انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتنہ انکارِ حدیث فہمِ قرآن کے لیے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآنِ کریم کے کسی ارشاد کا مفہوم متعین کرنے کے لیے متکلم کے منشاء تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے، یہ بات تسلیم ہے کہ ذاتِ خداوندی تک ہماری رسائی ناممکن ہے اور قرآن کریم کے کسی لفظ، جملے اور آیت کے مفہوم ومنشاء کے زیادہ قریب ہے؛ لیکن اللہ عزوجل کے پیغمبر تک توہماری رسائی ممکن ہے؛ کیونکہ اللہ عزوجل کے جس پیغامبر نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم کا متن عطا فرمایا ہے؛ اسی نے اس متن کی تشریح بھی فرمائی ہے اور اس کے اکثر وبیشتر مقامات کی وضاحت بھی اپنے ارشادات، اعمال اور اسوۂ حسنہ کے ذریعہ کردی ہے، اللہ تعالیٰ کے وہ پیغامبر حضرت رسولِ کریمﷺ ہیں، جن کے بارے میں رسول اللہﷺ کا جملہ بولتے ہی آپ کی یہ حیثیت ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نمائندہ ہیں، جن کاکام ہی اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہونچانا اور اس کی شرح ووضاحت کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ کے منشاء سے آگاہ کرنا ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ جناب نبی کریمﷺ کواللہ تعالیٰ کا نمائندہ تسلیم کرلینے اور قرآنِ کریم کا متن ہم تک پہونچانے میں اتھارٹی کے طور پر قبول کرلینے کے بعد اسی قرآن کریم کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں جناب رسولِ کریمﷺ کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کو حتمی معیار تسلیم کرنے میں آخرکونسی رکاوٹ درآتی ہے؟ جب کہ قرآن کریم جن ذرائع سے امت تک پہنچا ہے وہی ذرائع اس کی تشریح میں آپ کے ارشادات وفرمودات کوہم تک منتقل کررہے ہیں؛ اگروہ ذرائع قرآنِ کریم کوامت تک پہنچانے میں کیوں قابلِ اعتمادہیں تو حدیث وسنت کو امت تک پہنچانے میں کیوں قابل اعتماد نہیں ہوسکتے ؟ بعض لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم چونکہ تواتر کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے؛ اس لیے وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تواتر آخر کن لوگوں کا ہے اور وہ کون افراد ہیں جواس تواتر میں شامل ہیں، کیا یہ تواتر احادیث وسنن کی روایت کرنے والوں سے الگ لوگوں کا ہے؟ اور اگریہ وہی لوگ ہیں توپھر کیا وجہ ہے کہ قرآن کے ضمن میں تووہ لوگ اعتبار واعتمادکی سند سے بہرہ ور ہوں اور جب حدیث وسنت کی بات آئے توان کواس سندِاعتماد وثوق سے محروم ٹھہرایا جائے۔ الغرض یہ کہ مسلمانوں کے پاس قرآن وسنت یہ دوہدایت کے سرچشمے ہیں، اسلام کی صحیح تصویر اور اسلام کی صحیح تعلیم کتاب اورسنت کی باہمی توفیق وتطبیق سے معلوم ہوگی اور جن لوگوں نے یہ چاہا یاچاہیں گے کہ ان دونوں کوایک دوسرے سے الگ کریں اورایک کومانیں اور دوسرے کا انکار کریں، وہ صراطِ مستقیم سے دور ہوئے، علامہ سیدسلیمان ندوی تدوین حدیث کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: جن لوگوں کی نظر ملل ونحل اور علمِ کلام وعقائد اور تاریخِ فرق پر ہے وہ آسانی سے اس بات کومان لیں گے کہ اسلام میں جتنے بدعتی فرقے پیدا ہوئے وہ وہی ہیں جنہوں نے کتاب کوسنت سے یاسنت کوکتاب سے الگ کرنا چاہا، خوارج نے کتاب کومانا اور سنت سے انحراف کیا اور ان کے مقابل کے فرقہ نے کتاب کومحرف بناکر چھوڑا اور اپنے ائمہ کی سنت کی پیروی کا دعویٰ کیا، اسی طرح معتزلہ نے قرآن کوبتاویل تسلیم کیا اور احادیث سے اعراض کیا اور راہِ راست سے دور ہوئے۔ پھرآگے فرماتے ہیں: قرآنِ پاک کے فہم کے نئے دعویدار اس زمانے میں اوربھی پیدا ہوگئے ہیں، جوقرآنِ پاک کوہرضرورت اور ہرحکم اورہرمسئلہ کے لیے کافی اور اپنی عقل اور فہم کواس کی تفسیر اور تشریح کے لیے کافی ترسمجھتے ہیں اور اس طرح وہ چاہتے ہیں کہ احادیث اور فقہ کا سارا دفتر مٹ جائے اور ان کی جگہ ان کے اجتہادات اور استنباطات قرآن پاک کاحقیقی ایڈیشن اور اسلام کی صحیح تعلیمات کا مستند مخزن قرار دیا جائے، ان بدعتیوں نے تومستشرقین کے سفیہانہ اعتراضات کوجوفن حدیث پرانہوں نے کئے ہیں اپنا کرسرے سے اس فن کی بیخ کنی شروع کردی، انہی سے سن کریہ کہا جاتا ہے کہ حدیثیں توحضورﷺ کے ڈھائی سوبرس بعد قلم بند ہوئی ہیں اور کبھی فن رجال کی وثاقت پراعتراضات کیے جاتے ہیں اور کبھی عقلی حیثیت سے اس پرایرادات پیش کیے جاتے ہیں اور ان سب کے نتیجے میں کوئی نماز کے اوقات کواور کوئی نماز کے ارکان کو، کوئی روز ہ کی تعداد کو، کوئی حج کے ارکان کو، کوئی قربانی کو، کوئی سمت قبلہ کو، کوئی وضو کی ہیئت یاضرورت کو، کوئی مسلمانوں کے اصولِ وراثت کو بدلنا چاہتا ہے اورلوگوں کو نئے اسلام کی دعوت دینا چاہتا ہے۔ (مقدمہ تدوین حدیث، ازمولاناسیدسلیمان ندویؒ) الغرض یہ کہ اس انکارِ حدیث کے فتنے کی خبر آنحضرتﷺ پہلے ہی دے چکے تھے، حضرت مقدام (۸۷ھ) کہتے ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: أَلَايُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَاوَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَاوَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ۔ (سنن ابوداؤد، كِتَاب السُّنَّةِ،بَاب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ،حدیث نمبر:۳۹۸۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ المعجم الکبیر، حدیث نمبر:۱۷۶۲۶) ترجمہ:قریب ہے کہ ایک امیرآدمی اپنے صوفہ پربیٹھے درس دے کہ تمھیں یہ قرآن کافی ہے، تم اس میں جوحلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جس چیزکوحرام پاؤ اسے ہی حرام کہو۔ پھرآگے فرمایا: وَإِنَّ مَاحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ كَمَاحَرَّمَ اللَّهُ أَلَالَايَحِلُّ لَكُمْ الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ، وَلَاكُلُّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ۔ ترجمہ:حالانکہ رسول اللہﷺ نے جن چیزوں کی حرمت بیان فرمائی ہے ویسی ہی حرام ہیں جس طرح وہ چیزیں جن کی حرمت قرآن میں مذکور ہے، گدھا اورہردرندہ حرام ہے۔ اہلِ اسلام میں سب سے پہلے رونما ہونے والے فتنوں میں، فرقۂ خوارج اور پھرفرقۂ شیعہ ہے، یہ فرقے پہلی صدی ہجری کے چوتھے دہے میں ظہورِ پذیر ہوئے؛ الغرض یہ کہ ان فرقہ ضالہ کے افکارِ باطلہ کی فہرست طویل ہے؛ لیکن ان فرقوں کوبھی احادیث کی تشریعی حیثیت کے انکار کی جرأت نہیں ہوئی؛ بس اتنا تھا کہ بعض تابعین کوانفرادی طور پر حدیث کامقام ومرتبہ ان کے لیے واضح اور ظاہر نہ ہوسکا۔ ۱۔