انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آدابِ حدیث قرآنِ کریم کی رُو سے آنحضرتﷺ کے بلانے کا فوری حق یہ ہے کہ جس وقت اور جدھر بلائیں سب اشغال چھوڑ کر اُدھر ہی پہنچ جائے، حدیثِ رسول کوئی ایسی بات نہیں کہ اس پر فوری دھیان نہ کیا جائے، حدیث کا پہلا ادب یہ ہے کہ اس پر فوری توجہ دی جائے؛ دیرنہ کرے، قرآن کریم یہ آداب یوں سکھاتا ہے: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَادَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ"۔ (الانفال:۲۴) اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور رسول کا جس وقت وہ بلائیں اس کام کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد وعمل یابلاوا ایسی چیز نہیں جس سے مؤمن ایک لمحہ کے لیے بھی پہلو تہی یاروگردانی کرے، قرآنِ کریم آنحضرتﷺ کے بلانے پر فوراً لبیک کا حکم دیتا ہے اور حضورﷺ کا بلانا صرف آپ کا ہی بلانا نہیں خدا کا بلانا بھی ہے؛ سوقرآنِ کریم کی روشنی میں حدیثِ رسولﷺ کا ادب یہ ہے کہ اس کے حکم پر فوراً لبیک کہی جائے؛ اسی میں مؤمن کی زندگی ہے اور اس کے آداب میں سے ہے کہ مؤمن حدیث کے سامنے مطیع ومنقاد ہوجائے کہ اے آقا میں بسروچشم حاضر ہوں، اب یہ بات مؤمن کی مرضی پر نہیں کہ حدیث کوتسلیم کرے یانہ کرے یااس سے کسی طرح پیچھے رہے، ہاں حدیث کے حدیث ہونے میں شک ہو تویہ ایک علمی اختلاف ہوگا، حدیث کے ادب واحترام سے سرتابی نہ ہوگی۔