انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** انصار کی والہانہ محبتِ رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جعرانہ میں جب مال غنیمت تقسیم کیا تو مکہ والوں کو جو مؤلفۃ القلوب تھے زیادہ رقمیں دیں اوربعض کو کئی گنا ان کے حصے سے زیادہ مالِ غنیمت ملا ،مکہ والے چونکہ اکثر قریش یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے رشتہ دار اورہم وطن تھے اس لئے انصار کے بعض نوجوانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں اور ہم وطنوں کو بلا استحقاق مال و دولت عطا کی اورہم کو معمولی حصہ سے زیادہ کچھ نہ دیا؛حالانکہ عطیات کے زیادہ مستحق تو ہم لوگ تھے۔ یہ بھنک اُڑتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمع مبارک تک بھی پہنچ گئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انصارکو ایک جگہ جمع کیا جب سب جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم نے ایسا ایسا کہا ہے،انصار کی طرف سے جو اباً عرض کیا گیا کہ ہمارے نوجوانوں نے اس قسم کی باتیں ضرور کی ہیں ؛لیکن ہم میں سے کسی پختہ،معزز اورسمجھ دار شخص کو اس بات کا خیال تک بھی نہیں آیا،نہ ہم کو کبھی ایسا خیال آسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا اے جماعتِ انصارکیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم لوگ گمراہ تھے ،خداتعالیٰ نے میری بدولت تم کو ہدایت فرمائی، انصار نے عرض کیا:بے شک،اللہ اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر بڑا احسان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں تم مجھ کو جواب دے سکتے ہو کہ ساری دنیا نے تجھ کو جھٹلایا اورہم نے تیری تصدیق کی، سب نے تجھ کو چھوڑدیا اور ہم نے پناہ دی،تو محتاج تھا،ہم نے تیری مدد کی اور تمہاری ان سب باتوں کی تصدیق کروں گا، اے جماعت انصار،کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ بکری لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لے جاؤ۔ یہ تقریر سُن کر انصار بے اختیار روپڑے اورآنسوؤں کی جھڑی سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ہجرت ایک تقدیری حکم نہ ہوتا تو میں بھی انصار میں شامل ہوتا، اگر انصار ایک رستے پر چلیں اورلوگ دوسرا راستہ اختیار کریں تو میں یقیناً انصار کا راستہ اختیار کروں گا،اے اللہ! انصار اور انصار کے لڑکوں پر اور ان کے لڑکوں پر رحم کر،یہ سُن کر انصار کی جو حالت تھی اوران کو جس قدر خوشی تھی اس کا ہم صرف تصور کرسکتے ہیں، بذریعہ الفاظ کیسے بیان کیا جاسکتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو سمجھایا کہ یہ لوگ ابھی تازہ مسلمان ہوئے ہیں، تالیف قلوب کے خیال سے ان کو زیادہ مال دیا گیا ہے،یہ نہیں کہ ان کا حق زیادہ ہے۔