انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنواُمیہ کے رقیبوں کی کوشش قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہاشمیوں اور اُمویوں میں جورقابت پیدا ہوئی اس کا نتیجہ بحسب ظاہر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دست بردار ہوجانے پریہ نکلا کہ بنواُمیہ نے بنوہاشم پرغلبہ پالیا اور بازی لے گئے، جمل اور صفین کی معرکہ آرائیوں اور خارجیوں کی لڑائیوں کے بعد خلافت کا بنواُمیہ میں چلاجانا بنوہاشم کی ایک ایسی ناکامی تھی کہ وہ خلافت کے حصول کے لیے اپنی تلواروں کوکند محسوس کرچکے تھے اور جلد طاقت کے استعمال پرآمادہ نہیں ہوسکتے تھے؛ لیکن حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کا خلیفہ مقرر ہونا اور ولی عہدی کی بدعت کا ایجاد ہونا بنواُمیہ کے لیے بے حد مضر اور ان کی کمزوری کاسامان تھا؛ لہٰذا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جرأت سے کام لیا اور اپنے ہمدردوں کی نصیحت پرعمل نہ کیا جس کے نتیجہ میں کربلا کاحادثہ رونما ہوا۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے کمزور جانشین یزید اور یزید کے غلط کاراہل کارابن زیاد نے اپنے اعمال نابالیتہ سے بنوہاشم کی ہمتوں کوتوزیادہ پست کردیا؛ لیکن ساتھ ہی بنواُمیہ کی قبولیت کونقصان پہنچا کرعام لوگوں کوبنواُمیہ کی مخالفت کے اظہار دلیر بنادیا جس کے نتیجہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا، ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ جب پیش آیا ہے توحکومت امویہ کا تاج دار ایک زبردست شخص تھا، اس لیے وہ حکومت اموریہ کی اس کمزوری کوجلد دور کرکے نہ صرف اقتدارِ رفتہ ہی کوقائم کرسکا بلکہ اس نے پہلے سے بھی زیادہ لوگوں کومرعوب وغوف زدہ بنادیا، اب ہاشمیوں کے لیے تلوار کے استعمال اور طاقت کے اظہار کا کوئی موقع باقی نہ رہا تھا؛ انھوں نے اپنے جوش انتقام کے لیے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان کاروائیوں سے فائدہ اُٹھایا جووہ عبداللہ بن سبا اور اس کے اتباع کی دیکھ چکے تھے اور جن کے سبب وہ صفین اور اذرج میں ناکام ہوچکے تھے، ہاشمیوں میں صرف دوہی گھرانے سردار ومقتدا پائے جاتے تھے، ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد اور دوسری حضرت عباس رضی اللہ بن عبدالمطلب کی اولاد، حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے چچا تھے، یہ دونوں گھرانے اہلِ بیت نبوی میں شمار ہوتے تھے اور اس لے ان کی عظمت وسیادت سب کوتسلیم تھی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوچونکہ بنواُمیہ کے مقابلہ میں براہِ راست مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اس لیے علویوں میں عباسیوں کی نسبت زیادہ جوش تھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سبب علویوں میں خاطیوں کوزیادہ جوش تھا اور وہ زیادہ درپے انتقام تھے، علویوں