوں اورعیسائیوں کی پہلی لڑائی بھی کہا جاسکتا ہے،اگرچہ سرحدِ شام کے قریب اوربھی کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوچکی تھیں، لیکن قابلِ تذکرہ لڑائیوں میں یہ سب سے پہلی لڑائی تھی جو مسلمانوں نے ملکِ شام کی حدود میں لڑی، حضرت زید بن حارث علم ہاتھ میں لئے قلبِ لشکر کے سامنے سب کے آگے آگے تھے ،میمنہ قطبہ بن قتادہؓ غدری کے سپرد تھا اورمیسرہ میں عبایہ بن مالکؓ انصاری تھے ،زید بن حارثؓ لڑتے اورکفار کو قتل کرتے ہوئے بہت آگے بڑھ گئے،کفار نے چاروں طرف سے اُن کو گھیر لیا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے،اُن کے شہید ہوتے ہی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بہت کفار کو قتل کیا،آخر ان کا گھوڑا زخمی ہوکر گرا اوروہ پیادہ دشمنوں سے لڑتے رہے،دشمنوں نے اُن کو بھی اپنے نرغہ میں لے لیا،بالآخر اُن کا دایاں ہاتھ کٹ کرالگ جاپڑا مگر انہوں نے بائیں ہاتھ سے جھنڈے کو سنبھالے رکھا،جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو گردن سے علم کو لگا کر سینے سے سنبھال لے رکھا، یہاں تک کہ اسی حالت میں شہید ہوگئے،ان کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے آگے بڑھ کر علم کو اپنے ہاتھ میں لے لیا، تھوڑی دیر لڑکر یہ بھی شہید ہوگئے اور رایت اسلام گرگیا ،مسلمانوں میں آثار پریشانی ہویدا ہوئے،حضرتِ ثابت بن اقرم نے جھٹ آگے بڑھ کر علم اُٹھا لیا اوربلند آواز سے کہا: "مسلمانو! کسی ایک شخص کے امیر بنانے میں موافقت کرلو" لشکریانِ اسلام کی طرف سے متفقہ آواز بلند ہوئی کہرضینابک(ہم لوگ تمہاری امارت سے راضی ہیں)ثابت بن اقرم نے جواب دیا:"ما انا بفاعل فاتفقوا علی خالد بن الولید"(میں یہ کام نہ کرسکوں گا تم خالد بن ولیدؓ کی سرداری تسلیم کرلو) لشکرِ اسلام کی طرف سے فوراً آواز بلند ہوئی: ہم کو خالد بن ولیدؓ کی سرداری منظور ہے،یہ سنتے ہی خالد بن ولیدؓ نے فوراً آگے بڑھ کر ثابت بن اقرب کے ہاتھ سے علم لے لیا اور رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے، ابھی تک رومی لشکر غالب اور مسلمان مغلوب نظر آتے تھے،بعض مسلمانوں کی ہمتیں یہ رنگ دیکھ کر پست ہوچکی تھیں،لیکن خالدؓ نے علم ہاتھ میں لیتے ہی مسلمانوں کو للکار کر لڑائی پر آمادہ کیا اورغیرت دلا کر چقلپش مردانہ پر از سر نو آمادہ کردیا،پھر اس خوبی سے دشمنوں کے لشکرِ عظیم پر پے درپے حملے کئے ؛بلکہ انہوں نے اپنے لشکر کی ترتیب اورنقل وحرکت کو بڑی خوبی سے اپنے قابو میں رکھا، انہوں نے کبھی میسرہ کو آگے بڑھایا،کبھی میمنہ کو پیچھے ہٹاکر خود بھی حملہ آور ہوتے تھے اوراپنے لشکر کے مختلف حصوں سے دشمنوں کو مضروب کرتے تھے،خالد بن ولیدؓ بجلی کی طرح میدانِ جنگ میں کوند رہے تھے اور اپنے لشکر کے ہر حصے کو خود مدد پہنچاتے تھے، غرض صبح سے شام تک حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے تین ہزار غازیوں کو رومیوں کے ایک لاکھ لشکرِ جرار سے لڑایا،جب شام ہونے کو آئی تو رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلے سے فرار کی عار گوارا کی اور بے اوسان ہوکر بھاگے، مسلمانوں نے تھوڑی ہی دُور تک تعاقب کیا اورکچھ مال غنیمت بھی اس تعاقب میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا اس لڑائی میں کُل بارہ صحابی لشکرِ اسلام سے شہید ہوئے،کفار کے مقتولوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہوسکی۔