انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگِ جمل صبح اُٹھ کر حضرت علیؓ نے کوچ کا حکم دیا،بلوائیوں کا لشکر جو مدینہ سے آپ ؓ کے ساتھ تھا،شریکِ لشکر رہا، ان کا ایک حصہ الگ ہوکر لشکر کے قریب قریب رہا اور ایک حصہ لشکر میں ملا جلا رہا،راستے میں بکر بن وائل اور عبدالقیس وغیرہ قبائل بھی لشکرِ علی میں شریک ہوگئے، بصرہ کے قریب پہنچ کر مقام قصر عبید اللہ کے میدان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ خیمہ زن ہوئے،اُدھر سے حضرت ام المومنینؓ اورحضرت طلحہؓ اورزبیر بھی بمعہ لشکر آکر اُسی میدان میں فروکش ہوئے،تین روز تک دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل خاموش پڑے رہے،اس عرصہ میں حضرت زبیرؓ کے بعض ہمراہیوں نے کہا کہ ہم کو لڑائی شروع کردینی چاہئے،حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ قعقاع بن عمروؓ کی معرفت مصالحت کی گفتگو ہورہی ہے ہم کو اس کے نیتجہ کا انتظار کرنا چاہئے صلح کی گفتگو کے دوران میں حملہ آوری کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے،حضرت علیؓ کی خدمت میں بھی اُن کے بعض لشکریوں نے جنگ کے شروع کرنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا،ایک روز ایک شخص نے حضرت علیؓ سے استفسار کیا کہ آپ بصرہ کی طرف کیوں تشریف لائے؟آپ ؓ نے جواباً فرمایا کہ فتنہ فرو کرنے اورمسلمانوں کے درمیان مصالحت کرنے کے لئے اس نے کہا: اگر بصرہ والے آپ کا کہا مانیں اورآپ کے مد مقابل لوگ صلح و آشتی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو پھر آپ کیا کریں گے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہم ان کو اُن کے حال پر چھوڑدیں گے اُس شخص نے کہا کہ آپ تو اُن کو چھوڑدیں گے لیکن اگر انہوں نے آپ کو نہ چھوڑا تو پھر آپ کیا کریں گے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس حالت میں ہم مدافعت کریں گے،اتنے میں ایک شخص بول اُٹھا کہ طلحہؓ اور زبیرؓ وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم نے خدائے تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے خروج کیا ہے،کیا آپ کے نزدیک اُن کے پاس بھی کوئی دلیل خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کی ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہاں ان کے پاس بھی دلیل ہے،پھر اس نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس بھی کوئی دلیل اس بات کی ہے کہ آپ نے اس خون کا معاوضہ لینے میں تاخیر کی؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امر مشتبہ ہوجائے اورحقیقت کا دریافت کرنا دشوار ہو تو فیصلہ احتیاط سے کرنا چاہئے جلدی کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے،پھر اُسی شخص نے پوچھا کہ اگر کل مقابلہ ہوگیا اورلڑائی شروع ہوگئی تو ہمارا اوراُن کا کیا حال ہوگا؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہمارے اوران کے یعنی دونوں طرف کے مقتولین جنت میں ہوں گے۔ اس کےبعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حکم بن سلام اورمالک بن حبیب کو حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیر کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ اگر آپ حضرات اُس اقرار پر جس کی حضرت قعقاع بن عمروؓنے اطلاع دی ہے قائم ہیں تو لڑائی سے رُکے رہیں،جب تک کہ کوئی بات طے نہ ہوجائے،حضرت طلحہؓ اورزبیرؓ نے کہلا بھیجوایا کہ آپ مطمئن رہیں،ہم اپنے اقرار پر قائم ہیں، اس کے بعد حضرت زبیرؓ اورحضرت طلحہؓ صفِ لشکر سے نکل کر دونوں لشکروں کے درمیان میدان میں آئے ان دونوں کو میدان میں دیکھ کر اُدھر سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اپنے لشکر سے نکلے اوراس قدر قریب پہنچ گئے کہ گھوڑوں کے منھ آپس میں مل گئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اول حضرت طلحہؓ سے مخاطب ہوکر کہا کہ تم نے میرے خلاف اورمیری دشمنی کے لئے یہ لشکر فراہم کیا اورمیرے مقابلہ پر آئے، کیا عنداللہ تم کوئی عذر پیش کرسکتے ہو اوراپنے اس کام کوجائز ثابت کرسکتے ہو؟ کیا میں تمہارا دینی بھائی نہیں ہوں؟ کیا تم پر میرا اورمجھ پر تمہارا خون حرام نہیں ہے؟ حضرت طلحہؓ نے جواب دیا کہ کیا تم نے عثمانؓ کے قتل میں سازش نہیں کی؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ خدائے تعالی دانا وبینا ہے اوروہ قاتلینِ عثمانؓ پر لعنت بھیجے گا اوراے طلحہؓ ! کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ حضرت طلحہؓ نے جواب دیا کہ ہاں،میں نے بیعت کی تھی،لیکن میری گردن پر تلوار تھی،یعنی میں نے مجبوراً بیعت کی تھی اور وہ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لینے کے ساتھ مشروط تھی۔ اس کے بعد حضرت علیؓ زبیرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اورکہا کہ کیا تم کو وہ دن یاد ہےجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا کہ تم ایک شخص سے لڑو گے اور تم اس پر ظلم کرنے والے ہوگے؟ یہ سن کر حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو یاد آگیا لیکن آپ نے میری روانگی سے پہلے مجھ کو یہ بات یاد نہ دلائی ورنہ میں مدینہ سے روانہ نہ ہوتا اوراب واللہ میں تم سے ہرگز نہ لڑوں گا،اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے جُدا ہوکر اپنے اپنے لشکر کی طرف واپس آکر حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آج مجھ کو علیؓ نے ایک ایسی بات یاد دلائی ہے کہ میں اُن سے کسی حالت میں لڑنا پسند نہ کروں گا،میرا ارادہ ہے کہ میں سب کو چھوڑ کر واپس چلا جاؤں گا،حضرت ام المومنینؓ بھی پہلے ہی سے اس قسم کا خیال رکھتی تھیں کیونکہ ان کو چشمہ خواب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی یاد آچکی تھی،مگرام المومنینؓ نے حضرت زبیرؓ کی بات کا ابھی کوئی جواب نہیں دیا تھاکہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اپنے باپ حضرت زبیرؓ سے کہنے لگے کہ آپ نے جب دونوں فریق میدان میں جمع کردیئے اور ایک دوسرے کی عداوت پر اُبھار دیا تو اب چھوڑ کر جانے کا قصد فرماتے ہیں مجھ کو تویہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؓ حضرت علیؓ کے لشکر کو دیکھ کر ڈر گئے اورآپ کے اندر بزدلی پیدا ہوگئی ہے،یہ سُن کر حضرت زبیرؓ اُسی وقت اُٹھے اورتن تنہا ہتھیار لگا کر حضرت علیؓ کے لشکر کی طرف گئے اوران کی فوج کے اندر داخل ہوکر اورہر طرف پھر کر واپس آئے،حضرت علیؓ نے اُن کو آتے ہوئے دیکھ کر پہلے ہی اپنے آدمیوں کو حکم دے دیا تھا کہ خبردار! کوئی شخص ان سے معترض نہ ہو اوران کا مقابلہ نہ کرے؛چنانچہ کسی نے ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی۔ حضرت زبیرؓ نے واپس جاکر اپنے بیٹے سے کہا کہ میں اگر ڈرتا تو تنہا علیؓ کے لشکر میں اس طرح نہ جاتا،بات صرف یہ ہے کہ میں نے علیؓ کے سامنے قسم کھالی ہے کہ تمہارا مقابلہ نہ کروں گا اورتم سے نہ لڑوں گا،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ آپ قسم کا کفارہ دے دیں اور اپنے غلام کو آزاد کردیں حضرت زبیرؓ نے کہا کہ میں نے علیؓ کے لشکر میں عمار کو دیکھا ہے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عمارؓ کو گروہِ باغی قتل کرے گا،غرض جنگ وپیکار کے خیالات اورارادے طرفین کے سرداروں نے بتدریج اپنے دلوں سے نکال ڈالے اورنتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت زبیرؓ و طلحہؓ کی خدمت میں اورحضرت طلحہؓ وزبیرؓ کی طرف سے حضرت محمد بن طلحہؓ حضرت علیؓ کی خدمت میں آئے اورصلح کے تمام شرائط تیسرے دن شام کے وقت طے اور مکمل ہوگئے اوریہ بات قرار پائی کہ کل صبح صلح نامہ لکھا جائے اوراس پر فریقین کے دستخط ہوجائیں، دونوں لشکروں کو ایک دوسرے کے سامنے پڑے ہوئے تین دن گذر چکے تھے، اس تین دن کے عرصہ میں عبداللہ بن سبا کی جماعت اوربلوائیوں کے گروہ کو جو حضر ت علیؓ کے لشکر کے متصل پڑے ہوئے تھے کوئی موقع اپنے شرارت آمیز ارادوں کے پورا کرنے کا نہ ملا، اب جبکہ اُن کو یہ معلوم ہوا کہ صبح کو صلح نامہ لکھا جائے گا تو بہت فکر مند ہوئے اور رات بھر مشورے کرتے رہے، آخر سپیدہ سحر کے نمودار ہونے کے قریب انہوں نے حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے لشکر یعنی اہل جمل پر حملہ کردیا، جس حصہ فوج پر یہ حملہ ہوا اُس نے بھی مدافعت میں ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا جب ایک طرف لڑائی شروع ہوگئی تو فوراً ہر طرف طرفین کی فوجیں لڑائی پر مستعد ہوکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئیں۔ لڑائی کا یہ شور سن کر حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ اپنے خیموں سے نکلے اورشور وغل کا سبب دریافت کیا،تو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کی فوج نے اچانک حملہ کردیا،حضرت طلحہؓ اورزبیرؓ فرمانے لگے افسوس حضرت علیؓ بغیر کشت وخون کئے باز نہ آئیں گےادھر شور وغل کی آواز سُن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے خیمہ سے نکلے اورشور وغل کی وجہ پوچھی تو وہاں پہلے ہی سے عبداللہ بن سبا نے اپنے چند آدمیوں کو لگا رکھا تھا،انہوں نے فوراً جواب دیا کہ طلحہ وزبیرؓ نے ہمارے لشکر پر اچانک بے خبری میں حملہ کردیا ہے اور مجبوراً ہمارے آدمی بھی مدافعانہ لڑائی پر آمادہ ہوگئے ہیں حضرت علیؓ نے فرمایا کہ افسوس !طلحہؓ وزبیرؓ بغیر خوں ریزی کئے باز نہ آئیں گے،یہ فرما کر اپنے فوج کے حصوں کو احکام بھیجنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنے لگے،غرض بڑے شور زور سے لڑائی شروع ہوگئی،فریقین کے سپہ سالاروں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو مجرم سمجھا اور حقیقت اصلیہ سے دونوں بے خبر وناواقف رہےتاہم فریقین کے لشکر میں لڑائی شروع ہونے کے بعد ایک ہی قسم کی منادی ہوئی کہ اس معرکہ میں کوئی شخص بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرے، کسی زخمی پر حملہ نہ کرے نہ کسی کا مال واسباب چھینے،یہ منادی طلحہؓ وزبیرؓ کی جانب سے بھی ہوئی اورحضرت علیؓ کی طرف سے بھی جو دلیل اس امر کی ہے کہ دلوں میں ایک دوسرے کی عداوت ودشمنی موجود نہ تھی؛بلکہ دونوں فریق اس لڑائی کو بہت ہی گراں اور ناگوار محسوس کررہے تھے اورمجبوراً میدان میں موجود تھے،عبداللہ بن سبا اورمصر وغیرہ کے بلوائیوں کی جماعت نے