انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت یحییٰ بن یمانؒ نام ونسب یحییٰ نام، ابو زکریا کنیت اور والد کانام یمان تھا (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۲)عجلی خاندانی نسبت ہے ۔ (اللباب فی الانساب:۳/۱۲۴) ولادت خود اپنے بیان کے مطابق ۱۱۷ھ میں پیدا ہوئے۔ (تاریخ بغداد:۱۴:۱۲۱) فضل وکمال علمی اعتبار سے اکابر حفاظ حدیث اورممتاز تبع تابعین میں تھے،حدیث کے علاوہ فقہ اور علوم قرآن میں بھی بلند مرتبہ حاصل تھا،عبادت وریاضت ،سادگی وتواضع اورذہانت وفطانت کا پیکر مجسم تھے،حافظ ذہبی "الحافظ الصدوق" لکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:۱/۲۶۰) قرآن ابن یمان کو قرأت قرآن میں کامل دستگاہ حاصل تھی،اس کی تعلیم انہوں نے حمزہ بن جلیب الزیات ۸۰ھ،۱۵۸ھ سے حاصل کی تھی (ایضاً) جو اپنے عہد میں علم قرأت کے ماہر اورامام تسلیم کئے جاتے تھے،ان کا شمار قراء سبعہ میں ہوتا ہے۔ حدیث اگرچہ ان کے پایۂ حدیث پر علماء نے کافی جرح کی ہے،تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس فن میں وہ کافی دسترس رکھتے تھے،اگرچہ ان کے حافظہ میں کوئی ضعف تھا( جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے) تو وہ بھی عمر کے آخری حصہ میں اور کچھ خارجی اسباب کی بنا پر پیدا ہوا تھا، اس کی تفصیل آئندہ سطور میں آرہی ہے،حدیث میں انہوں نے ہشام ابن عروہ، سلیمان الاعمش،اسماعیل بن ابی خالد،معمر بن راشد منہال بن حلیفہ،حمزہ بن حبیب الزیات اورسفیان ثوری، جیسے جلیل القدر علماء سے استفادہ کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۶) تلامذہ ابن یمان نے اپنے وطنِ کوفہ کے علاوہ بغداد میں بھی حدیث کا چشمہ جاری کیا تھا،جس سے فیضیاب ہونے والوں میں محمد بن عیسیٰ الطباعی،یحییٰ بن معین حسن بن عرفہ، محمد بن نمیر، داؤد بن یحییٰ بن یمان، ابو ہشام الرفاعی،اسحاق بن ابراہیم بن حبیب،علی بن حرب الطائی کے نام لائق ذکر ہیں۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۱۲۰) جرح وتعدیل ان کی ثقاہت وعدالت پر کافی کلام کیا گیا ہے،تمام بیانات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں ابن یمان کی صداقت مسلم تھی،لیکن پھر مرض فالج میں مبتلا ہوجانے کے بعد ان کے ذہن و دماغ کی پہلے والی کیفیت باقی نہیں رہ گئی تھی، اس لیے روایت حدیث میں تشابہ اوراختلاط پیدا ہونے لگا، بعض علماء کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کا حافظہ جتنا زیادہ تیز تھا، ویسا ہی وہ سریع النسیان بھی تھے، اوراس سے بلا شبہ راوی کا پایۂ تثبت واتقان مجروح ہوتا ہے،ابن مدینی کا بیان ہے "صدوق فلج تفغیر حفظہ"(میزان الاعتدال:۳/۲۰،والعبر فی خبر من غبر:۱/۳۰۴)یعنی وہ صدوق ہیں لیکن فالج زدہ ہونے کے بعد ان کے حافظہ کی کیفیت بدل گئی تھی۔ علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان کثیرا الحدیث لا یحج بہ اذا خولف (خلاصہ تہذیب الکمال:۴۲۹،وتہذیب الکمال:۱۱/۳۰۷) وہ کثیر الحدیث تھے لیکن جب ان کی روایت کسی دوسری روایت سے مختلف ہوتو وہ لائق حجت نہیں۔ یعقوب بن شیبہ کا قول ہے: وکان صدوقاً کثیر الحدیث وانما انکر علیہ اصحابنا کثرۃ الغلط ولیس بحجۃ اذا خولف (میزان الاعتدال:۳/۳۰۷) وہ صدوق اورکثیر الحدیث تھے،ہمارے بعض احباب نے ان کو ناپسند کیا ہے وہ بکثرت غلطیاں بھی کرتے تھے،اس لیے مخالفت کی صورت میں قابل حجت نہیں۔ ان تمام آراء سے ابن یمان کی صداقت وعدالت کی بین شہادت تو ملتی ہے لیکن ساتھ ہی کثرتِ خطا اورتغیر حفظ کا بھی پتہ چلتا ہے،لیکن جیسا کہ اوپر مذکور ہوا یہ ضعف ونقص آخر عمر میں فالج کے ناگہانی حادثہ کا نتیجہ تھا ورنہ حاشا کذبِ عمد کو اس میں کوئی دخل نہ تھا، اس کی تائید ابن عدی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ: وھو فی نفسہ لا یتعمد الکذب الا انہ یخطئی ویشبہ علیہ (تذکرہ:۱/۲۶) وہ فی الحقیقت کذب عمد کا ارتکاب نہ کرتے تھے؛بلکہ تشابہ وغلطی ہوجایا کرتی تھی۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام بخاریؒ کے سوا محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان سے روایت کی تخریج کی ہے (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۷) عجلی کا بیان ہے: کان من کبار اصحاب الثوری وکان ثقۃ جائزاً الحدیث متعبداً معروفاً بالحدیث صدوقاً الا انہ فلج فتغیر حفظہ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۷) وہ امام سفیان ثوری کے ثقہ کبار تلامذہ میں تھے، علاوہ ازیں جائزالحدیث عبادت گزار اورصدوق تھے،الا یہ کہ فالج زدہ ہونے کے بعد قوت حافظ میں کچھ تغیر ہوگیا تھا۔ قوتِ حافظہ ان کا حافظہ بہت قوی تھا،اس کا پورا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ امام وکیع جو اپنی غیر معمولی قوت حفظ کی بنا پر عدیم النظیر تھے،بیان کرتے ہیں: ماکان احد من اصحابنا احفظ للحدیث من یحیی بن الیمان کان یحفظ فی المجلس الواحدۃ خمسمائۃ حدیث (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۰۴،ومیزان الاعتدال:۳/۳۰۷) ہمارے ساتھیوں میں حدیث کا حافظہ یحییٰ بن الیمان سے بڑا کوئی نہ تھا،وہ ایک مجلس میں پانچ سو حدیثیں یاد کرلیتے تھے۔ خود انہی کا بیان ہے کہ میں نے تفسیر کے باب میں سفیان ثوریؒ سے چار ہزار حدیثیں زبانی یاد کی تھیں۔ (ایضاً) محمد بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمار کے مفلوج ہوجانے کے بعد ان سے سماع کیا تھا، وہ کسی کتاب سے نہیں ؛بلکہ اپنے حافظہ کی بنیاد پر ہم سے روایت بیان کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۱۲۲) عبادت زیورِ علم کے ساتھ،دولتِ عمل سے بھی مالا مال تھے، علامہ ذہبی رقمطراز ہیں کہ"وکان من العلماء العابدین" (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۰) حتیٰ کہ دنیا سے بے تعلقی اورکثرتِ ریاضت کی بنا پر ابن عیاش نے انہیں راھب تک کہا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۶) سادگی ان کی زندگی انتہائی سادہ اورمتواضع تھی،بشر بن حارث عینی شاہد ہیں کہ ایک مرتبہ میں یحییٰ بن یمان کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ انکے جبہ میں بڑی کثرت سے پیوند لگے ہوئے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۱۲۱) عجلی کا قول ہے وکان فقیراً صبوراً (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۷) وفات ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں رجب ۱۸۹ھ میں بمقام کوفہ عالمِ بقا کو رحلت فرمائی۔ (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۲)