میں دوگروہ تھے، ایک وہ جوامام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد کومستحق خلافت سمجھتے تھے، ایک وہ جومحمد بن الخضیہ کوسب سے زیادہ خلافت کا حق دار مانتے تھے، تیسرا گروہ عباسیوں کا تھا، سب سے زیادہ طاقت ورگروہ فاطمیوں یاحینیوں کا تھا؛ کیونکہ واقعہ کربلا کی وجہ سے ان کولوگوں کی زیادہ ہمدردی حاصل تھی، دوسرے یہ کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اولاد ہونے کے سبب بھی وہ زیادہ مکرم ومحبوب تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ محمد بن الحنفیہ کا تھا اس کے بعد عباسیوں کا مرتبہ تھا، بعد میں فاطمیوں کے اندر بھی دوگروہ ہوگئے تھے ایک وہ جوزید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے طرف دار تھے وہ زیدی کہلائے، دوسرے وہ جنھوں نے اسماعیل بن جعفر صادق کے ہاتھ پربیعت کی تھی وہ اسماعیلی کے نام سے مشہور ہوئے، مذکورہ بالاتینوں گروہ بنواُمیہ کے مخالف اور تینوں مل کراہلِ بیت کے ہواخواہ کہلاتے تھے، زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے بیٹے یحییٰ کے مقتول ہونے کا حال اورپ پڑھ چکے ہو، محمد بن الحنفیہ کی کوششوں اور مختار کی کوفہ میں کاروائیوں کا ذکر بھی اوپر آچکا ہے، علویوں کو جب کبھی ذراسا بھی موقع ملا انھوں نے خروج میں تامل نہیں کیا؛ مگرناکام ہوتے رہے، علویوں کی ان کاروائیوں اور ان ان کے انجام سے عباسی نصیحت وعبرت حاصل کرتے رہے اور انھوں نے بنواُزیہ کے خلاف اپنی کوششوں کوبڑی احتیاط اور مال اندیشی کے ساتھ جاری رکھا، ان تینوں گرہوں نے اپنے لیے ایک ہی راہِ عمل تجویز کی کہ پوشیدہ طور پرلوگوں کواپنا ہم خیال بنایا جائے اور مخفی طور پرلوگوں سے بیعت لی جائے؛ تاآنکہ بنواُمیہ کے مقابلے اور مقاتلے کے قبل طاقت فراہم ہوجائے، اس مقصد کوپورا کرنے کے لیے انھوں نے اپنے مشنری ملکوں میں پھیلادیے جونہایت مخفی طریقوں سے اہلِ بیت کی محبت کا وعظ کہتے اور بنواُمیہ کی حکومت کے عیوب ونقائص لوگوں کوسمجھاتے اور خلافت وحکومت کا حق دار اہلِ بیت ہی کوبتاتے تھے، یہ خفیہ اشاعتی کام بڑی احتیاط اور بڑے عز وحزم کے ساتھ شروع کیا گیا، اس کی ابتدا عبدالملک بن مروان ہی کے زمانے سے ہوچکی تھی اور تینوں گروہوں کودوسرے کی سرگرمیوں کا علم تھا؛ لیکن چونکہ تینوں کا دشمن ایک ہی تھا اس لیے ان تینوں گروہوں کے اندر آپس میں کوئی رقابت نہ تھی اور ایک دوسرے کے راز کواطلاع ہوجانے پرپوشیدہ رکھنے اور افشاء ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے تھے، ہرایک کے کارندے اور نقیب اگرچہ جدا جدا تھے؛ لیکن تبلیغ کے لیے ان کوایسے الفاظ استعمال کرنے کی تاکید کی گئی تھی جس سے دوسرے گروہ کے ساتھ تصادم لازم نہ آئے، مثلاً بجائے اس کے کہ حضرت عباس یامحمد بن الحنفیہ یاامام زین العابدین کی فضیلت بیان کی جائے صرف اہلِ بیت کا ایک عام لفظ استعمال کیا جاتا تھا اور اہلِ بیت کی فضیلت