انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ائمہ تالیف حدیث جہاں تک مطلق تالیف کا تعلق ہے توحدیث حضور اکرمؐ کی زندگی میں ہی معرضِ تحریر Documentary Records میں آنے لگی تھی اور صحابہ کے جمع کردہ صحیفے آئندہ کے اہلِ علم کے پاس موجود رہے، خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے حکم سے امام زہری اور صالح بن کیسان جیسے تابعین حضرات نے حدیث خاصی تعداد میں جمع کرلی تھی؛ تاہم زمانے کوانتظار تھا کہ محدثین فن تدوین کوترقی دے کر حدیث کی ایسی تالیفات سامنے لائیں کہ فن اعتماد اور ضرورت کے اعتبار سے یہ مجموعہ ہائے حدیث دیرپا قبولیت پائیں، اس دائرہ اور دَور میں محدثین کی پوری کاوش رہی کہ یہ علمی ذخیرے اس طرح ترتیب پائیں کہ مختلف پہلوؤں سے تعلیم وتدریس کا مرکز بن جائیں اور آئندہ امت پر حفظ وضبط اور جمع وتدوین کا وہ بوجھ نہ رہے جواب تک صحابہ وتابعین اور تبع تابعین اُٹھاتے چلے آرہے تھے۔ قدماء بے شک قدماء ہیں اور بنیادی فضیلت پہلوں کو ہی جاتی ہے؛ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فن تالیف تیسری صدی ہجری میں جس پایۂ تکمیل کو پہنچا اس کی نظیر پہلے علمی ذخیروں میں نہیں ملتی۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا علمِ حدیث مسلم، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث کے باب میں درایت ہو یاروایت امام شافعیؒ اور امام احمدؒ فن حدیث میں پورے مجتہد تھے، امام سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ) اور امام محمدؒ (۱۸۹ھ) اور عبدالرزاق ابن ہمامؒ (۲۱۱ھ) کی کتابوں میں سینکڑوں حدیثیں مروی ملتی ہیں؛ لیکن تالیف حدیث میں جوکمال امام بخاری اور امام مسلمؒ نے دکھایا اس کی نظیر نہ صرف یہ کہ اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی؛ بلکہ مذاہب عالم کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے "ولقد جاء فی المثل السائرکم ترک الاوّل للآخر"۔ یہی وجہ ہے کہ ان تالیفات کے سامنے آنے پر امت نے پچھلے ذخائرِ حدیث کوجوبے شک اوّلیت کی شان رکھتے تھے، علم حدیث کا مرکز نہ بنایا اور دورۂ حدیث آج انہی کتابوں کے گرد گھوم رہا ہے، یہ جلیل القدر تالیفات پچھلی تالیفاتِ حدیث کی بجاطور پر وارث اور آئندہ کی حدیثی کاوشوں کا صحیح معنوں میں متن Texts ہیں؛ یہی کتابیں ہیں جوآنحضرتﷺ کی تعلیمات کے باب میں اساسی کتابیں Canonical Books کہلاتی ہیں اور حدیث کی سند وروایت اور ردّوقبول میں انہی کتابوں کومرکز قراردیا جاتا رہا ہے، فنِ تالیف میں جوائمہ زیادہ معروف ہوئے اور جن کے علمی ذخائر اپنے اپنے رنگ میں اب تک مرکز سمجھے جاتے ہیں؛ یہاں انہی کا ذکر ہوگا۔ ان ائمہ تالیف میں حضرت امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) اور امام ابنِ خزیمہؒ (۳۱۱ھ) توترجمۃ الباب میں بالکل مجتہد نظر آتے ہیں، اسانید کی ترتیب اور ضبط متن میں حضرت امام مسلمؒ (۶۶۱ھ) کا ثانی نہیں ملتا، ترتیب روایت پر حیرت انگیز دسترس کے مالکؒ ہیں، مجتہدانہ بصیرت میں امام ابوداؤدؒ سجستانی (۲۷۵ھ) اور امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) اپنی مثال آپ ہیں، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) نے نقل مذاہب میں جواچھوتا انداز اختیار کیا ہے اس میں وہ پہلے اور پچھلے سب مؤلفین کوپیچھے چھوڑ گئے ہیں اور اس خاص طرز میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ ان ائمہ تالیف میں ہم عبدالرزاق بن ہمام (۲۱۱ھ) اور ابوداؤد طیالسیؒ (۲۲۴ھ)، ابن ابی شیبہؒ (۲۳۵ھ)، دارمیؒ (۲۵۵ھ)، بخاریؒ (۲۵۶ھ)، مسلمؒ (۲۶۱ھ)، ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ)، ترمذیؒ (۲۷۹ھ)، نسائیؒ (۳۰۳ھ)، ابن ماجہ قزوینیؒ (۲۷۳ھ)، ابن خزیمہؒ (۳۱۱ھ)، ابوعوانہؒ(۳۱۶ھ)، طحاویؒ (۳۲۱ھ)، ابن حبان (۳۵۴ھ)، طبرانیؒ (۳۶۰ھ)، دارِقطنی (۳۸۵ھ)، خطابی (۳۸۸ھ)، حاکم نیشاپوری (۴۰۵)، امام بیہقیؒ (۴۵۸) اور ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) کا ذکر کریں گے۔