انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نبی اور غیرنبی کا فرق انبیاء اوران کے مشابہ اشخاص میں کتنا عظیم الشان فرق ہے یہ فرق چار حیثیتوں سےظاہر ہوتا ہے ،مبدأ، اور منبع کا فرق، غرض وغایت کا فرق، طریق دعوت، کا فرق اور علم و عمل کا فرق۔ (۱)نبی کے علم کا مبدا، منبع،ماخذ اور سرچشمہ جو کچھ کہو وہ تعلیم ربانی ،شرح صدر اوروحی والہام ہوتا ہے اورحکیم کے علم کا ماخذ ومنبع تعلیم انسانی ،گزشتہ تجربہ،استقراءاورقیاس ہوتا ہے یعنی حکیم عقل سے جانتا ہے اور نبی خالقِ عقل سے۔ (۲)اسی طرح ایک حکیم کے تمام اقوال اور جدوجہد کا منشاء اپنی شہرت طلبی،علم کا اظہار، قوم یا ملک کی محبت کی خاطر اس کی اصلاح ہوتا ہے ،مگر ایک نبی کا مقصد خدا کے حکم کا اعلان اورخالق کی رضا مندی کے لیے مخلوق کی بھلائی ہوتا ہے ۔ (۳)طریق دعوت کا فرق یہ ہوتا ہے کہ حکیم اپنی دعوت کی عمارت کو تمام ترحکمتوں ،مصلحتوں اور علل واسباب کے ستونوں پرکھڑا کرتا ہے ؛لیکن نبی اپنی دعوت کو زیادہ تر خالق کی اطاعت ،محبت اور رضا جوئی پر قائم کرتا ہے۔ (۴)حکیم کہتا ہے لیکن اس کا کرنا اس کے لیے ضروری نہیں، نبی جو کہتا ہے وہ کرتا ہے اوراس کا کرکے دکھانا اس کے لیے ضروری ہے، وہ صرف جلوت (سب کے سامنے)کے منبر پر جلوہ نما نہیں ہوتا ؛بلکہ وہ جلوت وخلوت(تنہائی) اورظاہر وباطن میں یکساں حسنات سے آراستہ اور برائیوں سے پاک ہوتا ہے دنیا میں سقراط ،افلاطوں ،ارسطو وغیرہ ایک طرف اور ابرہیمؑ، موسیٰؑ اورمحمدﷺ دوسری طرف ہیں اور دونوں کے سوانح اور سیرتیں اورکارنامے بالکل نمایاں اورایک دوسرے سے اس طرح ممتا زہیں کہ ان میں ذرا التباس نہیں۔ بادشاہ اپنی تلوار کے زور اوراپنی فوج ولشکر کی قوت سے رعایا کو اپنے قانون کا پابند بناتے ہیں تاکہ فتنہ و فسادر رک جائے ،فلاسفر اپنے دعوؤں کو صرف استدلال کی قوت اور عقل کے خطاب سے ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی بات لوگ تسلیم کریں لیکن پیغمبر اپنے پیروؤں کے قلب کو اس طرح بدل دینا چاہتے ہیں کہ وہ از خود برائی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کرلیں، وہ اگر کچھ قانون وحد وسزا کو اختیار کرتے ہیں یا ساتھ ساتھ عقل کو بھی مخاطب کرتے ہیں،تو ان کا یہ ضمنی یا ثانوی کام ہوتا ہے ،اولین نہیں، ان کی اولین غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے پیرووں کو خدا کی قدرت اوراس کے حاضر وناظر ہونے کا اتنا محکم اور پختہ یقین ہوجائے کہ وہ اس کے حکموں اورنصیحتوں کو جوان کے ذریعہ آتی ہیں بے چون و چرا تسلیم کرلیں۔