انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سالم مولیؓ ابی حذیفہؓ نام،نسب سالم نام، ابوعبداللہ کنیت، والد کے نام میں اختلاف ہے، بعض عبید بن ربیعہ اوربعض مغفل لکھتے ہیں، یہ ایرانی الاصل ہیں، اسطخران کا آبائی مسکن تھا،حضرت ثبیتہ بنت ؓ یعارانصاریہؓ کی غلامی میں مدینہ پہنچے، انہوں نے آزاد کردیا، توحضرت ابوحذیفہؓ نے ان کو اپنا متبنیٰ کرلیا، اس لحاظ سے ان میں انصار ومہاجر کی دونوں حیثیتیں مجتمع ہیں۔ (اسد الغابہ: ۲/۲۴۵) وہ عموما ًسالم بن حذیفہؓ کے نام سے مشہور تھے، حضرت ابوحذیفہؓ بھی ان کو اپنے لڑکے کی طرح سمجھتے تھے اوراپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید سے بیاہ دیا تھا،لیکن جب قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی " ادعوھم لابائھم" یعنی لوگوں کو اپنے نسبی آباء کے انتساب سے پکارا کرو توحضرت سالمؓ بھی ابن کے بجائے مولی ابی حذیفہؓ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ (ابوداؤ کتاب انکاح اب فی سن حرم) حضرت سالمؓ جوان ہوئے اورقرآن نے خود ساختہ ابوت(باپ) ونبوت(نبی) کے تعلق کو کالعدم کردیا تو حضرت ابوحذیفہؓ کو ان کا زنان خانہ میں آنا جانا ناگوار گذرنے لگا ،چنانچہ ان کی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیلؓ نے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر عرض کیا‘ یارسول اللہ! سالم کو ہم اپنا لڑکا سمجھتے تھے، اوروہ ہمیشہ گھرمیں آتا جاتا تھا،لیکن اب ابوحذیفہؓ کو ناگورا گذرتا ہے، ارشاد ہوا کہ اس کو دودھ پلادو تو وہ تمہارا محرم ہوجائے گا، غرض اس طرح وہ حضرت ابوحذیفہؓ کے رضاعی فرزند ہوگئے لیکن ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ یہ سالمؓ کے لیے مخصوص اجازت تھی، ورنہ جوانی کی حالت میں رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد کتاب النکاح باب فی من حرم) اسلام وہجرت حضرت سالمؓ غالباً مکہ میں حضرت ابوحذیفہؓ کے ساتھ مسکن گزین تھے، دعوت اسلام کا غلغلہ بلند ہوا تو انہوں نے اتبداہی میں لبیک کہا، آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ سے مواخات کرادی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۶۱) ہجرت کے موقع میں حضرت ابو حذیفہؓ کے ہمراہ تھے، مدینہ پہنچ کر حضرت عباد بن بشرؓ کے مہمان ہوئے اور حضرت معاذ بن ماعض انصاری ؓ سے مواخات ہوئی۔ (ابوداؤد کتاب انکاح باب فی من حرم) غزوات غزوۂ بدر، احد، خندق اور عہدِ نبوی ﷺ کی تمام جنگوں میں معرکہ آرا تھے، عہد صدیقی ؓ میں یمامہ کہ مہم پر بھیجے گئے، مہاجرین کا علم ان کے ہاتھ میں تھا، ایک شخص نے اس پر نکتہ چینی کی اور کہا "ہم کو تمہاری طرف سے اندیشہ ہے، اس لیے ہم کسی دوسرے کو علمبردار بنائیں گے، بولے، اگر میں بزدلی دکھاؤں تو میں سب سے زیادہ بدبخت حاملِ قرآن ہوں، یہ کہہ کر نہایت جوش کے ساتھ حملہ آور ہوئے اوردرحقیقت انہوں نے اپنے کو بہترین حاملِ قرآن ثابت کیا، اثنائے جنگ میں داہنا ہاتھ قلم ہوا تو بائیں ہاتھ نے قائم مقامی کی، وہ بھی شہید ہوا تو دونوں بازوؤں نے حلقہ میں لے کر لوائے توحید کو سینہ سے چمٹا دیا، زبان پر یہ فقرہ جاری تھا: (اسد الغابہ:۲/۲۴۶) "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ،" (آل عمران:۱۴۴) "وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ" (آل عمران:۱۴۶) محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں اور کتنے انبیاء ایسے ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا ہے۔ شہادت زخموں سے چور ہوکر گرے تو پوچھا، ابوحذیفہؓ نے کیا کیا؟ لوگوں نے کہا "شہید ہوئے" بولے ،اس شخص نے کیا کیا جس نے مجھ سے اندیشہ ظاہر کیا تھا؟ جواب دیا گیا کہ وہ بھی شہید ہوئے، فرمایا، مجھے ان دونوں کے درمیان دفن کرنا۔ (اسعد الغابہ جلد ۲) ابن سعد کی روایت ہے کہ جنگ یمامہ کے موقع پر جب مسلمانوں کے پاؤں پیچھے پڑنے لگے تو حضرت سالمؓ نے کہا افسوس! رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو ہمارا یہ حال نہ تھا، وہ اپنے لیے ایک گڑھا کھود کر اس میں کھڑے ہوگئے اور علم سنبھالے ہوئے آخر لمحہ حیات تک جانبازانہ شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے، اختتام جنگ کے بعد دیکھا گیا تو اس شہید ملت کا سراپنے منہ بولے باپ (حضرت ) ابوحذیفہؓ کے پاؤں پر تھا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۲ :۶۱) انا للہ وانا الیہ راجعون فضل وکمال حضرت سالمؓ ان بزرگوں میں تھے جو طبقہ صحابہ ؓ میں فنِ قرأت کے امام سمجھے جاتے تھے، آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن چارآدمیوں سے حاصل کرو یعنی ابن مسعودؓ ،سالم ؓمولی ابی حذیفہؓ ،ابی بن کعبؓ اورمعاذؓ بن جبل سے (بخاری) خدائے پاک نے خوش گلو اس قدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پرایک عام محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے ،ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی، آپ نے توقف کی وجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا اس کے سننے میں دیر ہوگئی اورخوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے، دیکھا تو سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ ہیں، آپ نے خوش ہوکر فرمایا خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا۔ (اصابہ تذکرہ سالم) حضرت سالم ؓ اپنی خوش الحانی وحفظِ قرآن کے باعث صحابہ کرام ؓ میں نہایت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے جس قدر مہاجرین مدینہ پہنچے تھے، حضرت سالمؓ مسجد قبا میں ان کی امامت کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب امامۃ العبد والمولی) وہ مسجد قباء کے امام تھے، مہاجرین اولین جن میں حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ بھی شامل تھے، اکثر ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے، (بخاری کتاب الاحکام) غرض قرآنِ کریم کی برکت اور علم وفضل نے ان کو غیر معمولی عظمت وشرف کا مالک بنادیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ ان کی بے حد تعریف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دمِ واپسیں کے وقت انہوں نے منصب خلافت کے متعلق وصیت فرمائی تو کہا، اگر سالم موجود ہوتے تو میں اس مسئلہ کو مجلس شوریٰ میں پیش ہونے نہ دیتا، یعنی وہ ان کو اپنا جانشین بناتے۔ (اسدالغابہ :۲/۲۴۶) اخلاق حضرت سالمؓ کے قبائے فضل پر محاسنِ اخلاق کا طغرا نہایت خوشنما ہے، گذشتہ واقعات سے ان کی استقامت ،وفاشعاری وپارسائی کا اندازہ ہوا ہوگا، اہلِ حاجت کے لیے دستِ کرم کشادہ تھا ؛چونکہ کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انہوں نے اپنے متروکہ مال اسباب میں سے ایک ایک ثلث مختلف اسلامی ضروریات اورغلاموں کی گلوخلاصی کے لیے اورایک ثلث اپنے سابق آقاؤں کے لیے وصیت فرمائی تھی، حضرت ابوبکرؓ نے ان کی سابق مالکہ حضرت ثبیتہ بنت یعارؓ کے پاس ان کا حصہ بھیجا تو انہوں نے لینے سے انکار کیا اور بولیں کہ میں نے بغیر امید صلہ آزاد کیا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اس حصہ کو بیت المال میں داخل فرمادیا۔ (استیعاب تذکرہ سالم ؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ)