انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مکہ میں ورود ماہِ شوال ۷ھ کے آخر تک آپ مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے ،شروع ذیقعدہ ۸ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام صحابہ کرامؓ کو تیاری سفر کا حکم دیا،جو گزشتہ سال صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے؛چنانچہ وہ تمام صحابہ اوردوسرے صحابہ عمرہ کے لئے تیار ہوئے اور کُل دوہزار آدمی لے کر آپ عمرہ ادا کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے،مدینے میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کو عامل مقرر فرماگئے،سال گزشتہ جو صلح حدیبیہ میں مرتب ہوا تھا،اُس میں یہ شرط تھی کہ مسلمان اس سال بلا عُمرہ ادا کئے ویسے ہی لوٹ جائیں اوراگلے سال آکر عمرہ ادا کریں ؛چنانچہ اسی شرط کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئےمکہ کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور تمام مسلمانوں نے صرف تلواریں حمائل رکھیں،باقی تمام ہتھیار اُتار ڈالے مکہ میں داخل ہوئے بیت اللہ کے روبرو پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کندھوں کو برہنہ کرلو اوراحرام کا کپڑا بغل کے نیچے سے نکال کر گردن کے گرد لپیٹ لینے کے بعد مستعدی سے دوڑتے ہوئے سرگرمی کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کرو ،مددعا اس سے یہ تھا کہ مشرکین مکہ پر جو مسلمانوں کے اس طواف کرنے کا تماشا دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے تھے،مسلمانوں کی جفا کشی اورقوت وشوکت کا اظہار ہو،مکہ کے بہت سے مشرک مکہ سے باہر گھاٹیوں اور وادیوں میں چلے گئے تھے تاکہ مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئے دیکھ کر رنجیدہ نہ ہوں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مکہ میں تین دن قیام فرمایا ارکانِ عمرہ سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن عبدالمطلب کی بی بی اُم فضل کی ہمشیرہ میمونہؓ بنت حارث سے نکاح کیا،چوتھے دن علی الصباح مشرکین مکہ کی طرف سے سہیل بن عمرو اورحویطب بن عبدالعزیٰ دو مشرک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اورکہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن ہوگئے فوراً مکہ سے چلے جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت انصار کی مجلس میں بیٹھے ہوئے سعد بن عبادہؓ سے باتیں کررہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے کہا کہ تم گھبراتے کیوں ہو؟ میں خود ہی جانے کے لئے تیار ہوں مگر تم کو کیا معلوم ہے کہ میں نے یہاں ایک عورت سے نکاح کیا ہے،ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے،اگر تم اجازت دو تو میں یہاں ضیافت ولیمہ کروں اور تمام مکہ والوں کوکھانا کھلاؤں،اس کے بعد یہاں سے چلا جاؤں،اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے،سہیل نے کہا: ہم کو تمہارے کھانے کی کوئی حاجت نہیں ہے تم معاہدہ کی پابندی کرو اور فوراً یہاں سے چلے جاؤ؛چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی وقت کوچ کی منادی کرادی اورسوار ہوکر مکہ سے باہر تشریف لے گئے،حدودِ حرم سے نکل کر اوج سرف کے اندرونی میدان میں قیام فرمایا،یہیں میمونہ بنت حارث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائیں،جب آپ مکہ سے روانہ ہونے لگے تو حضرت حمزہؓ کی دختر عمارہ جو چھوٹی بچی تھیں،دوڑتی ہوئی اور چلاتی ہوئی آئیں کہ مجھ کو بھی اپنے ہمراہ مدینہ لے چلیں، حضرت علیؓ نے فوراً اس لڑکی کو اٹھا کر اپنے ہودج میں بٹھالیا،اب حضرت جعفر بن ابی طالب اورحضرت زید بن حارث بھی اُس لڑکی کی کفالت وپرورش کے دعویدار ہوئے،ہر ایک شخص یہ چاہتا تھا کہ میں اس لڑکی کو اپنی کفالت میں رکھوں اوراس کی پرورش کروں، حضرت زید بن حارث نے کہا کہ حضرت حمزہؓ میرے دینی بھائی تھے،اس لئے میرا حق فائق ہے،حضرت جعفرؓ نے کہا کہ یہ میری چچازاد بہن ہے اورمیری بیوی اس کی خالہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے دعاوی سُن کر عمارہ کو حضرت جعفرؓ کے سپرد کیا اورفرمایا کہ خالہ بجائے ماں کے ہوتی ہے،لہذا اس کی پرورش جعفرؓ کے یہاں ہونی چاہئے،حضرت علیؓ اورحضرت زیدؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضا مند کردیا۔