انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیثِ رسولؐ کواحادیثِ صحابہؓ سے علیحدہ نہ کرے اصحاب رسولﷺ کوحدیث کے علمی گواہ سمجھتے ہوئے ان کی مرویات کوروایات نبوی کے ساتھ ہی بیان کرے، جہاں دومختلف حدیثیں بظاہر مختلف یامتعارض ملیں تووہاں صحابہ کے عمل سے فیصلہ لازم جانے، امام ابوداؤد السجستانیؒ (۲۷۵ھ) لکھتے ہیں: "إِذَاتَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَنْ قَالَ لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ،حدیث نمبر:۶۱۸، شاملہ، موقع الإسلام) جب نبی کریمﷺ سے دومختلف خبریں ملیں تودیکھا جائیگا کہ آپ کے بعد آپ کے صحابہؓ نے کس پر عمل کیا یعنی وہ سنت باقیہ ہوگی اور دوسری جانب منسوخ یامخصوص بالذات سمجھی جائیگی۔ حضرت امام مالکؒ سے بھی سن لیجئے: "إذاجاء عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثان مختلفان وعمل أبوبكر وعمر بأحدهما وتركا الآخر دل ذلك أن الحق فيما عملا به"۔ (شرح الزرقانی، افراد الحج:۲/۳۳۷، شاملہ، الناشر:دارالكتب العلمية،سنة النشر۱۴۱۱ھ، مكان النشر،بيروت) حضرت صالح بن کیسان کہتے ہیں کہ میں اور امام ابن شہاب زہریؒ (۱۲۴ھ) سماعِ حدیث اور طلبِ علم میں ساتھی تھے، ہم دونوں نے حدیث لکھنے کا فیصلہ کیا اور حدیث لکھتے رہے، آنحضرتؐ سے جواحادیث ہم تک پہنچیں ہم نے لکھیں؛ پھرامام زہریؒ نے کہا: "نكتب ماجاء عن أصحابه فقلت:لا،ليس بسنّة، فقال: بل هو سنّة، قال: فكتب، ولم أكتب، فأنجح، وضيّعتُ"۔ (مختصر تاریخ دمشق، صالح بن محمد بن صالح:۳/۴۸۳، شاملہ،موقع الوراق،المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي المصري"المتوفى:۷۱۱ھ") ہم وہ روایات بھی لکھیں جوصحابہ سے آئی ہیں، میں (صالح) نے کہا نہیں وہ توسنت نہیں، امام زہریؒ نے کہا وہ بھی سنت ہیں (صالح نے کہا) سوزہری نے تو (رویاتِ صحابہ بھی) لکھیں اور میں نے نہ لکھیں، زہری کامیاب گئے اور میں ضائع ہوا۔ صالح بن کیسان کا یہ اعتراف بتلارہا ہے کہ اب وہ بھی اس عقیدے پر آگئے تھے کہ اعمال صحابہ سنت ہیں اور انہیں بھی اُمت تک پہنچانا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان نفوسِ قدسیہ کے آثار کوبھی حدیث کا ہی سرمایہ سمجھا جائے اور ان کااس درجہ احترام ہوکہ ان کا عمل تعامل بھی دین کا پورا ماخذ سمجھا جائے اور ان کا وہی احترام ہو جوصحابہ کرامؓ کا ہوسکتا ہے۔ امام مالکؒ، امام احمدؒ، امام بخاریؒ، امام دارمیؒ، امام مسلمؒ، امام ابوداؤدؒ، امام ابوعوانہؒ، امام ترمذیؒ، امام نسائیؒ، امام طحاویؒ اور امام بیہقی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین وغیرہم نے اپنی حدیث کی کتابوں میں آنحضرتﷺ کے ارشادات واعمال کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے آثار وسنن کوبھی بڑی وقیع جگہ دی ہے اور بڑی تفصیل سے انہیں ذکر کیا ہے اور جگہ جگہ ان سے روایات کی ہیں؛ سوجوان سے بے پرواہ رہا اس نے اپنے علم کو ضائع کیا، حضرت امام شعبیؒ (۱۰۳ھ) فرماتے ہیں: "ماحدثوك عن أصحاب رسول اللهﷺ فخذ به، وماقالوا برأيهم فبل عليه"۔ (جامع معمر بن راشد، حدیث نمبر:۱۰۸۹، صفحہ نمبر:۳/۲۹۷، شاملہ،موقع جامع الحدیث) علماء کرام تمہارے سامنے جوبات صحابہؓ سے روایت کریں تو اسے لے لو اور جوبات وہ اپنی طرف سے کہیں تواُسے جانے دو۔ امام اہل الشام امام اوزاعی (۱۵۷ھ) نے بقیہ بن الولید کومخاطب کرکے ارشاد فرمایا: "يابقية، العلم ماجاء عن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ، ومالم يجئ عن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فليس بعلم"۔ (مختصرتاریخ دمشق، عبد الرحمن بن عمرو بن عبد الرحمن:۵/۱، شاملہ،موقع الوراق،المؤلف:ابن منظور) اے بقیہ! علم وہی ہے جواصحاب محمدﷺ سے آئے اور جوان سے نہیں آیا وہ علم ہی نہیں۔ سوصحابہؓ کا ادب وہی ہے جوایک مسلمان کے دل میں حضورﷺ کے دائرہ فیض کا ہوسکتا ہے؛ یہی وہ دائرہ ہے جس کا ہرنشان مرکز سے برابر نسبت رکھتا ہے، حق یہ ہے کہ صرف انہی حضرات کے ذریعہ مرکز سے تعلق قائم رہ سکتا ہے؛ کیونکہ یہ دائرہ اس مرکزِ نبوت پر ہی تو کھچا ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد اس اُمت میں صحابہ کرامؓ کا درجہ ہے، یہ حضرات بھی جیسا کہ گذارش کیا جاچکا ہے حدیث کا موضوع ہیں؛ لہٰذا ان کی تعظیم وتکریم بھی تبعاً لازم ہے، قرآن کریم کی روشنی میں اس کی بھی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