انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت معاذ بن معاذ عنبریؒ نام ونسب معاذ نام اورابو المثنی کنیت تھی (المعارف لا بن قتیبہ :۲۲۳)پورا نسب نامہ یہ ہے،معاذ بن معاذ بن نصر بن حسان بن الحر بن مالک بن الخشخاش بن جناب بن حارث بن خلف بن الحارث بن مجفر بن کعب بن العنبر بن عمرو بن تمیم بن مر بن اوبن طابختہ بن الیاس بن نصر(اخبار القضاۃ:۲/۱۳۷)عنبری اور تمیمی خاندانی نسبتیں ہیں۔ وطن اورولادت ابوالمثنیٰ ۱۱۹ھ کے اواخر میں متولد ہوئے اس وقت بغداد کے تختِ سلطنت پر خلیفہ ہشام بن عبدالملک دادِ حکمرانی دے رہا تھا (طبقات ابن سعد:۷/۷۴)یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ "ابو المثنیٰ مجھ سے عمر میں دوماہ بڑے تھے؛کیونکہ وہ ابوالمثنیٰ ۱۱۹ھ کے آخر میں پیدا ہوئے اورمیری ولادت ۱۲۰ھ کے آغاز میں ہوئی۔ فضل وکمال وسعتِ علم کے لحاظ سے وہ نہایت بلند مرتبت تھے حدیث اورفقہ کے جامع اوردونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے،اس فضل وکمال کی بنا پر اکابر حفاظِ حدیث اورمشاہیر تبع تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے،کمالاتِ فنی کے ساتھ ذکاوت وفطانت،عقل و فرزانگی اور تواضع وانکسار ان کے خاص اوصاف ہیں علماء نے ان کی جلالتِ شان کو بالا تفاق تسلیم کیا ہے،حافظ ذہبی کان احد الحفاظ اور "الامام الحافظ العلامۃ" لکھتے ہیں۔ (العبر:۱/۲۳۰،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۷) حدیث حدیث میں انہیں خصوصی درک حاصل تھا،امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ علم حدیث ابو المثنیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا(تہذیب التہذیب:۱۰/۱۹۴)یعنی وہ اس کی روایت وتدریس میں غایت درجہ دلچسپی اورشغف رکھتے تھے اوراس میں انہیں ایک خاص سرور وکیف حاصل ہوتا تھا ،جن محدثین سے وہ مستفید ہوئے ان میں سلیمان التیمی ،عبداللہ بن عون سعید بن عروبہ،شعبہ بن الحجاج،سفیان الثوری،حمید الطویل،حاتم بن ابی صغیرہ،عاصم بن محمد،قرہ بن خالد، ورفاء بن عمرو،وغیرہ کے نام لائق ذکر ہیں۔ (تذکرہ:۱/۲۹۷وتاریخ بغداد:۱۳/۱۳۱) تلامذہ ان کے معدنِ علم سے اکتسابِ فیض کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے؛کیونکہ ابو المثنیٰ نے بصرہ کے علاوہ بغداد اوردوسرے مقامات پر بھی اپنے فیض سے تشنگانِ علم کو شاد کام کیا تھا،ممتاز تلامذہ کی فہرست میں ان کے صاحبزادگان عبید اللہ اورمثنیٰ کے علاوہ چند نام یہ ہیں: علی بن المدینی،احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،ا بو خثیمہ ،ابوبکر بن شیبہ،حکم بن موسیٰ ،قتیبہ ،بندار،محمد بن حاتم، عبدالرحمن بن ابی الزناد،عثمان بن ابی شیبہ،ابراہیم بن محمد۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۱۳۱) فقہ حدیث ہی کی طرح فقہ میں بھی انہیں کمال حاصل تھا،ابن حبان کا بیان ہے،کان فقیھا عالماً متقناً (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۹۵) تثبت واتقان روایت حدیث میں ان کے تثبت اوراتقان کا پایہ غایت درجہ بلند تھا،ناقدین فن نے اس خصوصیت میں ان کو عدیم النظیر قرار دیا ہے؛چنانچہ یحیی بن سعید القطان،جیسے عبقری وقت نے برملا اعتراف کیا ہے کہ: ما بالبصرۃ ولا بالکوفۃ ولا بلحجاز اثبت من معاذ بن معاذ (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۲۰) بصرہ،کوفہ اورحجاز میں کہیں بھی معاذ بن معاذ سے زیادہ تثبت رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ امام احمدؒ کا بیان ہے۔ الیہ المنتھیٰ فی التثبت بالبصرۃ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۷) بصرہ میں تثبت فی الحدیث ان پر ختم تھا۔ ثقاہت اسی طرح نہایت ثقہ اورعدول تھے، جس کی سند یہ ہے کہ ان کی مرویات کو ائمہ صحاح اورعلمائے امت نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے،امام نسائیؒ کا قول ہے: "ثقۃ ثبت"ابن سعد رقمطراز ہیں "کان ثقۃ" (ابن سعد:۷/۴۷) علاوہ ازیں ابو حاتم، امام بخاریؒ اورابن حبان وغیرہ نے بھی بصراحت ان کی ثقاہت کی تصدیق کی ہے۔ قضاءت ابو المثنیٰ اپنے کمال تفقہ کی بنا پر دوبارہ بصرہ کے قاضی مقرر ہوئے،پہلی مرتبہ ۱۷۲ھ میں اس منصب کو عزت بخشی۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۱۳۲) لیکن صرف ایک ہی سال فرائض منصبی ادا کرپائے تھے کہ بعض لوگوں کی شکایت پر حاکم محمد بن سلیمان نے ان کو معزول کرکے عبدالرحمن بن محمد المخزومی کو قاضی مقرر کردیا۔ (اخبارالقضاۃ:۲/۱۳۸) پھر رجب ۱۸۱ھ میں قاضی بصرہ عمر بن حبیب العدوی کی معزولی کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدہ پر فائز ہوئے اورایک طویل عرصہ تک بحسن وخوبی اپنے فرائض انجام دیتے رہے حتیٰ کہ وفات سے پانچ سال قبل رجب ۱۹۱ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے ان کے خلاف علماء اورعوام کی مسلسل شکایتوں سے مجبور ہوکر انہیں عہدہ سے برطرف کردیا۔ (اخبار القضاۃ:۲/۱۵۴) معزولی کے اسباب قاضی معاذ کے خلاف ناراضگی اورشکایات کے متعدد اسباب تھے،انہوں نے اپنے عہدِ قضا میں بہت جرأت ،حق گوئی اوربیباکی کے ساتھ عدالتی فیصلے نافذ کیے،اس میں وہ عام وخاص کی کوئی تفریق روانہ رکھتے تھے؛چنانچہ اعیانِ دولت اپنی مرضی کے خلاف فیصلوں کے بنا پر انہیں سخت ناپسند کرنے لگے تھے۔ علاوہ ازیں کبر سنی کی وجہ سے وہ گونا گوں جسمانی عوارض واعذار کا شکار ہوگئے تھے،آخر عمر میں انہوں نے بصرہ کے چند علماء کو اپنا مقرب خاص بنالیا تھا؛چنانچہ جب قاضی موصوف ایوانِ عدالت میں بیٹھتے تو یہ لوگ بھی وہاں موجود رہتے اوربعض اوقات اپنی مرضی کے مطابق امورِ قضا طے کرالیتے تھے،اس بدنما صورتِ حال سے ایک عام ناراضگی پھیلنے لگی،شعراء نے معاذ بن معاذ کی طویل ہجویں کہیں اور فقہاء وعلماء نےخلیفہ وقت سےمل کر اپنی بے اعتمادی کا اظہار کیا،جب شکایتوں کی کثرت ہوگئی تو ہارون الرشید نے انہیں معزول کردیا۔ کثرتِ دیانت دیانت وتقویٰ میں ان کے علو مرتبت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہدۂ قضا کے زمانہ میں ایک دن سخت بارش ہورہی تھی، لیکن اپنے صاحبزادے سے فرمایا: بیٹے!اب میں ایوانِ عدالت میں جارہا ہوں،لڑکے نے عرض کیا:"ابا آج تو اتنی بارش ہورہی ہے لوگ کہا آئیں گے؟ کمال دیانت سے فرمایا: اس سے کیا ہوتا ہے،اجلاس کرنا تو ضروری ہے ورنہ پھر ہمارے لیے کس طرح جائز ہوگا کہ ہم یومیہ اتنے درہم کا مشاہرہ لیتے رہیں اور پھر اسی زور دار بارش میں جاکر ایوانِ عدالت میں بیٹھے۔ (اخبار القضاۃ:۲/۱۳۹) سادگی بایں ہمہ جلالت علم وفن اورعہدہ منصب کے ان کی زندگی نہایت سادہ اور صولت وشوکت سے عاری تھی،جب انہیں بصرہ کا قاضی مقرر کیا گیا تو معتمر بن سلیمان ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اوربہت معنی خیز انداز میں کہا:"ابوالمثنی!اب تو آپ قاضی ہوگئے ہیں، قاضی معاذ فوراً الفاظ کی تہہ کو پہنچ گئے اوربجائے کچھ جواب دینے کے ان کو اپنے مکان میں لے گئے وہاں ابن سلیمان نے جو گردوپیش کا جائز لیا تو دھوپ میں بستر کی جگہ ایک چٹائی پڑی تھی،قاضی معاذ اپنے بالائی جسم پر کرتے وغیرہ کی بجائے ایک بہت پرانی روئی دار چادر لپیٹے ہوئے تھے، اس منظر کو دیکھ کر ابن سلیمان ضبط نہ کرسکے اوربادیدہ نم خاموشی کے ساتھ وہاں سےنکل آئے۔ (اخبار القضاۃ:۱۲۹) عقل وفرزانگی فیض قدرت نے دیگر فضائل ومناقب کے ساتھ ان کو عقل وفہم سے بھی بہرہ وافر عطا کیا تھا،امام احمد جنہیں ان سے تلمذ خاص حاصل تھا، بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاذ بن معاذ سے زیادہ دانشمند کسی کو نہیں دیکھا مارأیت اعقل منہ (العبر نی خبر من غبر:۱/۳۲۰) عقائد میں تشدد ان کے عقائد تمام مبتدعانہ خیالات کی آمیزش سے پاک صاف تھے،خلقِ قرآن کا فتنہ گو ان کی وفات کے بعد بہت گرم ہوا،لیکن متکلمین کے اس متنازعہ فیہ مسئلہ میں ان کا مسلک بہت دوٹوک تھا کہ قرآن خدا کا کلام اورغیر مخلوق ہے اوراس بارے میں وہ اتنا زیادہ متشدد تھے کہ قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے تھے؛چنانچہ خود ان کا قول ہے کہ: من قال القرآن مخلوق فھو واللہ زندیق (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۷) جو شخص خلق قرآن کا قائل ہو وہ بخدا زندیق ہے۔ وفات خلیفہ امین کے عہدِ حکومت میں ۲۹ ربیع الآخر ۱۹۶ ھ کو بمقامِ بصرہ علم وعمل کا یہ روشن چراغ گل ہوگیا (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۹۵ والمعارف:۲۲۳)نماز جنازہ بصرہ کے امام محمد بن عباد الہبلی نے پڑھائی،وفات کے وقت ۷۷ سال کی عمر تھی۔ (طبقات ابن سعد:۷/۴۸)