حسن بصریؒ سے منقول ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ ہمارے نبی کی حدیثیں بیان کررہے تھے کہ اس دوران ایک شخص نے کہا: ابونجید! ہمیں قرآن سے بیان کرو، تواس سے انہوں نے کہا: تم اور تمہارے ساتھی قرآن پڑھتے ہیں؟ کیا تم قرآن سے نماز کا طریقہ اور اس کی کیفیت بتلاسکتے ہو؟ کیا تم مجھے اس سے اموالِ زکوٰۃ سونا، چاندی، اونٹ اور گائے وغیرہ کے نصاب اور ان کی تفصیلات بتاسکتے ہو؛ لیکن بات یہ ہے کہ میں دربارِ نبویﷺ کا حاضر باش ہوں اور تم غیرحاضر؛ پھرفرمایا: حضورﷺ نے اتنے اتنے مال کی زکوٰۃ فرض کی ہے (یعنی زکوٰۃ کی تفصیل بیان فرمائی) اس پروہ شخص بولا، آپ نے مجھے زندگی عطا کی آپ کواللہ زندگی بخشے احییتنی احیاک اللہ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ وہ شخص ایک قابل ذکر فقیہ ہوکر مرا۔ (مستدرک، کتاب العلم، حدیث نمبر:۳۷۲) ۲۔امیہ بن خالد سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرسے پوچھا کہ ہمیں قرآن میں حالتِ حضر کی نماز اور خوف کی نماز کا ذکر ملتا ہے؛ لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں ملتا؛ توحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: بھتیجے! بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد کوہماری طرف مبعوث فرمایا درآنحالیکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا، ہم تووہی کرتے ہیں جیسا کہ ہم محمدﷺ کوکرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (مستدرک، باب التأمین، حدیث نمبر:۹۴۶، دارالکتب العلمیہ، بیروت) پھردورِ صحابہ کے بعد بھی چند ایک افراد ہی کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہرمسئلہ کا حل قرآن سے تلاش کریں؛ لیکن اس وقت کے علماء نے اس خیالِ باطل کی تردید فرمائی، حضرت ابوایوب سختیانی (۱۳۱ھ) کا فرمان ہے: إذاحدثت الرجل بالسنة فقال: دعنا من هذا وحدثنا من القرآن، فاعلم أنه ضال مضل۔ ترجمہ:جب تم میں کسی شخص سے حدیث بیان کرو اور وہ یہ کہے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں، ہمیں توقرآن سے بیان کرو؛ توجان لو!کہ وہ شخص گمراہ ہے اور گمراہ کرنے والا ہے۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ،باب الكلام في الاخبار وتقسيمها:۱/۱۶، الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة) لیکن یہ انفرادی رائیں تھیں، کوئی مخصوص جماعت نہ تھی جسے ایک مکتبۂ فکر کہا جائے؛ نیز اس قسم کے خیالات صرف سرزمینِ عراق کے بعض افراد کے متعلق پائے جاتے ہیں؛ چنانچہ حضرت عمران بن حصین کا واقعہ بصرہ کا ہے اور حضرت ابوایوب سختیانی بھی بصری تھے اور امام شافعیؒ نے جن بعض منکرین خبرواحد پر الرسالۃ میں رد کیا ہے وہ بھی بصرہ ہی کے تھے؛ الغرض اہلِ حجاز میں اس طرح کے خیالات کا سراغ نہیں ملتا۔ معتزلہ اور انکارِ حدیث معتزلہ اخبارِ احاد کوحجت مان کراہلِ سنت والجماعت کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے، کلامِ الہٰی کا اس کی صفت ہونا، مخلوق ہونا، معجزات کا خرقِ عادت ہونا ، عذاب قبرجیسے امور کی نفی ،خبرواحد کوحجت مان کر ان کے لیے عملاً ممکن نہ تھی؛ انہوں نے حیلہ کیا کہ عام عقل کوارشادِ رسالت پرغالب کرکے ان تعلیمات کے ارشادِ رسالت ہونے سے انکار کردیا جائے، اخبار آحاد کے انکار سے ذخیرۂ حدیث بہت سمٹ جاتا تھا، بہت کم احادیث رہ جاتی تھیں جوتواتر پرپوری اترتیں؛ پھروہ ان میں بھی تاویل کی راہ اختیار