انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ (م:۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء) ۱۔ہندوستان میں جو بنک قائم ہیں ان میں سے بعض اہل یورپ کے ہیں جو اسلام کے مخالف اوردشمن ہیں،یہ لوگ سود کی رقمیں پادریوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ان کے تبلیغی مشن کو دیتے ہیں جب کہ سود کی رقموں کا مطالبہ روپیہ جمع کرنے والے نہیں کرتے اس لئے سود کی رقم نہ لینا ایک بڑے فتنہ و فساد کا سبب ہے لہذا ارباب فتویٰ نے فیصلہ دیا ہے کہ سود کی رقمیں ضرور لینا چاہیے، اوربطور خیرات کے مساکین کو تقسیم کردینی چاہئے یا اورکہیں دے دینی چاہئے ؛بلکہ سمندر میں پھینک دینا بنک میں چھوڑنے سے بہتر ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول، باب اول،ص:۱۰) ۲۔نوجوان طلبہ کو اپنی تعلیمات پوری کرنا چاہئے،ایام طالب علمی میں کسی عملی سیاست میں حصہ نہ لینا چاہئے،ہاں اوقات فارغہ میں علمی سیاست میں حصہ لینا صحیح اوردرست ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول،باب اول،ص:۲۰) ۳۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی دامت برکاتہم سے ہمارا سیاسی اختلاف ہے اور بہت زیادہ اختلاف ہے،مگر وہ جزئیات اورفروع اسلامک لاء جن کو سیاسیات سے تعلق نہیں ہے،ان میں ان کا قول قابل اعتماد ہوگا۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول،باب اول،ص:۲۳) ۴۔جوکام مجمع کے اوربڑے بڑے ہوتے ہیں ان میں غلط فہمیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں،ہم کو اس وقت ملنے اورملنے کی زیادہ ضرورت ہے،متوسط طریقے پر کوشش جاری رہے،نرمی اورخوش کلامی میں فرق نہ ہو۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب اول،ص:۲۵) ۵۔مسلمانوں کی ہر قسم کی کمزوریاں اورانتشار ان کی ترقی سے مانع ہی نہیں ؛بلکہ ان کوایک ایسے میدان کی طرف دھکیل رہا ہے جس میں سوائے ہلاکت کوئی دوسری صورت موجود نہیں ہے دوسری قومیں نہایت تیزی سے اپنی جتھا بندی کرتی ہوئی گامزن ہیں اور ترقی کے ہر میدان میں ہر طرف بڑھتی جارہی ہیں؛بلکہ مسلمانوں کے لئے ہرقسم کی خلاف کوشش کرتی ہوئی سدراہ ہیں۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول، باب اول، ص:۲۶) ۶۔حقوق العباد نہایت زیادہ خوف ناک ہیں،حقوق اللہ تو توبہ صادق سے معاف بھی ہوجاتے ہیں مگر حقوق العباد توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول، باب دوم،ص:۳۱) ۷۔صحابہ کرامؓ اگرچہ معصوم نہیں مگر جناب رسول اللہ ﷺ کے فیض صحبت سے ان کی روحانی اورقلبی اس قدر اصلاح ہوگئی ہے اور ان کی نسبت باطنیہ اس قدر قوی ہوگئی ہے کہ ما بعد کے اولیاء اللہ سالہا سال کی ریاضتوں سے بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول، باب دوم،ص:۴۵) ۸۔خودکشی کرنا اور اس پر عزم وارادہ کرلینا انتہائی بزدلی،انتہائی ظلم اورانتہائی گناہ ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول، باب دوم،ص:۴۵) ۹۔حسن نیت بھی مفید نتائج پیدا کرتی ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب سوم،ص:۵۷) ۱۰۔ہم کو جو کچھ اس دار فانی میں عطا کیا گیا ہے وہ خداوند کریم کی امانت ہے خصوصاً اولاد جن کی پرورش اورتعلیم وغیرہ ہم پر لازم ہے۔ (ملفوظات حضرت ،مدنیؒ،حصہ اول،باب سوم، ص:۵۸) ۱۱۔ہمارا اعتقاد ہے کہ وہ ہمارا اورسارے عالم کا رب ہے، مربی جو کچھ کرتا ہے برائے تربیت اوردرپردہ بھلائی کے لئے کرتا ہے،اگرچہ پروردہ کو تکلیف ہو۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول،باب سوم،ص:۵۸) ۱۲۔انسان کوئی کام خواہ دنیاوی ہو یا دینی، جسمانی ہو یا روحانی جب شروع کرتا ہے،طبیعت بوجہ عدم عادت اس سے گھبراتی ہے اورالجھتی ہے پھر آہستہ آہستہ اس سے مناسبت پیدا ہوتی رہتی ہے اورآخر کار اس سے الفت پیدا ہوکر طبیعت ثانیہ کا ظہور ہوتا ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول،باب سوم،ص:۵۹) ۱۳۔