انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک تحقیق خیال رہے کہ اعضاء وضو کے دھونے کے وقت کی جو دعائیں نقل کی گئی ہیں وہ احادیث سے ثابت نہیں ہیں ،پیشتر ان میں سے فقہاء کرام اورصوفیاء کبار سے منقول وماثور ہیں۔ علامہ نوویؒ کتاب الاذکار میں لکھتے ہیں اما الدعاء علی الاعضاء فلم یجبی ء فیہ شیء عن النبی ﷺ یستحب فیہ دعوات جاء ت عن السلف (صفحہ:۲۴) اسی طرح حافظ بن حجرؒ نے تلخیص الحبیر میں ذکر کیا ہے اتحاف السادۃ المتقین میں علامہ مرتضیٰ زبیدؒ فرماتے ہیں اما الدعاء علی اعضاء الوضوء فلم یجبیء فیہ شیء عن النبی ﷺ وقال فی الروضہ لا اصل لہ (اتحاف السادۃ:۲/۳۵۲) اس کے برخلاف فقہاء کرام اس کا ثبوت کسی نہ کسی درجہ میں ؛بلکہ درجہ حسن میں تسلیم کرتے ہیں؛چنانچہ علامہ حصکفی صاحب الدرالمختار لکھتے ہیں: والدعاء الوارد عند کل وضوء وقد رواہ ابن حبان وغیر عنہ علیہ السلام من طرق، وقال محقق الشافعیہ الرملی فیعمل بہ فی فضائل الاعمال وان انکرہ النووی : من طرق" کی تشریح میں علامہ شامیؒ ردالمحتار میں لکھتے ہیں" ای یقوی بعضھا بعضاً فارتقیٰ الی مرتبۃ الحسن (جلد۱:۸۶) لیکن علامہ شامیؒ کو خود اس کے حسن ہونے پر اعتماد نہیں چونکہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ ضعف کا سبب سوئے حفظ یا ارسال یا تدلیس ہے یا فسق وکذب ہے لہذا علامہ شامی کی عبارت سے بھی اس کا ثبوت مستفاد نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح شارح احیاء علامہ زبیدؒ بھی اس کے ثبوت کے قائل معلوم ہوتے ہیں؛چنانچہ وہ لااصل لہ پر لکھتے ہیں: وقد تعقبہ صاحب المھمات فقال لیس کذلک بل روی من طرق منھا عن انس ؓ رواہ حبان فی تاریخہ لیکن محض اس عبارت(روی من طرق) سے اس کا ثبوت نہیں ہوسکتا، تاوقتیکہ اس کے راوی کی معرفت نہ ہو اگر سند واہ اورروای متروک ہو تو طرق سے حسن کا ثبوت نہیں ہوگا خود ابن حبان کا صنیع بھی یہی ظاہر کررہا ہے کہ ناقابل استناد ہے،انہوں نے تاریخ ضعیف میں کیوں نقل کیا،صحیح میں کیوں نہیں ذکر کیا، پھر اس کے متابعات اورشواہدکہاں؟ نہ دیگر طرق کی وضاحت ،رہی بات ابن عساکر کا امالیہ میں،مستغفری کا دعوات میں ،دیلمی کا مسند فردوس میں لانا اس کے واہی ہونے کی تلافی نہیں کرسکتا؛چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص میں اس پر بسط سے کلام کیا ہے جو اصول حدیث کے اعتبار سے ایک زبردست گرفت ہے؛چنانچہ وہ لکھتےہیں: عن علی من طرق ضعیفۃ جدا اوردھا المستغفری فی الدعوات وابن عساکر فی امالیہ...... واسنادہ من لا یعرف دوسری حدیث انس ؓ کی ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں: رواہ ابن حبان فی الضعفاء حدیث انس نحو ھذا وفیہ عباد بن صہیب وھو متروک تیسری حدیث جسے مراد بن عازب سے مستغفری نے نقل کیا ہے اس کے متعلق کہاہے " اسنادواہ" اس سلسلے میں نہایت محققانہ بحث طحطاو ی نے طحطاوی علی المراقی جلد۱ص۱۰۰،میں کی ہے جو ابن امیر الحاج کے حوالے سے ہے۔ قال ابن امیر الحاج سئل شیخنا حافظ عصرہ شھاب الدین ابن حجر العسقلانی عن الاحادیث التی ذکرت فی مقدمۃ ابی لیث فی ادعیۃ الاعضاء فاجاب بانھا ضعیفۃ ........و لم یثبت منھا شیء عن رسول اللہ ﷺ لا من قولہ ولا من فعلہ وطرقھا کلھا لا تخلو من متھم بوضع: پھرقول فیصل لکھتے ہیں ونسبۃ ھذہ الادعیۃ الی السلف الصالح اولیٰ من نسبتھا الی رسول اللہ ﷺ (صفحہ:۶۰) لہذا شامی کا کہنا تعدد طرق سے حسن ہوجائے گا سوحسن نہیں ہوسکتا چونکہ راوی متہم اورناقابل اعتبارہے، ضعف کی تلافی تو ہوسکتی ہے مگر راوی کے اتہام اورمتروک کی تلافی نہیں ہوسکتی؛ لہذا صاحب احیاء کی بھی کوشش ناقابل قبول،یہی وجہ ہے کہ ان دعاؤں کو کسی بھی محقق محدث نے ذکر نہیں کیا ہے؛ البتہ بعض فقہاء اورصوفیاء نے ذکر کیا ہے،مثلاً صاحب قوت علامہ مکی صاحب احیاء امام غزالیؒ، صاحب عوارف شیخ شہاب الدینؒ، علامہ شامی، اسی طرح بعض محققین علماء نے بھی ان دعاؤں کا ذکر کیا ہے ؛چنانچہ محدث زرکشیؒ نے تخریج احادیث شرح کبیر میں اور محلیؒ نے شرح منہاج میں اور شیخ الاسلام زکریا نے شرح روض میں ابن مزیدؒ نے شرح عباب میں ذکر کیا ہے۔ اورجن حضرات نے تحقیق کرتے ہوئے ان دعاؤں کو لا اصل لہ کہا ہے ان پر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طرق صحیح کے متعلق تو کہاجاسکتا ہے مگر طرق ضعیف کے متعلق لااصل لہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دعائیں بطریق ضعیف ثابت ہیں اور فضائل کے باب میں اس کی گنجائش ہے۔(اس کے برخلاف) بعض حضرات کی تحقیق یہ ہے کہ یہ دعائیں ضعف شدید کے ساتھ مروی ہیں اورفضائل کے باب میں ضعیف پر تو عمل کیا جاسکتا ہے مگر ضعف شدید کی صورت میں نہیں عمل کیا جاسکتا۔ محقق ابن علان المکی نے لکھا ہے کہ من جہۃ السنۃ یہ دعائیں ثابت نہیں ہیں۔ (الفتوحات الربانیۃ:۳۰) صحیح یہی ہے کہ اصول حدیث وروایت کے اعتبار سے یہ دعائیں آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہیں مگر ان کے پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں ؛بلکہ ثواب ہی کی امید ہے۔