کرسکتے، ان کا ماننا بھی نہ ماننے کے برابر ہوتا؛ البتہ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے بھی اصولی طور پرحجیت حدیث کا انکار نہیں کیا؛ بہرحال معتزلہ کا یہ فتنہ ایک علمی فتنہ تھا، اس لیے انکارِ حدیث میں انہیں بہت کچھ پس وپیش کرنا پڑا؛ یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت نے خبرِواحد اگرعزیز ہوجائے (یعنی اس کے ہرطبقے کے راوی اوّل سے آخر تک دو ہیں) تووہ مفید یقین ہوتی ہیں، حافظ ابنِ حجرؒ (۸۵۵ھ) نے یہ ابوعلی جبائی کا قول نقل کیا ہے، واضح رہے کہ اس تحریک اعتزال کا بانی واصل بن عطا تھا، جوپہلی صدی ہجری کے آخر میں ابھرا اور عقل کے معیار پرہرچیز کوتولنا اس کے تحریک کی بنیاد رہی۔ شیعہ اور انکارِ حدیث شیعہ حضرات اہلِ سنت کے سامنے جب بھی ان حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں جواہلِ سنت والجماعت کے ہاں متداول ہیں یاصحاحِ ستہ سمجھی جاتی ہیں، تووہ انہیں الزامی طور پرپیش کررہے ہوتے ہیں وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ روایات اہلِ سنت کے یہاں معتبر ہیں؛ لیکن جہاں تک ان کے اپنے عقیدہ کا تعلق ہے، وہ نہ ان کتابوں کومعتبر سمجھتے ہیں اور نہ اس کے مصنفین سے انہیں کوئی عقیدت ہے، شیعہ حضرات صحاحِ ستہ کی احادیث کا انکار دراصل ان کتابوں انکار ہے، حدیثِ رسول سے اصولی انکار نہیں، ارشادِ رسالت کے حجت ہونےکے وہ بہرحال قائل ہیں؛ گویہ صحیح ہے کہ انہوں نے کتاب اللہ وسنتی (اللہ کی کتاب اور میری سنت کولازم پکڑو) کے بجائے کتاب اللہ وعترتی (اللہ کی کتاب اور میری اولاد کوتم سند اور حجت جانو) کی روایت اختیار کی ہے۔ بہرحال چونکہ شیعہ حضرات اپنے عقیدہ کے مطابق معدودے چند صحابہ کے علاوہ تمام صحابہ کومرتد سمجھتے ہیں اس لیے جمیع صحابہؓ کی روایت کو قبول نہیں کرتے؛ بلکہ صرف اہلِ بیت صحابہؓ سے منقول روایات کو حجت مانتے ہیں۔ نیچریوں کا انکارِ حدیث اس تحریک کے بانی سرسیداحمد خان تھے، ان کے شاگرد نواب اعظم یارجنگ، مولوی چراغ علی (۱۸۹۵ء)جیسے لوگ ایک مستقل فکری حلقہ بناچکے تھے، تیرھویں صدی کے اخیر میں یہ معتزلہ کی نشاۃ جدیدہ تھی، ان کا انکار بھی علمی شبہات کی اوٹ پرپروان چڑھا، انکارِ حدیث کا عنوان ان لوگوں نے بھی اختیار نہیں کیا تھا؛ چنانچہ انہوں نے ان چیزوں کا انکار کیا جو ان کی عقل وفہم سے بالاترتھیں، جنت، دوزخ اور وزن اعمال کی احادیث اور معجزہ وغیرہ کا انکار؛ خلاصہ یہ کہ تیرھویں صدی نصف تک امت محمدیہ حدیث شریف کوبھی شریعت اسلامی کا ایک مصدر اور سرچشمہ سمجھتی ہے؛ گرچہ جیسا کہ ہم نے ابھی اوپرذکر کیا کسی نے بھی کھلم کھلا حجیتِ حدیث کا انکار بالکل نہیں کیا تھا۔ نئے دور کے منکرینِ حدیث تیرھویں صدی ہجری میں خلافت کے خاتمہ اور مغربی سامراجیت کے ظہور کے بعد ہی سے انکارِ حدیث کے فتنے نے باضابطہ طور پرسراُبھارا ہے، جودرحقیقت یورپین محققین کی جانب سے اسلام کی بیخ کنی کی خاطر اچھالے جانے والے اعتراضات کی ترجمانی تھی: (۱)چنانچہ مصر میں شیخ محمدعبدہ نے کھلم کھلا حجیتِ حدیث کا انکار کیا اس نے قرآن کوامام اور رہنما کہا اور اس کے علاوہ جوکچھ ہے (حدیث) وہ اسے علم وعمل اور قرآن کے درمیان حجاب قرار دیا (اضواء علی السنۃ المحمدیۃ لمحمود أبودیۃ)۔ (۲)اسی کے نقشِ قدم پر بلکہ اس سے بھی آگے ڈاکٹرتوفیق صدفی چلے؛ چنانچہ انہوں نے الاسلام ھوالقرآن وحدہ کے نام مجلہ المنار میں دومضمون شائع کئے، جن میں قرآنی آیات سے نعوذ باللہ حدیثِ نبویﷺ کے فضول اور بیکار ہونے پراستدلال کیا، علامہ رشید رضامصری نے نہ صرف تائید میں ادارتی نوٹ لکھے؛ بلکہ متواتراپنے مضامین کے ذریعہ اس خیال کی تشہیر کی؛ اگرچہ کہ آخر میں انھیں اس پرتنبہ ہوا اور رجوع کرلیا۔ (۳)پھراحمد امین نے اپنی کتاب فجرالاسلام میں جسے اس نے سنہ۱۹۲۹ء میں شائع کیا، دانشورانِ فرنگ کے آلہ کارکی حیثیت سے ان کی یہودی بکواسوں کوعلم وادب کا نام دےکر خوش کن پیرائیے میں راویانِ حدیث کی کمزوریوں کوحددرجہ اچھالا کہ پورے ذخیرۂ حدیث ہی کومن گھڑت اور دیومالا کی کہانیوں کے مثل قرار دیا۔ (۴)ابراہیم بن ادھم نامی ایک شخص نے سنہ۱۳۵۳ھ میں اپنی نام نہاد علمی لیاقت کی بنیاد پر احادیث کوبے بنیاد اور اس پر موضوع کی صفت غالب ہونے کی بات کہہ کر اپنی جرأت بے جا کا مظاہرہ کیا۔ (۵)پھرابراہیم الوریہ نامی ایک شخص نے اپنے پیشرو ابراہیم ادھم، رشید رضا اور توفیق صدفی کے افکار ونظریات کویکجا کرنے اضواء علی السنۃ المحمدیۃ،، نامی ایک کتاب لکھ ڈالی، گرچہ وہ اسے اپنا اجتہاد قرار دیتا ہے؛ لیکن یہ اس کے پیشروؤں کے افکار ونظریات کی چھاپ ہے۔ ہندوستان کے منکرینِ حدیث ہندوستان میں انکارِ حدیث کا فتنہ انگریز مکاروں کی دین ہے، انہیں پتہ تھا کہ جب تک مسلمانوں میں جہاد کی روح کارفرما رہے گی ان کی دال نہیں گلے گی؛ چنانچہ انہوں نے کرایہ کے کچھ ایسے مولوی تیار کرلیے جنہوں نے اپنی لچرتاویلات جہاد کی منسوخیت کا اعلان کردیا، جن میں غلام احمد قادیانی، مولوی چراغ علی اور سرسیداحمد خان جیسے نام نہاد مفکرین ہیں؛ البتہ جنہوں نے کھلم کھلا احادیث کا انکار کیا ہے ان میں چند ایک یہ ہیں: (۱)عبداللہ چکڑالوی: یہ نام نہاد فرقہ اہلِ قرآن کا بانی اور ہندوستان میں کھلم کھلا انکارِ حدیث کے جرم میں مبتلا ہونے والا شخص ہے، اس کا نام غلام نبی تھا، یہ شخص چکڑالہ ضلع میانوالی کا رہنے والا اور قاضی نورعالم مرحوم کا بیٹا تھا، حدیث سے یہاں تک چڑ بڑھی کہ اپنا نام غلام نبی بدل کرعبداللہ رکھ لیا؛ اسی کوعبداللہ چکڑالوی کہتے ہیں، یہ ڈپٹی نذیر کے شاگرد تھے، اولاً ترکِ تقلید کی طرف مائل ہوئے؛ پھرسرے سے احادیث ہی کا انکار کردیا، چکڑالہ کے لوگوں نے آپ کوخطابت اور افتاء سے علیحدہ کردیا اس نے ترجمۃ القرآن بآیات القرآن نامی ایک کتاب لکھی ہے، یہ کتاب انکارِ حدیث کےشگوفوں کامجموعہ ہے، ایک جگہ لکھتا ہے: فی الحقیقت حدیث میں اس قدر لغویات، ہزلیات اور دورازکار ورائے سراپا باتیں مندرج ہیں کہ وہ اس کی شکل کونہایت ہی بدنما بناتی ہیں؛ لیکن واضعینِ حدیث (حدیث بنانے والوں) نے یہ بڑی کاریگری کی کہ اس کوخاتم النبیین کی طرف منسوب کردیا اور اس طرح اس کے بدشکل چہرہ پرسفید (پاوڈر) مل دیا۔ (برہان الفرقان:۱۰۹) اور ایک جگہ کہتا ہے: قرآن مجید میں دینِ اسلام کی ہرایک چیز من کل الوجوہ مفصل ومشرح طورپربیان ہوگئی ہے تواب وحی خفی یاحدیث کی کیا حاجت رہی؛ بلکہ اس کا ماننا اور دینِ اسلام میں اس پرعمل درآمد کرنا سراسرکفر وشرک اور ظلم وفسق ہے۔ (مناظرہ:۱۹/۲۰) (۲)حافظ اسلم جیراجپوری: آپ بھوپال کے مشہور اہلِ حدیث گھرانہ سے تعلق رکھتے، مشہور غیرمقلد عالم جناب مولانا سلامت اللہ صاحب کے بیٹے تھے، یہ انکارِ حدیث کے بڑے ستون ہی نہیں؛ بلکہ بعض وجوہ سے مرکز تھے، پرویز صاحب بھی ان ہی کے علوم سے پروان چڑھے ان کا انکارِ حدیث کے تعلق سے قول ملاحظہ ہو: نہ حدیث پرہمارا ایمان ہے اور نہ اس پرایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، نہ حدیث کے راوی پرہمارا ایمان ہے نہ اس پرایمان لانے کا ہم کوحکم دیا گیا ہے، نہ حدیث کی سند میں جورجال ہیں ان پر ہمارا ایمان ہے نہ اُن پرایمان لانے کا ہم کوحکم دیا گیا ہے؛ پھریہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایسی غیرایمانی اور غیریقنی چیزکو ہم قرآن کی طرح حجت مانیں۔ (مقامِ حدیث:۱/۱۶۹) (۳)نیاز فتح پوری: ماہنامہ نگار کے مدیر، نیاز فتح پوری بھی انکارِ حدیث میں نمایاں شخصیت تھے من ویزداں انہی کی تصنیف ہے، آپ انکارِ حدیث میں یہاں تک آگے نکلے کہ مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار حدیث کو ٹھہرایا، خود لکھتے ہیں؛ اگرمولویوں کی جماعت واقعی مسلمان ہے تومیں یقیناً کافر ہوں اوراگرمیں مسلمان ہوں تویہ سب نامسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کے نزدیک اسلام نام ہے صرف کورانہ تقلید کا اور تقلید بھی رسول واحکامِ رسول کی نہیں؛ بلکہ بخاری ومسلم ومالک وغیرہ کی اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی کیفیت یقین کی اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہرشخص اپنی سمجھ سے کسی نتیجہ پرنہ پہونچے، قصہ مختصر یہ کہ اولین بیزاری اسلامی لٹریچر کی طرف سے مجھ میں احادیث نے پیدا کی۔ (من یزدان:۱/۵۴۷) (۴)ڈاکٹرغلام جیلانی برق: ڈاکٹرصاحب بزعم خویش علومِ عربی پرعمیق نگاہ رکھنے والے اور بڑے محقق بھی ہیں، ان کی دوکتابوں میں دوقرآن دواسلام جہانِ نو اور حرفِ محرمانہ بسلسلہ انکارِ حدیث دیکھنے کے لائق ہیں، ایک جگہ احادیث سے متعلق فرماتے ہیں: احادیث ازبس ناقابل اعتماد ہیں۔ (حرف محرمانہ:۷۳) ایک جگہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مرزا صاحب درست فرماتے ہیں کہ تمام حدیثیں تحریفِ معنوی ولفظی سے آلودہ یاسرے سے موضوع ہیں۔ (حرف محرمانہ:۷۵) (۵)تمنا صاحب عاری پھلواری: منکرینِ حدیث کے حلقے میں یہ نسبتا صاحب علم سمجھے جاتے ہیں، ان کی جماعت کے خیال میں ان کواسماء الرجال اور طبقاتِ روات پرگہرا اور عمیق مطالعہ ہے، یہ انکارِ حدیث کے حوالے سے لکھتے ہیں: یہ سب من گھڑت افسانے ہیں، دراصل کسی صحابی نے حدیثوں کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا تھا؛ اگردوچار حدیثیں بھی کوئی صحابی کسی ورق پر لکھ لیتے توہ ورق تبرک کے طور سے ضرور محفوظ رکھا جاتا۔ (۶)چودھری غلام محمدپرویز: چودھری صاحب خود بھی اور ان کی جماعت بھی اس کھلی ہوئی غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ دورِ حاضر میں حافظ اسلم جیراجپوری کے بعد پرویز صاحب کی طرح قرآنی بصیرت اور اس میں غوروفکر کا ملکہ کسی کوحاصل نہیں، پرویز دراصل یہ توفیق صدفی کی چھاپ ہے، ان کے مقابل مولوی اسلم جیراجپوری پورے طور سے محمود الوریہ سے متاثر نظر آتے ہیں، ان کے نزدیک بھی حدیثوں کوسرے سے کوئی تشریعی مقام حاصل نہیں۔ منکرینِ حدیث اور ان کے دلائل منکرینِ حدیث نے اپنے خودساختہ وبے بنیاد نظریہ پرکئی دلائل پیش کیے ہیں؛ لیکن بہت سارے دلائل واعتراضات اس قدر بودے اور لچر ہیں کہ ان کا ذکر یہاں چھیڑنا بالکل بے فائدہ ہے؛ البتہ بعض وہ دلائل جن کووہ مضبوط سمجھتے ہیں اور اہمیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، پیش کیے جاتے ہیں: پہلی دلیل: سب سے پہلی بات وہ یہ کہتے ہیں کہ دین قطعی اور یقینی ہونا چاہیے، دین کی بنیاد ظن وتخمین پررکھنا، دین کوکمزور کرنے کے مترادف ہے،پھردلیل کے طورپر چند ایک آیات کووہ پیش کرتے جن کے سمجھنے میں یقیناً ان سے غلطی واقع ہوئی ہے: (۱)اٰلٓمo ذَلِكَ الْكِتَابُ لَارَيْبَ فِيهِ (البقرۃ:۲،۱) یہ کتاب وہ ہے جس میں کوئی بھی شک کسی درجہ میں نہیں ہے؛ لہٰذایہ کتاب (قرآن ہی ) اس لائق ہے کہ اس پراعتبار کیا جائے۔ (۲)اسی طرح قرآن کریم میں ہے وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَالْحَقُّ (فاطر:۳۱) ترجمہ:یعنی جوکتاب ہم نے آپ کووحی کی ہے وہ سچی ہے؛ جب کہ حدیث کا معاملہ یہ ہے کہ جومتواتر ہے اس کا ثبوت قطعی ہے؛ لیکن متواتر حدیثیں بہت کم ہیں اوراکثر ذخیرۂ حدیث اخبارِ آحاد کے قبیل سے ہے جوظنی ہے، اب اگرقرآن اور حدیث دونوں کے مجموعہ کا نام دین ہوتوچونکہ مجموعہ کا ایک جزوظنی ہے؛ اس لیے سارا دین نتیجتاً ظنی ہوجائے گا؛ کیونکہ قطعی اور ظنی کا مجموعہ ظنی ہوتا ہے (اس لیے کہ نتیجہ ارذل کے تابع ہوتا ہے) جب کہ اللہ عزوجل نے ظن کی اتباع کی مذمت فرمائی ہے وَمَايَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّاظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَايُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (یونس:۳۶) اسی طرح فرمایا: وَلَاتَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الاسراء:۳۶) گویا قرآن امریقینی اور قطعی کی اتباع کا حکم دیتا ہے اور ظن کی اتباع سے منع کرتا ہے؛ اس لیے حدیث وقرآن دونوں کا مجموعہ جوکہ ظنی ہے دین نہیں ہوسکتا۔ جواب: اتباعِ ظن کا الزام اس شخص پر لگانا جواحادیث نبویہ پرعمل کرتا ہو اور حجت مانتا ہو کھلی ہوئی دھاندلی ہے، اس کی دووجہیں ہیں، پہلی بات تویہ ہے کہ اخبار آحاد اگرمفید ظن ہیں توکیا قرآنِ کریم کی بہت سی آیات مفید ظن نہیں؟ کیونکہ بہت سی آیات کی دلالت اپنی مراد پرقطعی ویقینی نہیں ہوتی ان میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہوتا ہے؛ بلکہ مفسرین اور مجتہدین میں قرائن کی بنیاد پران آیات کی مراد متعین کرنے میں اختلاف بھی ہوتا ہے؛ لہٰذا قرآن قطعی الثبوت ہے؛ لیکن ضروری نہیں کہ اس کی ہرآیت قطعی الدلالۃ ہو؛ بلکہ بہت سی آیات ظنی الدلالۃ ہیں؛ پس اگرمحض مفیدِ ظن ہونے کی بنیاد پر حدیث کا چھوڑنا کافی ہوتوعین اسی علت کی بنیاد پرقرآن کا چھوڑنا بھی لازم آئےگا، جس کا قائل فریقین میں سے کوئی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس ظن کی اتباع کی مذمت فرمائی ہے، وہ ظن ہے جوکسی دلیل قطعی سے معارض ہو اور حدیث کوحجت ماننا ہو اس قبیل سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ وہ ظن ہے جس کی اتباع کا حکم قرآنِ کریم دیتا ہے: وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔ (الحشر:۷) ترجمہ:اور رسول تمھیں جوکچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں، اُس سے رُک جاؤ۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) اور اس کے معارض کوئی صریح قطعی بھی نہیں ہے اور یہ بات کہ قرآن کریم اس طرح کے ظن کے اتباع کا حکم دیتا ہے، محتاج دلیل نہیں، مثلاً: دوشخصوں کی گواہی کوقبول کرنے کا قرآن نے حکم دیا ہے، جب کہ یہ طئے ہے کہ ان گواہوں سے دانستہ یانادانستہ جھوٹ بولنے کا امکان ہے تویہاں جوخون اور مال جودلیلِ قطعی سے حرام تھے صرف دوگواہوں کے بیان پرجن کا بیان قطعی نہیں ہے تم نے ان کومباح کردیا؟۔ دوسری وتیسری دلیل: منکرینِ حدیث کی پیش کردہ دوسری اور تیسری دلیل کی مثال تقریباً ایک ہے وہ یہ کہ قرآنِ کریم کی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل:۸۹) یعنی اس میں ہرچیز کوکھول کھول کربیان کردیا گیا ہے، سورۂ نحل میں ہے وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل:۸۹) وَهُوَالَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا (الانعام:۱۱۴) اسی طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام:۳۸) کہ ہم نے قرآن میں کسی بھی چیز کا حکم بیان کرنا نہیں چھوڑا ہے؛ لہٰذا جب قرآن کریم میں اس درجہ جامعیت ہے کہ ہرچیز کوبیان کردیا گیا تواب کسی دوسری دلیل کی کیا حاجت باقی رہ جاتی ہے جوحدیث کا سہارا لیا جائے؟۔ جواب: ان دونوں دلیلوں کا مشترکہ جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کوپورے طور سے آپ نے پڑھا نہیں؛ کیونکہ اگر قرآن کریم تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ ہے تواسی قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل:۴۴) یعنی ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جومضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ہیں، آپ ان کوکھول کرسمجھادیں؛ پس اگرخود قرآن کا اتارنے والا اپنے نبی کواس قرآن کی وضاحت کرنے کا مکلف بناتا ہے توکیا کسی مؤمن کے لیے جائز ہوگا کہ وہ اس وضاحت کوپسِ پشت ڈال دے؟ اور اس کوکوئی حیثیت نہ دیتے ہوئے ازخود قرآن کے سمجھنے اور بیان کرنے کا کام شروع کردے؟ کیا ایسے شخص پر یہ آیت کریمہ صادق نہیں آتی: أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَاجَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّاخِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ۔ (البقرۃ:۸۵) ترجمہ:توکیا مانتے ہو بعض کتاب کواور نہیں مانتے بعض کو؟ سوکوئی سزا نہیں اس کی جوتم میں یہ کام کرتا ہے؛ مگررسوائی دنیا کی زندگی میں اور قیامت کے دن پہونچائے جائیں گے سخت سے سخت عذاب میں۔ اسی طرح مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام:۳۸) سے دلیل پکڑنا اور حجیت حدیث کا انکار کرنا بے محل ہے؛ کیونکہ قرآن کریم کے متعلق اگراللہ تعالیٰ نے ایک طرف یہ فرمایا کہ ہم نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے تودوسری طرف یہ بھی فرمایا وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر:۷) یعنی رسول تم کوجوکچھ دے وہ لے لو اور جس چیز سے تم کوروک دیں رُک جایا کرو۔ اسی طرح قرآن میں یہ بھی فرمایا: وَمَاكَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَامُؤْمِنَةٍ إِذَاقَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا۔ (الأحزاب:۳۶) جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ جوفیصلہ کردیں جس کا قرآن میں موجود ہونا ضروری نہیں ہرمؤمن مردوعورت کے لیے اس کا تسلیم کرنا ضروری ہے، نہ ماننا اس آیت کے بموجب اللہ اور رسول کی نافرمانی اور کھلی ہوئی گمراہی ہے۔