چونکہ انسان کو اپنے نفس کی محبت سب سے زیادہ ہوتی ہے،اس لئے عیوب سے انسان اندھا ہی ہوتا ہے اور اگر کچھ جانتا بھی ہے تو اس کو تاویلات رکیکہ سےکمال بتاتا ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب سوم،ص:۶۶) ۱۵۔لوازم عبودیت میں سے ہے کہ بندہ آقا کے حکم اوراس کی مرضی کانہ صرف تابع ہو ؛بلکہ اس پر خوش بھی رہے اورمنازل عشق میں تو اس کی رضوان اورخوشنودی نصب العین اوربالذات ہونی چاہئے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب سوم،ص:۶۸) ۱۶۔انسان پہاڑ کی طرح مستحکم ہو جسے نہ طوفان جنبش دے سکے،نہ زلزلہ ہلاسکے،میرے بھائی!دل کو مضبوط ،ارادہ کو مستحکم اورطبیعت کو مستقل مزاج بنائیے۔ ۱۷۔تمہارا یہ کام ہے کہ اس کریم کے دروازہ کوکھٹکھٹاتے رہو، کیونکہ جو دروازہ پر دستک دیتا رہتا ہے لا محالہ کھول دیا جاتا ہے۔ ۱۸۔فرصت کو غنیمت جانو اور اسے ضائع نہ کرو۔ ۱۹۔اپنے نفس کے کیدومکر سے کسی وقت بھی مطمئن نہ ہوجانا۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے: ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول،باب چہارم،ص:۶۹) ۲۰۔کارکنوں اورملازموں پر بھروسہ کرلینا اورخود غافل ہوجانا بہت سے رؤسا کو برباد کرچکا ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول ،باب چہارم ،ص:۷۰) ۲۱۔کسی شخص کی ذاتی رعایت کو خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہووہ قومی اورمذہبی علمی اور دینی ضرورت اورمفاد پر مقدم نہ کیجئے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب چہارم،ص:۷۳) ۲۲۔دنیا میں جو وقت بھی مل جائے، وہ نہایت غنیمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہئے اور اس کو ضائع نہ ہونے دینا چاہئے،یہ زمانہ کھیتی کا ہے،اس کا ہرہر سیکنڈ ہیرے اور زمرد سے زیادہ قیمتی ہے جس قدر ہو اس کو ذکر الہی میں صرف کیجئے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب چہارم،ص:۷۵) ۲۳۔جب کوئی حسین صورت نظر پڑجائے تو معاً یہ تصور کیجئے کہ یہ ناپاک منی اورناپاک خون حیض سے بنی ہوئی مورت ہے اوربدن میں سیروں نجاست اس میں بھری ہوئی ہے صبح وشام پاخانہ و پیشاب کی صورت نکلتی ہے اورمرنے کے بعد اس کی نہایت نفرت انگیز صورت ہونے والی ہے، اس واقعی بات میں ذرا غور اوردھیان برابر رکھئے ان شاء اللہ بے چینی وغیرہ جاتی رہےگی۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب چہارم، ص:۷۶) ۲۴۔ہم تو اضع اور انکساری کے الفاظ اپنی زبان سے منافقانہ طریق پر لکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم ذرۂ بے مقدار ہیں ہم عاصی گناہ گار ہیں ہم سب سے بدتر ہیں، ہم ناچیز ہیں، ہم فدوی ہیں، ننگ خلائق ہیں، وغیرہ وغیرہ مگر ہم کو اگر کوئی شخص جاہل یا بددین گدھا یا کتا یا سور یا بے ایمان یا منافق یا بد معاش یا چور یا جھوٹا وغیرہ کہہ دیتا ہے تو ہمارے غصہ کا پارہ اس قدر چڑھ جاتا ہے کہ مرنے مارنے ؛بلکہ اس سے بھی تجاوز کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں،کیا یہ سب جھوٹ اورنفاق نہیں ہے۔ ۲۵۔دیہات اورقصبات کی لڑکی سے شادی کیجئے، شہر کی اورامیروں کی لڑکیاں آرام نہیں پہنچائیں گی۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے: ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب چہارم،ص:۷۷) ۲۶۔اخلاص اورسچی ہمدردی کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے،مجادلات اورفضول بکواس سے حتی الوسع اجتناب فرمائیے، اس زمانے میں حقیقی مناظرہ نہیں ہوتا نفس پرستی اورخود نمائی مقصود ہوتی ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب چہارم،ص:۷۹) ۲۷۔