انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوحفص حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن حکم خلفائے راشدین میں خلیفہ خامس ہیں، وہ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں، اکثر اکابر مسلمین کا قول ہے کہ خلفائے راشدین پانچ ہیں، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم اجمعین، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان مصر کے حاکم تھے کہ سنہ۶۲ھ میں عمر بن عبدالعزیز پیدا ہوئے، ان کی والدہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی یعنی عاصم بن عمرفاروق کی بیٹی تھیں، ان کے والد عبدالعزیز عبدالملک بن مروان کے بعد خلیفہ ہونے والے تھے؛ لیکن ان کا انتقال عبدالملک کے سامنے ہوا؛ لہٰذا وہ خلیفہ نہ ہوسکے، بچپن میں گھوڑے نے ان کے لات ماری تھی، ان کے چہرے پراس کے زخم کا نشان تھا، فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میری اولاد میں سے ایک شخص ہوگا اس کے چہرے پرایک داغ ہوگا اور وہ زمین کوعدل وداد سے بھردے گا؛ یہی وجہ تھی کہ جب گھوڑے نے ان کے لات ماری ہے توان کے باپ ان کے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اگرتووہی داغ دار ہے توتوسعادت مند ہے۔ ابن سعد کا قول ہے کہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ کاش! میں اپنے اس داغ دار بیٹے کا زمانہ پاتا جودنیا کواس طرح عدل وداد سے بھردے گا جیسا کہ وہ اس وقت ظلم سے بھری ہوئی ہوگی، بلال بن عبداللہ بن عمر کے چہرے پربھی ایک داغ تھا اس لیے خیال تھا کہ شاید یہی بشارت عمر رضی اللہ عنہ کے مصداق ہو؛ لیکن حضرت عمربن عبدالعزیز کے خلیفہ ہونے پرسب کومعلوم ہوگیا کہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پیشین گوئی کے مصداق وہی تھے، ان سے پہلے عام طور سے لوگ آپس میں ذکر کیا کرتے تھے کہ دنیا کا خاتمہ نہ ہوگا جب تک کہ مثلِ عمر حاکم نہ ہولے۔ بچپن میں عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے باپ نے ان کومدینہ میں بھیج دیا تھا، مدینہ میں ہی ان کی تربیت ہوئی، فقہائے مدینہ کی صحبت میں ان کی عمر کا ابتدائی حصہ گزرا، علمائے مدینہ ہی سے انہوں نے علوم دینیہ حاصل کیے علم وفضل اور فقہ فی الدین میں ان کا وہ مرتبہ تھا کہ اگروہ خلیفہ نہ ہوتے توائمہ شرع میں ان کا شمار ہوتا اور وہ سب سے بڑے امام مانے جاتے، مدینہ میں ان کے والد نے ان کوعبیداللہ بن عبداللہ کے پاس بھیجا تھا، انھیں کے زیرتوجہ ان کی تربیت ہوئی، زید بن اسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بجز عمر بن عبدالعزیز کے اور کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہ ہو، زید کہتے ہیں کہ وہ رکوع وسجود پوری طرح ادا کرتے تھے؛ مگرقیام وقعود میں دیرنہ کرتے تھے، محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے کسی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نسبت سوال کیا توانھوں نے فرمایا کہ وہ بنواُمیہ کے نجیب ہیں اور قیامت میں بصورتِ امتِ واحدہ اُٹھیں گے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہونے سے پیشتر نہایت پرتکلف اور قیمتی لباس پہنتے تھے؛ لیکن خلیفہ ہونے کے بعد انھوں نے کھانے اور پہننے میں بالکل درویشانہ روش اختیار کرلی تھی، میمون بن مہران کا قول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کےہمراہ بہت سے مشہور علماء شاگردوں کی طرح رہا کرتے تھے، مجاہد کا قول ہے کہ ہم عمربن عبدالعیز کے پاس اس خیال سے آئے کہ وہ ہم سے کچھ سیکھیں گے مگران کے پاس آکر ہم کوخود انھیں سے بہت کچھ سیکھنا پڑا، جب ان کے والد عبدالعزیز بن مروان کا انتقال ہوا تویہ مدینہ ہی میں تشریف رکھتے تھے، عبدالعزیز کی وفات کا حال سن کرعبدالملک بن مروان نے ان کودمشق بلاکر اپنی بیٹی فاطمہ کے ساتھ شادی کردی، عبدالملک کی وفات کے بعد جب ولید خلیفہ ہوا تو اس نے ان کومدینہ منورہ کا حاکم مقرر کیا؛ چنانچہ یہ سنہ۸۶ھ سے سنہ۹۳ھ تک مدینہ کے حاکم رہے، کئی مرتبہ امیرِحج کی حیثیت سے حج کیا، امارتِ مدینہ کے زمانے میں تمام فقہا علما ان کے پاس جمع رہتے تھے، فقہائے مدینہ کی ایک کونسل آپ نے بنائی تھی اور انھیں کے مشورہ سے اُموراتِ مہمہ انجام دیتے تھے، حجاج کی شکایت پرسنہ۹۳ھ میں ولید نے انھیں امارتِ مدینہ سے معزول کرکے شام میں بلالیا، جب ولید نے ارادہ کیا کہ اپنے بھائی سلیمان کوولی عہدی سے معزول کرکے اپنے بیٹے کوولی عہد بنائے توحجاج وقتیبہ وغیرہ نے توولید کے ارادہ کی تائید کی؛ لیکن دوسرے اُمراء نے اس کوناپسند کیا، سب سے پہلے جس شخص نے ولید کے اس ارادے کی علانیہ اور پرزور مخالفت کی وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے؛ چنانچہ ولید نے ان کوقید کردیا، تین برس تک یہ قید میں رہے؛ پھرکسی کی سفارش سے رہا کردیئے گئے، سلیمان بن عبدالملک اسی لیے عمر بن عبدالعزیز کا بہت شکرگذار واحسان مند تھا؛ چنانچہ اس نے خود خلیفہ ہونے کے بعد ان کواپنا وزیرِاعظم بنایا اور مرتے وقت ان کی خلافت کے لیے وصیت لکھ گیا۔