اب خوب آزاادانہ میدانِ جنگ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے شروع کردیئے اوران سبائی اوربلوائی جماعت کے سرداروں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارد گرد رہ کر اپنی جاں فروشی وجاں فشانی کے نظارے اُن کو دکھائے، کعب بن مسور حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں آکر عرض کرنے لگے کہ لڑائی شروع ہوگئی ہے،مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؓ اونٹ پر سوار ہوجائیں اور میدانِ قتال کی طرف چلیں ممکن ہے کہ آپ کی سواری کو دیکھ کر لوگ قتال سے رک جائیں اورصلح کی کوئی صورت پیدا ہوجائے،یہ سن کر حضرت ام المومنینؓ نے آمادگی ظاہر کی اور فوراً اونٹ پر سوار ہوگئیں،آپ ؓ کے ہودج پر لوگوں نے احتیاط کی غرض سے زر ہیں پھیلادیں اوراونٹ کو ایسے موقع پر لاکھڑا کردیا جہاں سے لڑائی کا ہنگامہ خوب نظر آتا تھا،مگر توقع کے خلاف بجائے اس کے کہ لڑائی کم ہوتی اور رُکتی، اس اونٹ یعنی حضرت ام المومنینؓ کی سواری کو دیکھ کر لڑائی میں اور بھی زیادہ اشتعال واشتداد پیدا ہوگیا۔ لڑنے والوں نے یہ سمجھا کہ حضرت ام المومنینؓ بحیثیت سپہ سالار میدانِ جنگ میں تشریف لائی ہیں، اورہم کو زیادہ بہادری کے ساتھ لڑنےکی ترغیب دے رہی ہیں، ادھر سے حضرت علیؓ نے اہل جمل کی شدت وچیرہ دستی دیکھ کر خود مسلح ہوکر حملہ آور ہونا اوراپنی فوج کو ترغیب جنگ دینا ضروری سمجھا،لڑائی کو شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ حضرت طلحہؓ کے پاؤں میں ایک تیر لگا اور تمام موزہ خون سے بھر گیا،اس تیر کا زخم نہایت اذیت رساں تھا اور خون کسی طرح نہ رکتا تھا،حضرت طلحہ کی یہ حالت حضرت قعقاع بن عمرو نے دیکھی جو حضرت علی کے لشکر میں شامل تھے اور فرمایا کہ اے ابومحمد آپ کا زخم بہت خطرناک ہے،آپ فوراً بصرہ میں واپس تشریف لے جائیں؛چنانچہ حضرت طلحہؓ بصرہ کی طرف متوجہ ہوئے،بصرہ میں داخل ہوتے ہی وہ زخم کے صدمہ سے بے ہوش ہوگئے اوروہاں پہنچنے کے بعد ہی انتقال کر گئے وہیں مدفون ہوئے، مروان بن الحکم اس لڑائی میں حضرت طلحہؓ وزبیرؓ کے لشکر میں شامل تھا،جب لڑائی شروع ہوگئی تو حضرت طلحہؓ نے ارادہ کیا کہ میں بھی علیؓ کا مقابلہ ہرگز نہ کروں گا،اسی خیال میں وہ لشکر سے الگ ہوکر ایک طرف کھڑے ہوئے حضرت علیؓ کی باتوں پر غور کررہے تھے اورحضرت زبیرؓ وحضرت علیؓ کی گفتگو اورعمار بن یاسرؓ والی پیش گوئی کو یاد کرکے اس لڑائی سے بالکل جُدا اورغیر جانب دار ہونا چاہتے تھے،اس حالت میں مروان بن حکم نے اُن کو دیکھا اورسمجھ گیا کہ یہ لڑائی میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتے اور صاف بچ کر نکل جانا چاہتے ہیں؛چنانچہ اس نے اپنے غلام کو اشارہ کیا،اُس نے مروان کے چہرے پر چادر ڈال دی،مروان نے چادر سے اپنا منھ چھپا کر کہ کوئی شناخت نہ کرے،ایک زہر آلود تیرکمان میں جوڑ کر حضرت طلحہ کو نشانہ بنایا، یہ تیر حضرت طلحہؓ کے پاؤں کو زخمی کر کے گھوڑے کے پیٹ میں لگا اورگھوڑا حضرت طلحہؓ کو لئے ہوئے گرا،حضرت طلحہؓ نے اُٹھ کر حضرت علیؓ کے غلام کو جو اتفاقاً اس طرف سامنے آگیا ،بلایا اوراُس کے ہاتھ پر یا حضرت قعقاعؓ کے ہاتھ پر جو وہاں آگئے تھے نیابتاً حضرت علیؓ کی بیعت کی اوراس تجدید بیعت کے بعد بصرہ میں آکر انتقال فرمایا،حضرت علیؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت طلحہ ؓ کے لئے دعا کی اوراُن کی بہت تعریف فرماتے اورافسوس کرتے رہے۔