انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت معتصم کی خصوصیات خلیفہ معتصم چونکہ خود پڑھا لکھا آدمی نہ تھا، اس لیے اس کے عہدِ خلافت میں وہ علمی سرگرمیاں جوہارون ومامون کے زمانے میں زورشور سے شروع ہوکر ترقی پذیر تھیں، مدھم پڑگئیں، معتصم کو فتوحاتِ ملکی اور جنگی وپیکار کا زیادہ شوق تھا، اس کے زمانے میں روم، بلادخزر، ماورالء النہر، کابل اور سیستان وغیرہ کی طرف خوب فتوحات حاصل ہوئیں، قیصرِروم پراس نے ایسی کاری اور زبردست ضرب لگائی کہ اب تک مسلمانوں کی طرف سے ایسی ضرب نہیں لگائی گئی تھی، جنگ روم اور فتح عموریہ میں معتصم نے تیس ہزار رومیوں کوقتل اور تیس ہزار کوگرفتار کرکے رومیوں کوبے حدخوف زدہ بنادیا تھا، معتصم کے دروازے پرجتنے بادشاہ جمع ہوئے، اس قدر کسی خلیفہ کے دروازے پرجمع نہ ہوئے تھے، اس معتصم کوعمارات بنانے کا بھی شوقت تھا، ایک ہزار دینار روزانہ اس کے باورچی خانہ کا خرچ تھا۔ معتصم کوترکی غلاموں کے خرید نے اور ان کی جمعیت بڑھانے کا خاص شوق تھا، اس نے اپنے خاص خاص ترکی غلاموں کوبڑی بڑی سپہ سالاریاں سپرد کررکھی تھیں، اس کے زمانے میں ترکوں نے بہت ترقی کی اور وہ بہت جلد شائستہ وذی حوصلہ بن کراولوالعزمی دکھانے لگے، بہ ظاہر معتصم نے ترکی فوجوں کے بڑھانے اور ترکوں کوترقی دینے میں خراسانیوں کا زور گھٹانا چاہا تھا، جو اس سے پہلے عربوں کے زور کوگھٹا اور مٹاچکے تھے؛ لیکن بعد میں یہی ترک خلافتِ عباسیہ کی بربادی کا موجب ہوئے، معتصم سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے ایک تیسری قوم کوزندہ وطاقتور بنایا؛ حالانکہ اس کوچاہیے تھا کہ وہ عربوں کوکسی قدر سہارا دے کرپھرخراسانیوں کا مدمقابل بنادیتا؛ لیکن چونکہ اس کے باپ دادا کوکس طرح خراسانیوں کی سازش کا بار بار مقابلہ کرنا پڑا ہے؛ نیز یہ بھی جانتا تھا کہ علویوں کوجوہمارے قدیمی رقیب ہیں، خراسانیوں اور عربوں دونوں میں رسوخ حاصل ہے اور دونوں سے وہ ہمارے خلاف قوت وامداد حاصل کرلیتے ہیں، اس لیے معتصم نے اگرایک قوم کوجس پر علویوں کا اثر نہ تھا، طاقتور بنایا تواس پرکوئی اعتراض نہیں ہوسکتا؛ لیکن اس تیسری قوم یعنی ترکوں کوابھی تک اسلام سے بوجہ اپنی جہالت ووحشت کے کوئی اُنس اور قومی تعلق پیدا نہ ہوا تھا، ترکوں کواگرچہ مغلوب ومحکوم توعرصہ دراز سے بنایا جاچکا تھا؛ لیکن اِن میں اسلام کی اشاعت کماحقہ نہیں کی گئی تھی، جس کا ایک سبب یہ تھا کہ ترکوں کے علاقے پرجس کوماوراء النہر کہا جاتا تھا، عموماً ترک سردار ہی بااختیار رئیسوں کی طرح حکومت کرتے اور حکومتِ اسلامیہ کوخراج ادا کرتے تھے۔ ان نومسلم ترکوں نے یکایک ترقی کرکے جب دیکھا کہ خلافتِ اسلامیہ کی سب سے زبردست فوج ہم ہی ہیں تووہ خلافتِ اسلامیہ کا تختہ اُلٹ دینے کے خواب دیکھنے لگے، جیسا کہ افشین کے حالات سے ثابت ہے کہ خلیفہ معتصم اگرچہ جاہل تھا؛ مگرعاقل تھا، اس نے ترکوں کوفوج میں بھرتی کرنے اور طاقتور بنانے کا جوطرزِ عمل اختیار کیا تھا، اس کی خرابی کودور کرنے اور خرابی کومٹادینے کی اس میں پوری قابلیت موجود تھی؛ اسی لیے اس کے سامنے ترکوں کے ہاتھ سے حکومتِ اسلامیہ کوکوئی نقصان نہیں پہنچ سکا؛ اگراس کے جانشین بھی اسی قابلیت کے ہوتے یامعتصم کوزیادہ مدت تک خلافت وحکومت کا موقع ملتا تویہ خرابیاں جوبعد میں پیدا ہوئیں، شائد پیدا نہ ہوسکتیں؛ اگرسچ پوچھا جائے تویہ سب وہمی اور خیالی باتیں ہیں، اصل خرابی اور سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ مسلمانوں میں حکومتِ اسلامیہ کے لیے وراثت کی لعنت کوتسلیم کرلیا گیا تھا اور باپ کے بعد بیٹے کا حقدار خلافت ہونا مانا جاتا تھا، اس بدعتِ سیئہ نے اسلام اور مسلمانوں کوہمیشہ نقصان پہنچایا اور صدیق وفاروق رضی اللہ عنہماکی سنت کوبھلادینے، نے مسلمانوں کویہ دن دکھایا، إِنَّا للِّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ؛ بہرحال معتصم کی خلافت کے زمانے سے ترکوں کا دَورِ زندگی شروع ہوجاتا ہے۔ معتصم کوخلیفہ مثمن بھی کہہ سکتے ہیں؛ کیونکہ اس کے ساتھ آٹھ کے عدد کوخصوصی تعلق تھا، معتصم خلیفہ ہارون الرشید کی آٹھویں اولاد تھا، وہ سنہ۱۸۰ھ یابہ قول دیگرے سنہ۱۷۸ھ میں پیدا ہوا، ان دونوں سنوں میں آٹھ کا عدد موجود ہے، وہ سنہ۲۱۸ھ میں تخت نشین ہوا؛ یہاں بھی آٹھ کا عدد موجود ہے، معتصم خلفاء عباسیہ میں آٹھواں خلیفہ ہے، اس نے ۴۸/سال کی عمر پائی، آٹھ لڑکے اور آٹھ لڑکیاں چھوڑیں، اس نے آٹھ برس، آٹھ مہینے اور آٹھ دن خلافت کی، اس نے آٹھ گھر تعمیر کرائے ا،ٓٹھ بڑی بڑی لڑائیاں فتح کیں، آٹھ بادشاہ اس کے سامنے دربار میں حاضر کیے گئے، افشین، عجیف، عباس، بابک اور مازیار وغیرہ آٹھ بڑے بڑے دشمنوں کواس نے قتل کرایا، آٹھ لاکھ دینار، آٹھ لاکھ درہم، آٹھ ہزار گھوڑے، آٹھ ہزار غلام، آٹھ ہزار لونڈیاں اس نے ترکہ میں چھوڑیں، ماہ ربیع الاوّل کے آٹھ دن باقی تھے کہ فوت ہوا۔ مسئلہ خلق قرآن (سنہ۱۹۸ھ میں مامون بن ہارون الرشید عباسی نے خلافت کی زمام کارسنبھالی، معتزلہ کا فرقہ اُٹھتا ہے اور دیگر بدعات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بڑی تیزی سے عوام کوبھی اپنے ساتھ ملالیتے ہیں، مامون بھی معتزلہ کے ساتھ ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جب گمراہی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی لہر کودیکھتے ہیں توپوری قوت کے ساتھ باطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدانِ عمل میں نکلتے ہیں، اس مسئلہ میں حق وباطل کی یہ کشمکش کئی سالوں تک جاری رہتی ہے؛ چنانچہ مامون؛ پھرمعتصم، واثق، متوکل ان چار خلفاء کے عہد میں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ پرچاروں خلفاء کے ادوار میں تعذیب وتشدد کا ایک طوفان برپا رہتا ہے؛ لیکن بامشقت قیدوبند کے مصائب اور تضحیک وتشنیع کے سلسلے بھی اللہ کی توفیق سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پائے استقامت کومتزلزل نہ کرسکے اور وہ فاتح وسرخرو ہوکر تعذیب خانہ سے باہر تشریف لائے، یوں باطل کوشکستِ فاش ہوئی اور حق غالب آیا، فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ! تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا دورِابتلا، مولفہ: ڈاکٹر محمد نفش مصری، مترجم، الشیخ محمد صادق خلیل) کا خبط اس کوبھی مثلِ مامون الرشید کے تھا اور اس غیرضروری مسئلہ کی طرف خصوصیت کے ساتھ متوجہ رہنے سے اکثر علماء کواس کے ہاتھ سے تکلیفیں پہنچیں، یہ عیب اس میں نہ ہوتا تواس کوخاندانِ عباسیہ کا سب سے بڑا خلیفہ کہا جاسکتا تھا، اس کے زمانے میں خلافتِ عباسیہ کی شوکت اپنے معراجِ کمال کوپہنچ گئی تھی، جس کے بعد اس میں زوال واضمحلال کی علامات نمایاں ہوتی گئیں۔