کسی عام مسلمان کو بھی حقارت سے نہ دیکھئے، اگر کوئی عمل اس کا غلط ہو اس پر گرفت کیجئے مگر اس کی حقارت دل میں ہرگز نہ لائیے۔ ۲۸۔عمر عزیز کا ہر لمحہ نہایت بیش قیمت جوہر ہے،آج ہم اس کی قیمت سے واقف نہیں ہیں، مرنے کے بعد روز محشر میں واقف ہوں گے، مگر اس وقت افسوس کے سوا کچھ نہ ہوسکے گا۔ ۲۹۔کسی حال میں اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اوراستغنا سے غافل نہ رہنا چاہئے، نہ اپنے اعمال پر بھروسہ کرنا چاہئے ؛بلکہ بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے:ملفوظات حضرت مدنیؒ،حصہ اول،باب چہارم،ص:۸۰) ۳۰۔عورتیں خلقی طور پر ٹیڑھی طبیعت کی ہوتی ہیں، آپس میں لڑائی جھگڑا لگانا بجھانا ان کی فطرت میں داخل ہے،اس سے متاثر نہ ہوناچاہئے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب چہارم،ص:۸۲) ۳۱۔تجارت کے متعلق اگرچہ سرمایہ کی ضرورت ہے،مگر تھوڑے سے سرمایہ سے بھی تجارت میں ترقی کی جاسکتی ہے،یعنی روپیہ دو روپیہ سے بھی آگے قدم بڑھایا جاسکتا ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب پنجم،ص:۸۷) ۳۲۔صاحب زادی کے عقد میں جلدی جس قدر ہوسکے کوتاہی نہ فرمائیے اور اس قدر سادگی عمل میں لائیں کہ برادری کے غریب سے غریب آدمی بھی اس پر عمل کرسکیں۔ ۳۳۔جس قدر معلومات حاصل ہوں اوردوسرے اس سے بے خبر ہوں ان کو بتایا جائے،جن کو کلمہ نہ آتا ہو ان کو صحیح طور پر کلمہ اوراس کے معنی بتائے جائیں۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے:ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب پنجم،ص:۹۵) ۳۴۔عبادت پر اعتماد کرنا گھمنڈ اورخطرناک ہے۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ ،حصہ اول،باب ششم، ص:۹۸) ۳۵۔دیہات اورقصبات کی عورتیں شرمیلی ،کم گو، معمولی خوراک وپوشاک پر قناعت کرنے والی،شوہر کی تابع دار،وفادار اورجان نثار ہوتی ہیں، تنگی وعسرت میں بھی صابر وشاکر رہتی ہیں، طلاق کا طلب کرنا،شوہر کو جواب دینا اورمقابلہ پر اتر آنا ان میں نہیں ہوتا اوراگر ہوتا ہے تو بہ نسبت شہر ی عورتوں کے بہت ہی کم ہوتا ہے،عموماً عفیف ہوتی ہیں۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب ہفتم،ص:۱۲۸) ۳۶۔عادت الٰہی اورقانون خداوندی مقرر ہے کہ جب کوئی انسان یا جن کسی کام میں اپنا پکا ارادہ لگاتا ہے تو وہ اس کو موجود کردیتا ہے اورپیدا کردیتا ہے انسان اپنے اس علم اورارادہ کی وجہ سے ہی مستحق ثواب و مدح اور عقاب وذم ہوتا ہے انسان اپنے اس ارادہ اورعلم میں اپنے آپ کو مجبور اورمقہور نہیں پاتا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ باجود یہ کہ علم الہیٰ کے خلاف نہیں ہوتا مگر علم الہیٰ اورتقدیر اختیارات والی مخلوق کا اختیار وارادہ سلب نہیں کرتے اورنہ ہی چھنتے ہیں۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول، باب ہفتم،ص:۱۲۹) (۳۷)یہ جماعات تبلیغیہ نہ صرف ایک ضروری اوراہم فریضہ کی حسب استطاعت انجام دہی کرتی ہیں ؛بلکہ اس کی بھی سخت محتاج ہیں کہ ان کی ہمت افزائی کی جائے اوران کا خود بھی مسلمانوں سے قوی رابطہ پیدا ہو اورمسلمانوں میں اتحاد ویگانگت کا قوی جذبہ پیدا ہو،بنا بریں میں امید زار ہوں کہ آئندہ اس میں پوری جدوجہد کو کام میں لایا جائے اوران کی ہمت افزائی کی صورتیں عمل میں لائی جائیں۔ (ملفوظات حضرت مدنیؒ، حصہ اول،باب ہفتم،ص:۱۳۱) (۳۸)سب سے حسنِ خلق کا معاملہ ہونا چاہئے ، چند دن کی زندگی میں کسی سے ناراض ہونا ٹھیک نہیں ہے ، ہر ایک کے کام آنا چاہئے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی سے توقع اور امید نہیں رکھنی چاہئے ، اگر کسی سے امید نہیں رکھوگے تو کسی سے شکایت بھی نہ ہوگی اور نہ کبھی کسی سے تکلیف پہونچے گی ، اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے کرو ۔