انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علم اسرارالدین علم اسرارالدین اس علم کوکہتے ہیں جس میں احکام شریعت کے علل واسباب اور ان کے حکم ومصالح بیان کئے جاتے ہیں اور یہ علم اس قدر دقیقہ سنجی پرمبنی ہے کہ صرف چند فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس کے اصول وقواعد ممہد کئے ہیں باقی اس فن میں اور صحابہ کی مساعی جمیلہ کا حصہ بہت کم شامل ہے؛ بالخصوص اس میں صحابیات کے کارنامے توبالکل نظر نہیں آتے؛ لیکن تنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شریعت کے جن رموز واسرار کی گرہ کشائی کردی ہے وہ صحابیات کی اس کمی کوپورا کردیتی ہے؛ بلکہ اس فن میں خود صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی ان کا پلہ بھاری نظر آتا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس علم کے متفرق مسائل احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسائل کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے اور انہوں نے مذکورہ بالاصحابہ سے بہت زیادہ شریعت کے اسرار ومصالح کی پردہ کشائی کی ہے اور بہ کثرت مسائل کے علل واسباب بیان کئے ہیں (ماخوذ از سیرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا) مثلاً عہد نبوت میں عورتوں کی اخلاقی حالت چونکہ قابل اعتماد تھی اس لیے ان کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ اور شرکتِ جماعت کی اجازت تھی؛ لیکن جب اخیرزمانہ میں عورتوں کے نظامِ اخلاق میں انحطاط پیدا ہوگیا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صاف صاف کہدیا: لَوْأَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاأَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسَاجِدَ كَمَا مُنِعَهُ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ۔ (مؤطا امام مالک، کِتَابُ النِّداءِ لِلصّلاةِ، بَاب مَاجَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ،حدیث نمبر:۴۱۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:عورتوں نے اپنی حالت میں جوتغیرات پیدا کرلئے ہیں اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے توان کومسجد میں آنے سے روک دیتے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں۔ قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتوں میں متعدد فروق وامتیازات ہیں، مثلاً جوسورتیں مکہ میں نازل ہوئیں ان میں زیادہ ترعقائد اور وقائع اخروی کا ذکر ہے اور مدنی سورتوں میں بتدریج اوامرونواہی کا مطالبہ کیا گیا ہے؛ کیونکہ اسلام ایک جاہل قوم میں آیا اس لیے اس کوپہلے خطیبانہ اور واعظانہ طریقہ سے جنت اور دوزخ کا حال سنایا گیا جب اس سے لوگ متاثر ہوچکے تواسلام کے احکام وقوانین اور اوامرونواہی نازل ہوئے؛ اگرزنا وشرابخواری وغیرہ سے اجتناب کا پہلے ہی دن مطالبہ کیا جاتا تودفعۃً کون اس نامانوس آواز کوسنتا؟ اس قسم کے امتیازات وفروق کے دریافت کرنے پریورپ کے علمائے مستشرقین کوبڑا ناز ہے؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی دن اس راز کوفاش کردیا تھا، صحیح بخاری میں ان سے مروی ہے: إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَانَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنْ الْمُفَصَّلِ فِيهَا ذِكْرُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ وَلَوْنَزَلَ أَوَّلَ شَيْءٍ لَاتَشْرَبُوا الْخَمْرَ لَقَالُوا لَانَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا وَلَوْنَزَلَ لَاتَزْنُوا لَقَالُوا لَانَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا لَقَدْ نَزَلَ بِمَكَّةَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ ﴿ بَلْ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ﴾ وَمَانَزَلَتْ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَالنِّسَاءِ إِلَّاوَأَنَا عِنْدَهُ۔ (بخاری، كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ، بَاب تَأْلِيفِ الْقُرْآنِ ،حدیث نمبر:۴۶۰۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:قرآن کی سب سے پہلی سورۃ جونازل ہوئی وہ مفصل کی سورۃ ہے جس میں جنت ودوزخ کا ذکر ہے یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے توپھرحلال وحرام اترا؛ اگرپہلے یہ اترتا کہ شراب مت پیو تولوگ کہتے کہ ہم ہرگز شراب نہ چھوڑیں گے اور اگریہ اترتا کہ زنا نہ کرو توکہتے کہ ہم ہرگز زنانہ چھوڑیں گے، مکہ میں جب میں کھیلتی تھی تویہ اترا کہ ان کے وعدہ کا دن قیامت ہے اور قیامت نہایت سخت اور نہایت تلخ چیز ہے، سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء جب اتریں تومیں آپ کی خدمت میں تھی۔ اسلام کے ظہور سے پہلے مدینہ میں قبائل باہم خانہ جنگیوں میں مصروف تھے، جن میں ان کے اکثر ارباب ادعا جواپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہرنئی تحریک کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں قتل ہوگئے، انصار ان لڑائیوں سے اس قدر چور ہوگئے تھے کہ اسلام آیا توسب نے اس کواپنے لیے رحمت سمجھا؛ چونکہ ارباب ادعاء کا طبقہ مفقود ہوچکا تھا، اس لیے ان کی راہ میں کسی نے موانع نہیں پیدا کردیئے تھے، یورپ کے فلسفۂ تاریخ نے آج اس نکتہ کوحل کیا ہے؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اُن سے پہلے ہم کوبتادیا تھا: كَانَ يَوْمُ بُعَاثٍ يَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ وَقُتِّلَتْ سَرَوَاتُهُمْ وَجُرِّحُوا قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُخُولِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ،حدیث نمبر:۳۵۵۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنگ بعاث وہ واقعہ تھا جس کوخدا نے اپنے رسول کے لیے پہلے ہی سے پیدا کردیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے توانصار کی جمعیت منتشر ہوگئی تھی اور ان کے سردار مارے جاچکے تھے اس لیے خدا نے اپنے رسول کے لیے ان کے حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے یہ واقعہ پہلے ہی سے مہیا کردیا ہے۔ جن نمازوں میں چار رکعتیں ہوتی ہیں، قصر کی حالت میں ان کی صرف دورکعتیں ہوتی ہیں، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ چار میں سے دوسہولت کی خاطر ساقط کردی گئی ہیں؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی وجہ یہ بتاتی ہیں: فُرِضَتْ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُرِضَتْ أَرْبَعًا وَتُرِكَتْ صَلَاةُ السَّفَرِ عَلَى الْأُولَى۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ، بَاب التَّارِيخِ مِنْ أَيْنَ أَرَّخُوا التَّارِيخَ ،حدیث نمبر:۳۶۴۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:مکہ میں دورکعتیں نمازیں فرض تھیں جب آپ نے ہجرت فرمائی توچار فرض کی گئیں اور سفر کی نماز اپنی قدیم حالت پرچھوڑ دی گئی۔ عبادت کا تواللہ نے ہروقت حکم دیا ہے؛ لیکن احادیث میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے بعد کوئی نماز یعنی نفل وسنت بھی جائز نہیں اس لیے بظاہر اس ممانعت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی وجہ بیان فرماتی ہیں: وَهِمَ عُمَرُ إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ أَنْ يُتَحَرَّى طُلُوعُ الشَّمْسِ وَغُرُوبُهَا۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث السيدة عائشة رضي الله عنها،حدیث نمبر:۲۴۹۷۵، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:عمر کووہم ہوا آپ نے صرف اس طرح نماز سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آفتاب کے طلوع یاغروب کے وقت کوتاک کرنماز نہ پڑھے۔ یعنی آفات پرستی کا شبہ نہ ہو آفتاب پرستوں کے ساتھ وقتِ عبادت میں تشابہ نہ ہو۔ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کرنفل پرھتے تھے اس بناپرلوگ بغیر کسی عذر کے بھی بیٹھ کرنفل پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ کیاآپ بیٹھ کرنماز پڑھتے تھے؟ جواب دیا: حِينَ حَطَمَهُ النَّاسُ۔ (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب فِي صَلَاةِ الْقَاعِدِ، حدیث نمبر:۸۱۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:یہ اس وقت تھا جب لوگوں نے آپ کوتوڑدیا، یعنی آپ کمزور ہوگئے۔ ابوداؤداور مسلم میں ان سے اس قسم کی اور روایتیں بھی مروی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کبرسنی اور ضعف کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد جب نمازوں میں دورکعتوں کی بجائے چاررکعتیں ہوگئیں تومغرب میں یہ اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا یہ جواب دیتی ہیں: فَإِنَّهَا وِتْرُ النَّهَارِ۔ ترجمہ: مغرب میں اضافہ نہ ہوا کیونکہ وہ دن کی وتر ہے۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث السيدة عائشة رضي الله عنها، حدیث نمبر:۲۶۰۸۴، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) یعنی جس طرح رات کی نمازوں میں تین رکعتیں وتر کی ہیں؛ اسی طرح دن کی نمازوں میں وتر کی یہ تین رکعتیں ہیں۔ نمازِفجر میں تواطمینان زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس میں رکعتیں اور زیادہ ہونی چاہئیں؛ لیکن اور نمازوں سے کم ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی وجہ یہ بیان فرماتی ہیں: وَصَلَاةَ الْفَجْرِ لِطُولِ قِرَاءَتِهِمَا۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث السيدة عائشة رضي الله عنها، حدیث نمبر:۲۶۰۸۴، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ: نماز فجر میں رکعات کا اضافہ اس لیے نہیں ہوا کہ دونوں رکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ یعنی رکعتوں کی کمی کوطول قرأت نے پورا کردیا۔ اہلِ جاہلیت عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور وہ فرضیتِ صوم سے پہلے اسلام میں بھی واجب رہا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی قسم کی روایت احادیث میں مذکور ہے؛ لیکن وہ نہیں بیان کرتے کہ جاہلیت میں اس دن کیوں روزہ رکھا جاتا تھا؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا سبب یہ بیان فرماتی ہیں: كَانُوا يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ وَكَانَ يَوْمٌ فِيهِ تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث السيدة عائشة رضي الله عنها، حدیث نمبر:۲۶۱۱۰، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) اہلِ عرب رمضان کی فرضیت سے پہلے عاشوراء کے دن کاروزہ رکھتے تھے؛ کیونکہ اس روز کعبہ پرغلاف چڑھایا جاتا تھا۔ باوجود یکہ آپ ہمیشہ تہجد پڑھتے تھے؛ لیکن رمضان کے پورے مہینے کے میں آپ نے تراویح نہیں پڑھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی وجہ بیان فرماتی ہیں کہ پہلے دن جب آپ نے مسجدمیں نمازِ تراویح ادا فرمائی توکچھ اور لوگ بھی شریک ہوگئے، دوسرے دن اور زیادہ مجمع ہوا، تیسرے دن اور بھی لوگ جمع ہوئے، چوتھے دن اتنا مجمع ہوا کہ مسجد میں جگہ نہ رہی؛ لیکن آپ باہرتشریف نہ لائے اور لوگ مایوس ہوکر چلے گئے، صبح کوآپ نے لوگوں سے فرمایا: أَمَّابَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ شَأْنُكُمْ اللَّيْلَةَ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ صَلَاةُ اللَّيْلِ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا۔ (مسلم، كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَاب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ،حدیث نمبر:۱۲۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:رات تمہاری حالت مجھ سے پوشیدہ نہ تھی؛ لیکن مجھے ڈرہوا کہ کہیں تم پرتراویح فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے قاصر رہو۔ حج کے بعض ارکان مثلاً طواف کرنا، بعض مقامات میں دوڑنا، کہیں کھڑا ہونا، کہیں کنکری پھینکنا، بظاہر فعل عبث معلوم ہوتے ہیں؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث السيدة عائشة رضي الله عنها، حدیث نمبر:۲۴۳۹۶، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:خانہ کعبہ، صفا اور مروہ کا طواف، کنکریاں پھینکناتوصرف اللہ کی یاد کرنے کے لیے ہے۔ قرآن مجید کے اشارات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں یہ بھی ایک طرزِ عبادت تھا؛ چونکہ حج یادگارِ ابراہیمی ہے اس لیے وہی طرز عبادت قائم رکھا گیا، مکہ معظمہ کے پاس محصب نام ایک وادی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام حج میں قیام فرمایا تھا اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین بھی اس میں قیام فرماتے رہے، اس بناء پرحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کوسننِ حج میں شمار کرتے تھے؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کوسنت نہیں سمجھتی تھیں اور آپ کے قیام کی وجہ بیان فرمائی تھیں: إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ مَنْزِلًا أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ۔ (مسلم، كِتَاب الْحَجِّ،بَاب اسْتِحْبَابِ النُّزُولِ بِالْمُحَصَّبِ يَوْمَ النَّفْرِ وَالصَّلَاةِ بِهِ،حدیث نمبر:۲۳۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آپ نے یہاں صرف اس لیے قیام کیا تھا کہ یہاں سے چلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابورافع بھی اس مسئلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمزبان ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے حکم دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ رکھا جاے، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اس حکم کودائمی سمجھتے تھے؛ لیکن متعدد صحابہ کے نزدیک یہ حکم وقتی تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ان ہی لوگوں میں ہیں اور اس وقتی حکم کا سبب یہ بتاتی ہیں: لَاوَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ يُضَحِّي مِنْهُنَّ إِلَّاقَلِيلٌ فَفَعَلَ ذَلِكَ لِيُطْعِمَ مَنْ ضَحَّى مَنْ لَمْ يُضَحِّ۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث السيدة عائشة رضي الله عنها، حدیث نمبر:۲۴۷۵۱، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:یہ نہیں ہے کہ قربانی کا گوشت تین دن کے بعد حرام ہوجاتا ہے؛ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں کم لوگ قربانی کرسکتے تھے، اس لیے آپ نے یہ حکم دیا کہ جولوگ قربانی کریں وہ ان لوگوں کوکھلائیں جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہی حدیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خبر کی صورت میں بیان کی ہے، یعنی یہ کہ ایک سال مدینہ کے آس پاس دیہاتوں میں قحط پڑا اس سال آپ نے یہ حکم دیا اور دوسرے سال جب قحط نہیں رہا تواس کومنسوخ فرمادیا، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے بھی اس قسم کی روایت ہے۔ (مسلم، کتاب الذبائح) کعبہ کے ایک طرف کی دیوار کے بعد کچھ جگہ چھوٹی ہوئی تھی جس کوحطیم کہتے ہیں اور طواف میں اس کوبھی اندر داخل کرلیتے ہیں؛ لیکن ہرشخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جوحصہ کعبہ کے اندر داخل نہیں اس کوطواف میں کیوں شامل کرتے ہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ دیواریں بھی خانہ کعبہ میں داخل ہیں؟ ارشاد ہوا: ہاں! عرض کی کہ پھربناتے وقت لوگوں نے ان کواندر کیوں نہیں کرلیا؟ فرمایا: تیری قوم کے پاس سرمایہ نہ تھا، اس لیے اتنا کم کردیا؛ پھرعرض کی کہ اس کا دروازہ اتنا بلند کیوں رکھا؟ فرمایا: یہ اس لیے تاکہ وہ جس کوچاہیں اندر جانے دیں جس کوچاہیں روکدیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگرعائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت صحیح ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسی لیے ادھر کے دونوں رکنوں کا بوسہ نہیں دیا؛ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اپنے اصلی اساس پرقائم نہیں ہے، شریعت ابراہیمی کے مجدد کی حیثیت سے آپ کا فرض تھا کہ اس کوڈھاکر نئے سرے سے تعمیر کرتے؛ لیکن آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خود اس کی وجہ یہ بیان فرمادی کہ عائشہ! تیری قوم اگرکفر کے زمانہ سے قریب نہ ہوتی تومیں کعبہ کوڈھاکر اساسِ ابراہیمی پرتعمیر کراتا۔ (مسلم، كِتَاب الْحَجِّ،بَاب نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا) آج کل ہجرت کے یہ معنی سمجھے جاتے ہیں کہ گھربار چھوڑ کرمدینہ جاکر آباد ہوجانا؛ خواہ وہ پہلے جہاں آباد تھے، کیسے ہی امن وامان کا ملک ہو؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہجرت کی حقیقت یہ بتائی ہے: لَاهِجْرَةَ الْيَوْمَ كَانَ الْمُؤْمِنُونَ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَالْيَوْمَ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۳۶۱۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اب ہجرت نہیں ہے، ہجرت اس وقت تھی جب مسلمان اپنے مذہب کولیکر اللہ اور اس کے رسول کے پاس ڈرسے دوڑا ٓتا تھا کہ اس کوتبدیلِ مذہب کی بناپرستایا نہ جائے؛ لیکن اب خدا نے اسلام کوغالب کردیا، اب مسلمان جہاں چاہے اپنے خدا کوپوج سکتا ہے، ہاں جہاد اور نیت کا ثواب باقی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اختلاف پیدا ہوا کہ آپ کوکہاں دفن کیا جائے، ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پیغمبر جہاں مرتے ہیں، وہیں دفن ہوتے ہیں؛ لیکن اس کا اصلی سبب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ لَوْلَا ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ أَوْ خُشِيَ أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا۔ (بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب مَاجَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ،حدیث نمبر:۱۳۰۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آپ نے مرض الموت میں فرمایا کہ خدا یہود ونصاریٰ پرلعنت بھیجے کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ) اگر یہ نہ ہوتا توآپ کی قبر کھلے میدان میں ہوتی؛ لیکن چونکہ اس کا خوف تھا کہ وہ بھی سجدہ گاہ نہ بن جائے، اس لیے آپ حجرے ہی کے اندر مدفون ہوئے۔