بیان کرکے ان کومستحقِ خلافت ثابت کرنے کی کوشش ہوتی تھی؛ پھریہی نہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرتے تھے؛ بلکہ بنواُمیہ کی مخالفت کے جوش میں خارجیوں کے ساتھ بھی یہ لوگ ہمدردی واعانت کا برتاؤ جائز سمجھتے تھے؛ کیونکہ خارجی بھی شروع ہی سے بنواُمیہ کوکافر کہتے اور اُن کے خلاف کوششوں میں مصروف رہتے تھے؛ حالانکہ خارجی جس طرح خلافتِ بنواُمیہ کے دشمن تھے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اُن کی اولاد کے بھی مخالف تھے، اس خفیہ اشاعت کے کام میں علویوں سے باربار جلد بازی کا ارتکاب ہوا اور وہ زیادہ خوبی کے ساتھ اس کام کوانجام نہ دے سکے؛ لہٰذا خلفاء بنواُمیہ کوعلویوں کی کاروائیوں اور سازشوں کا علم ہوتا رہا اور وہ ان کے خلاف انسدادی کاروائیوں کا موقعہ بھی پاتے رہے؛ لیکن عباسیوں کی سازش سے خلفا بنواُمیہ آخر تک بے خبر رہے اور اسی لیے عباسی علویوں کوپیچھے چھوڑ کرکامیابی حاصل کرسکے۔ عباسیوں نے علاوہ مذکورہ بالا تدابیر کے ایک اور احتیاط یہ بھی کی کہ اپنا مرکز مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، دمشق وغیرہ میں سے کسی بڑے شہر کونہیں بنایا؛ بلکہ ایک نہایت غیرمعروف گاؤں حمیمہ جوبنواُمیہ کی عطا کردہ جاگیر اور دمشق ومدینہ کے درمین واقع تھا اور باوجود دمشق سے قریب ہونے کے خلفا بنواُمیہ یاگورنران بنواُمیہ کی توجہ سے محفوظ تھا اپنا قیام گاہ اور مرکز سازش بنایا، علویوں کی کوششیں اور سازشیں چونکہ طشت ازبام ہوتی رہیں، لہٰذا وہ باربار قتل ہوتے رہے؛ لیکن بنوعباس اس قسم کے نقصانات سے بالکل محفوظ رہے اور ان کی سازش کی رفتار ترقی معتدل رفتار سے برابر جاری رہی، اس رفتار ترقی میں بہت بڑی طاقت اس لیے پیدا ہوگئی کہ محمد بن الحنفیہ کی جماعت تمام وکمال بنوعباس کے ساتھ شامل ہوکر ایک جماعت بن گئی، یعنی ابوہاشم بن محمد نے اپنے تمام حقوق محمد بن علی عباسی کوحمیمہ میں فوت ہوتے وقت تفویض کردیے اور اُن لوگوں کوجوابوہاشم کی خلافت کے لیے کوشش کررہے تھے تاکیدی نصیحت کی کہ آئندہ محمد بن علی کے زیرفرمان کوشش کریں اور محمد بن علی کواپنا پیشوا مانیں علویوں کا ایک زبردست گروہ جب عباسیوں میں شامل ہوگیا توعباسیوں نے پہلے سے زیادہ ہمت کے ساتھ باقاعدہ کوششیں شروع کیں اور قریباً تمام طاقت سازش کنندوں کی عباسیوں کے ہاتھ میں آگئی، محمد بن علی عباسی اس زبردست سازشی جماعت کے پیشوا تھے، جب ان کا انتقال سنہ۱۲۴ھ میں ہوا توان کے بیٹے امام ابراہیم ان کے جانیشن ہوئے امام ابراہیم نے اس سازش کوپہلے سے زیادہ وسیع اور باقاعدہ اصولوں پرقائم کرکے ہرایک علاقہ کے لیے الگ الگ موزوں داعی مقرر کیے اور نہایت نظم وترتیب کے ساتھ عراق، خراسان، فارس، شام، حجاز وغیرہ ممالکِ اسلامیہ میں اپنی تحریک کا ایک جال پھیلا دیا امام ابراہیم کوخوش قسمتی سے ایک ایسا شخص مل گیا جس نے آئندہ چل کربہت جلد اس سازش کوکامیابی تک پہنچانے کا تمام کام اپنے ذمہ لے لیا، وہ شخص ابومسلم خراسانی تھا۔ امام ابراہیم نے ابومسلم خراسانی کوعراق وخراسان کے تمام دُعاۃ کا سردار بناکر سب کوحکم دیا تھا کہ ابومسلم کی ماتحتی میں کام کریں اور ابومسلم کے ہرایک حکم کومانیں، ابومسلم کے ساتھ ان کی خط وکتابت رہتی تھی اور وہ ابومسلم کواپنے ہرایک منشاء سے مطلع کرتے رہتے تھے اس میں یہ فائدہ تھا کہ امام ابراہیم کوہرایک شخص سے خود خط وکتابت نہیں کرنی پڑتی تھی، جب امام ابراہیم کی وفات کے بعد ان کا جانشین عبداللہ سفاح ان کا بھائی ہوا جوامام ابراہیم کی طرح ذی ہوش اور عقلمند تھا اور ابومسلم کی قابلیت اور طاقت آخری نتائج پیدا کرنے والی تھی، ابومسلم نے جلد جلد خراسان میں طاقت وقوت حاصل کرنی شروع کی، امام ابراہیم کی گرفتاری اور بنواُمیہ کواس عباسی تحریک کی واقفیت اس وقت ہوئی جب کہ ابومسلم خراسان پرگویا مستولی ہوچکا تھا اور اس تحریک کے افشا ہونے کا مناسب وقت آچکا تھا؛ لہٰذا عباسیوں کوکسی ناکامی ونقصان کا سامنا نہ ہوا۔ جب ابومسلم کوخراسان میں امام ابراہیم کی وفات کے بعد قوت واقتدار حاصل ہونے لگا اور بنواُمیہ کی خلافت کے برباد ہونے کی علامات نمایاں طور پرنظر آنے لگیں توبنی عباس اور علویوں کے خیرخواہوں اور ان سامشی کاروائیوں میں حصہ لینے والوں نے اپنے خاص خاص سربرآوردہ ممبروں کوبماہ ذی الحجہ سنہ۱۳۹ھ جب کہ وہ بتقریب حج مکہ میں آئے ہوئے تھے، ایک مکان میں جمع کیا اور یہ مسئلہ پیش ہوا کہ بنواُمیہ کی بربادی اور خلافت ان کے قبضہ سے نکالنے کی کوششیں بہت جلد آخری کامیابی حاصل کرنے والی ہیں؛ لہٰذا یہ طے ہوجانا چاہیے کہ خلیفہ کس کوبنایا جائے گا، اس مجلس میں ابوالعباس عبداللہ سفاح کا بھائی ابوجعفر منصور بھی موجود تھا اور اولادِ علی رضی اللہ عنہ میں سے بھی چند حضرات تشریف رکھتے تھے، ابوجعفر منصور نے بلاتوقف کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں سے کسی کوخلیفہ منتخب کرلینا چاہیے، حاضرین مجلس نے اس بات کوپسند کیا اور اتفاق رائے سے محمد بن عبداللہ بن حسن بن علی المعروف بہ نفسِ ذکیہ کومنتخب کیا گیا، یہ نہایت ہی نازک موقع تھا؛ کیونکہ بنواُمیہ کی حکومت کومضمحل کرنے اور خراسان پرابومسلم کے قابض ہوجانے میں سب سے زیادہ اس بات کودخل تھا کہ شیعانِ علی اور شیعانِ بنوعباس اور علویوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تومکہ سے لے کرخراسان کے آخری سرے تک کے تمام علاقے میں اختلاف کی ایک لہرایسی سرعت کے ساتھ دوڑ جاتی کہ پھراس کی روک تھام قابو سے باہر ہوتی اور خلافتِ بنواُمیہ میں جومردہ ہوچکی گھی ازسرِنو جان پڑجاتی؛ مگرابوجعفر منصور کی ہوشیاری ودانائی نے اس موقعہ پربڑا کام کیا اور شیعانِ علی پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ مصروفِ عمل ہوگئے اور ان کی یہ تمام کوششیں عباسیوں کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