انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح بیت المقدس ارطبون جب بیت المقدس میں داخل ہوگیا تو حضرت عمرؓو نے غزوہ،سبط،نابلس،لد،عمواس،جبرین،یافاوغیرہ مقامات پر قبضہ کیا اوربیت المقدس کے ارد گرد کے تمام علاقے پر قابض ہوکر بیت المقدس کی طرف بڑھے اورمحاصرہ کو سختی سے جاری رکھا،انہیں ایام میں حضرت ابو عبیدہؓ شام کے انتہائی اضلاع قنسرین وغیرہ کی فتح سےفارغ ہوکر فلسطین وبیت المقدس کی طرف روانہ ہوچکے تھے،عیسائی قلعہ بند ہوکر نہایت سختی سے محاصرین کی مدافعت اورمقابلہ کررہے تھے،ابو عبیدہؓ کے آجانے کی خبر سُن کر ان کی کچھ ہمت پست سی ہوگئی، اورسپہ سالار اعظم یعنی حضرت ابوعبیدہ کے پہنچنے پر انہوں نے صلح کے سلام وپیام جاری کئے مسلمانوں کی طرف سے صلح میں کوئی تامل ہوتا ہی نہ تھا، مسلمانوں کی طرف سے جو شرائط پیش ہوتے تھے،وہ بہت سادہ اورایسے مقررہ معینہ تھے کہ تمام عیسائی اُن سے واقف تھے لیکن بیت المقدس کے عیسائیوں نے صلح کی شرائط میں ایک خاص قسم کا اضافہ ضروری و لازمی قرار دیا وہ یہ کہ عہد نامہ خود خلیفۂ وقت آکر لکھے،ارطبون بطریق بیت المقدس سے نکل کر مصر کی طرف بھاگ گیا تھا، رؤساء شہر اورشرفائے بیت المقدس ہی مدافعت میں استقامت دکھا رہے تھے اوراب شہر کا قبضہ میں آجانا کچھ بھی دشوار نہ تھا،لیکن حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح نے یہی مناسب سمجھا کہ جہاں تک ہوسکے کشت وخون کا امکان مسدود کیا جائے اورجنگ پر صلح کو فوقیت دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے فاروق اعظمؓ کو ان حالات کا ایک خط لکھا اوراُس میں تحریر کیا کہ آپ کے یہاں تشریف لانے سے بیت المقدس بلا جنگ قبضہ میں آسکتا ہے ،فاروق اعظمؓ نے اس خط کے پہنچنے پر صاحب الرائے حضرات کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بغرض مشورہ طلب کیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ عیسائی اب مغلوب ہوچکے ہیں، ان میں مقابلے اور مدافعت کی ہمت و طاقت نہیں رہی، آپ بیت المقدس کا سفر اختیار نہ کریں خدائے تعالی عیسائیوں کو اور بھی زیادہ ذلیل کرے گا اوروہ بلا شرط شہر کو مسلمانوں کے سپرد کردیں گے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میری رائے میں آپ کو ضرور جانا چاہئے ،فاروق اعظمؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے کو پسند کیا۔