انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعلیم رسالت کے تین عنوان حدیث کا موضوع آنحضرتﷺ کی ذات گرامی اور اس نسبت سے صحابہ کرامؓ کی ذات قدسیہ میں آنحضرتﷺ کے ارشادات، اعمال اور آپ کے سامنے کیے گئے اعمال(جن پر آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا ہواور انہیں اپنے سکوت سے منظوری بخشی ہو)سب حدیث کا موضوع ہیں(sayings/actions/approvals)۔ یہ تینوں ارشادات،اعمال اور منظور کردہ امور حدیث کا سرمایہ ہیں علم حدیث میں انہی امور سے بحث ہوتی ہے کہ آپ نے کیا فرمایا:کونسا کام کیا اور آپ نے اپنے مشاہدہ اور سکوت سے کس کس بات کو منظوری بخشی، اللہ کے پیغمبرکی آنکھ جس کام کو ہوتا دیکھ لے وہ آپ کے سکوت سے بھی دوسروں کے لیے سند بن جاتا ہے ؛یہی وجہ ہے کہ صحابہ حضورﷺ کے دور میں کیے گئے اعمال کو آگے اس طرح روایت کرتے تھے گویا یہ سب تعلیم رسالت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حضورﷺ کی اس منظوری سے وہ حضورﷺ کی ہی تعلیمات سمجھے جاتے ہیں، امام نووی(۶۷۶ھ)مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔ "وان اضافہ فقال کنا نفعل فی حیاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او فی زمنہ اووھو فینا او بین اظھرنا او نحو ذلک فھو مرفوع وھذا ھوالمذھب الصحیح"۔ (مقدمہ شرح مسلم:۱۷) ترجمہ:اور صحابی نے اگر وہ بات آگے نسبت کردی کہ ہم حضورﷺ کی زندگی یا آپ کے وقت میں اس طرح کرتے تھے یا ہم نے ایسا کیا اور آپ ہم میں تھے یا ہمارے سامنے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور تعبیر اختیار کریں تو یہ بات مرفوع حدیث کے حکم میں ہوگی اور یہی مذہب صحیح ہے۔