انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت بشر حافیؒ (م:۲۲۷ھ) ۱۔جب حق تعالی کو کسی بندہ کی بھلائی منظور ہوتی ہے تو اس پر ایسے آدمی مسلط کردیتا ہے جو اس کو ایذا پہنچائیں۔ (تاریخ ابن عساکر:۳/۲۴۵) ۲۔جو شخص یہ چاہے کہ اس کو دنیا میں عزت اورآخرت میں شرف حاصل ہو تو اس کو چاہیے کہ تین خصلتیں اپنے اندر پیدا کرے، ایک یہ کہ کسی سے کسی چیز کا سوال نہ کرے دوسرے یہ کہ کسی کو برائی سے یا دنہ کرے،تیسرے یہ کہ کسی کی ناجائز دعوت قبول نہ کرے۔ (تاریخ ابن عساکر:۳/۲۴۵) جو شخص اخلاص کے ساتھ حلال مال سے دعوت کرتا ہے اس کی دعوت قبول کرنا سنت ہے جو عین عزت وشرف ہے،مگر اس زمانہ میں عموما دعوتوں میں اخلاص غائب ہے،اس لئے حضرت بشر کا یہ ارشاد اسی دعوت کے بارے میں ہے۔ ۳۔ایک مرتبہ بشر حافی ؒ نے دیکھا کہ راستہ میں ایک کاغذ پڑا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا ہے اور وہ پامال ہورہا ہے،آپ نے اس کو اٹھا کر صاف کیا،ایک درہم پاس تھا اس کی خوشبو خریدی اوراس پر لگا کر ایک دیوار کے اندر حفاظت سے رکھ دیا،خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ اے بشر! تم نے ہمارے نام کو خوشبو سے معطر کیا ہم تمہارے نام کو دنیا و آخرت میں معطر کریں گے۔ (تاریخ ابن عساکر:۳/۲۴۵) (۱)وہ آدمی آخرت کی حلاوت و لذت پا نہیں سکتا جو چاہتا ہو کہ اس کا نام روشن ہو اور لوگ اسے پہچانیں ۔ (۲)ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے عمل پہاڑ جیسے تھے مگر پھر بھی وہ لوگ مغرور نہ تھے ، اور تم ایسے ہو کہ تمہارے عمل بھی نہیں مگر پھر بھی تم مغرور ہو ، اور ہمارے اقوال تو زاہدوں جیسے ہیں اور اعمال منافقوں جیسے ۔ (۳)جس نے اللہ کا شکر سوائے دیگر اعضاء کے زبان سے ادا کیا اس کا شکر کم ہے ، کیونکہ آنکھ کا شکر یہ ہے کہ اگر اس سے اچھی چیز دیکھے تو اسے یاد رکھے ورنہ پردہ پوشی کرے ، اور کا ن کا شکر یہ ہے کہ اگر اس سے نیک آواز سنے تو اسے یاد رکھے ورنہ بھول جائے ، ہاتھوں کا شکر یہ ہے کہ اس سے جو دے یا لے وہ حق ہو ، پیٹ کا شکر یہ ہے کہ اس کو علم اور حلم سے پُر کرے ، فرج کا شکر یہ ہے کہ اسے مباح جگہ پر استعمال کرے ، اور پاؤں کا شکر یہ ہے کہ ان سے نیک کام کی طرف ہی جائے ، جس نے اس طرح کیا وہ شاکر ہے ۔ (نوٹ)اے دوست !اپنے نفس کی تفتیش کر کیا تو بھی ان کی طرح شکر کرتا ہے یا تو اس میں قصور وار ہے اگر تیرا شکر کم ہے تو استغفار کر۔ (۴)ہر چیز کا ایک جمال ہے ، پس حیاء کا جمال گناہ کو ترک کرنا ہے ، اسی طرح ہر چیز کا ایک انجام ہوتا ہے ، پس حیاء کا انجام نیکی کمانا ہے ۔ (۵)فرماتے تھے کہ کل گزشتہ تو مر چکا ، رہا آج کا دن تو وہ نزع میں ہے ، اور رہا آنے والا دن وہ تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ، لہٰذا اعمالِ صالحہ میں جلدی کرو ۔ (۶)بُرے لوگوں کی صحبت سے نیکوں کے ساتھ بد ظنی پیدا ہوگی اور نیک لوگوں کے ساتھ رہنے سے بُروں کے ساتھ بھی حسنِ ظن پیدا ہوگا ، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ حسنِ ظن کرنے پر عتاب نہ فرمائےگا ۔