انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۱۰)شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان (گوجرانوالہ) آپ حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ (واں بھچراں) اور حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ کے ممتاز شاگرد ہیں اور اپنے اساتذہ کے طرز پر پنجاب میں منبعِ فیض ہیں، آپ نے "اہمیتِ حدیث" اور "حجیتِ حدیث" پرنہایت قابلِ قدر تالیفات پیش کی ہیں: (۱)انکارِ حدیث کے نتائج (۲)شوقِ حدیث آپ نے ان میں منکرینِ حدیث کے انکار ونظریات کا فاضلانہ تعاقب کیا ہے۔ منکرینِ حدیث نے عرب ممالک میں سے لیبیا کواپنے ساتھ لے رکھا ہے، یہ درست نہیں کہ لیبیا کے ارباب درس وافتاء حدیث کوشریعت کا جزو نہیں مانتے، کرنل معمرقذافی کی بعض آراء سے اختلاف توہوسکتا ہے؛ لیکن جہاں تک حجیتِ حدیث کی اصولی حیثیت کا تعلق ہے کوئی عرب ریاست اور اہلِ علم کا کوئی طبقہ اس کا منکر نہیں ہے۔ الدکتور محمدبن عبدالکریم الجزائری محتاجِ تعارف نہیں، آپ کی تالیف "القذافی والمتقولون علیہ" ۳۰۴/صفحات پر مشتمل ہے، اس میں ان لفظوں میں سنتِ نبویﷺ کی اصولی حیثیت کا اقرار کیا ہے: "ان وظیفۃ السنۃ البویۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ ھی فی خدمۃ القرآن الکریم من تفسیر غامضہ وتوضیح مبھمہ وتفصیل مجملہ وتخصیص عامہ وتقیید مطلقہ وغیرذلک"۔ (القذافی والمتقولون علیہ:۴۶) پھرتدوینِ حدیث کی بحث میں لکھا ہے کہ: "وکان الرسول ینھی اصحابہ عن کتابتہ خشیۃ اختلاطہ بالقرآن کریم"۔ (القذافی والمتقولون علیہ:۴۹) اس میں اس وہم کا شائبہ تک نہیں کہ آپ کا کتابتِ حدیث سے روکنا اس لیے تھا کہ حدیث قانونِ اسلامی میں حجت نہ سمجھی جائے (معاذ اللہ) کوئی مسلمان اصولاً حجیتِ حدیث کا انکار نہیں کرسکتا۔ دکتور جزائری نے صفحہ۵۹/ پرحضرت عمر بن عبدالعزیز کا وہ حکم بھی نقل کیا ہے جوآپ نے جمع احادیث کے لیے صادر فرمایا تھا اور پھر مؤطا امام مالک، مسندامام احمد، صحیح البخاری، صحیح مسلم اور کتب سنن کا بھی ذکر کیا ہے؛ سوبات صحیح نہیں کہ وہاں کے علماء سنت کی اصولی حیثیت کا تواقرار کرتے ہیں؛ لیکن حدیث کوحجت اور سند نہیں مانتے، کتبِ حدیث میں سنت کی حفاظت کا ہی پورا اہتمام کیا گیا ہے __________ رہایہ عنوان کہ "ان القرآن شریعۃ المجتمع" تواسے اسی طرح انکارِ حدیث کا زینہ نہ سمجھا جائے، جس طرح آپﷺ کے اس خطبے میں حجیتِ حدیث کا انکار منطوی نہیں قرآن کی طرف دعوت ہے: "فقال عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ وَإِنَّكُمْ سَتَرْجِعُونَ إلَى قَوْمٍ يَشْتَهُونَ الحديث عَنِّي فَمَنْ عَقَلَ شيئا فَلْيُحَدِّثْ بِهِ وَمَنْ افْتَرَى عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتًا أو مَقْعَدًا في جَهَنَّمَ"۔ (رواہ الطحاوی فی مشکل الآثار:۱/۱۷۱)