انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اُمِ رومان رضی اللہ عنہا نام ونسب نام معلوم نہیں، اُم رومان کنیت ہے، قبیلۂ کنانہ کے خاندانِ فراس سے تھیں (بخاری:۱/۸۵) سلسلۂ نسب یہ ہے، ام رومان بنتِ عامر بن عویمر بن عبدشمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع ابن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔ نکاح عبداللہ بن سنجرہ سے نکاح ہوا اور انہی کے ہمراہ مکہ آکراقامت کی، عبداللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حلیف بن گئے تھے، اس بناپرجب انہوں نے انتقال کیا توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خود نکاح کرلیا۔ اسلام کچھ زمانے کے بعد مکہ سے اسلام کی صدابلند ہوئی توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ انہو ں نے بھی اس صداکولبیک کہا۔ ہجرت ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مدینہ کوروانہ ہوگئے تھے؛ لیکن ان کا خاندان مکہ میں مقیم تھا، مدینہ پہنچے تووہاں سے زید رضی اللہ عنہ ابن حارثہ اور ابورافع مستورات کولانے کے لیے بھیجے گئے، ام رومان رضی اللہ عنہا بھی ان ہی کے ہمراہ مدینہ میں آئیں۔ عام حالات شعبان سنہ۶ھ میں افک کا واقعہ پیش آیا، ام رومان رضی اللہ عنہا کے لیے یہ نہایت مصیبت کا وقت تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواس واقعہ کی خبر ہوئی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیکر میکہ آئیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بالاخانے پرتھے اور حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہانیچے بیٹھی تھیں، پوچھا کیسے آئیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سارا واقعہ بیان کیا، بولیں بیٹی! اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں جوعورت اپنے خاوند کوزیادہ محبوب ہوتی ہے، اس کی سوتنیں حسد کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواس سے کچھ تسکین نہ ہوئی اور چیخ مارکرروئیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آواز سنی توبالاخانہ سے اترآئے اور خود بھی رونے لگے؛ پھران سے کہا کہ تم اپنے گھرواپس جاؤ اس کے ساتھ ہی حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا کولے کرخود بھی روانہ ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوچونکہ اس صدمہ سے بخار آگیا تھا، دونوں نے ان کوگود میں لٹایا، عصر پڑھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: عائشہ! اگرواقعی تم سے ایسی غلطی ہوئی توخدا سے توبہ کرو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے والدین سے کہا کہ آپ لوگ جواب دیں؛ لیکن جواب ملا کہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود جواب دیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہوئی جس میں ان کی صاف طور پربرأت کی گئی تھی تو حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا بولیں کہ تم اُٹھ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نہ ان کی مشکور ہوں اور نہ آپ کی میں صرف اپنے اللہ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ (صحیح بخاری:۲/۵۹۵،۵۹۶،۶۹۹) اسی سنہ کے اخیر میں مہمانوں کا واقعہ پیش آیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں سے تین صحابیوں کواپنے گھر لائے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے توواپسی میں دیرہوگئی گھرآئے تو حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مہمانوں کوچھوڑ کرکہاں بیٹھ رہے؟ بولے تم نے کھانا نہیں کھلایا؟ جواب ملا کھانا بھیجا تھا؛ لیکن ان لوگوں نے انکار کیا؛ غرض کھانا کھلایا گیا اور اس قدر برکت ہوئی کہ نہایت افراط کے ساتھ بچ رہا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا سے پوچھا اب کتنا ہے؟ بولیں تین گنا سے زیادہ؛ چنانچہ سب اُٹھواکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ (بخاری:۱/۸۴،۸۵) وفات حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا نے سنہ۹ھ یااس کے بعد انتقال کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اُترے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سنہ۶ھ میں وفات پائی تھی؛ لیکن یہ صحیح نہیں؛ کیونکہ واقعات سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اولاد اوپرگذرچکا ہے کہ حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا نے دونکاح کئے تھے، پہلے شوہر سے ایک لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام طفیل تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دواولادیں ہوئیں، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