انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نظریہ حدیث حضرت امام حدیثِ منقول پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ کثیرتعداد متقی لوگ اس حدیث کواِس صحابیؓ سے روایت کرتے ہوں، یہ روایت کرنا لفظاً ضروری نہیں، خبرِواحد اپنی جگہ معتبر ہے؛ لیکن اُن کے ہاں اس کا عمل میں آیا ہوا ہونا ضروری تھا، جوحدیث معمول بہ نہ رہی ہو؛ اِس سے ان کے ہاں سنت ثابت نہیں ہوتی، سنت کے ثابت ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اس پر عمل بھی ہوتا آیا ہو، امام مالکؒ کانظریۂ حدیث بھی تقریباً یہی تھا، وہ حدیث کی بجائے سنت پر زیادہ زور دیتے تھے؛ مؤطا میں بار بار سنت کا لفظ لاتے ہیں اور اس سے صحابہؓ وتابعینؒ کا تواتر عمل مراد ہوتا ہے جب فتنے پھیلے اور جھوٹ کا بازار گرم ہوا تومحدثین روایت اور اسناد کے گرد پہرہ دینے لگے، اِن بدلے ہوئے حالات میں حدیث سے تمسک بذریعہ اسناد ہونے لگا اور تواتر عمل کی اس طرح تلاش نہ رہی جس طرح پہلے دور میں ہوتی تھی، اس نئے دور کے مجدد حضرت امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ پہلے دور میں حدیث کی بجائے سنت کوزیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حافظ شمس الدین الذہبیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کانظریۂ حدیث اُن کے اپنے الفاظ میں اس طرح نقل کرتے ہیں: "آخذ بکتاب اللہ فمالم اجد فبسنۃ رسول اللہ والاثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات فان لم اجد فبقول اصحابہ اٰخذ بقول من شئت...... وامااذا انتہی الامرالی ابراہیم والشعبی والحسن والعطاء فاجتہد کمااجتہدوا"۔ (مناقب ابی حنیفۃ للذہبی:۲۰) ترجمہ: میں فیصلہ کتاب اللہ سے لیتا ہوں جواس میں نہ ملے اسے حضورﷺ کی سنت اور ان صحیح آثار سے لیتا ہوں جوحضور سے ثقہ لوگوں کے ہاں ثقات کی روایت سے پھیل چکے ہوں، ان میں بھی نہ ملے تومیں صحابہ کرامؓ سے لیتا ہوں اور جس کا فیصلہ مجھے اچھا (قوی) لگے لے لیتا ہوں..... اور جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، علامہ شعبیؒ، حضرت حسن بصریؒ اور عطاء بن ابی رباحؒ تک پہنچے تومیں بھی اس طرح اجتہاد کرتا ہوں جس طرح ان پہلوؤں نے اجتہاد کیا تھا۔ حضرت امام یہاں آثارِ صحیحہ کے عملاً پھیلے ہوئے ہونے پر زور دے رہے ہیں اور یہی اُن کا نظریہ حدیث تھا، حضرت علامہ عبدالوہاب الشعرانیؒ (۹۷۳ھ) لکھتے ہیں: "وقد کان الامام ابوحنیفۃ یشترط فی الحدیث المنقول عن رسول اللہ قبل العمل بہ ان یرویہ عن ذٰلک الصحابی جمع اتقیاء عن مثلہم"۔ (المیزان الکبریٰ للشعرانی:۱/۶۲) ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ حضورﷺ سےنقل شدہ حدیث کومعمول بہ ٹھہرانے سے پہلے یہ ضروری ٹھہرائے تھے کہ اسے اس صحابیؓ سے ان جیسے نیک لوگوں کی ایک جماعت نے روایت کیا ہو۔ محقق ابن الہمامؒ (۸۶۱ھ) کی حضرت امام کے اس اصل پر گہری نظر تھی، آپؒ تصریح کرتے ہیں کہ جب کوئی صحابیؓ اپنی روایت کردہ حدیث پر عمل نہ کرے اس کے خلاف فتوےٰ دے تو وہ روایت ازخود حجت نہ رہے گی؛ کیونکہ اس کے ساتھ تواترِ عمل ثابت نہیں ہوسکا، حضرت امام کا یہ نظریہ بیشک نہایت سخت ہے، روایت کے ساتھ راوی کا عمل ساتھ ساتھ چلے، ایسے راوی توصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بہت کم ملیں گے، حضرت امامؒ تواتر عمل کے اس حد تک قائل تھے کہ وہ اس کی تائید میں ان روایات وآثار سے مدد لیتے تھے، جواپنی جگہ مرسل ہوں؛ مگرعملاً اتصال رکھتے ہوں، آپؒ کی املاء کردہ کتاب الآثار اور امام مالکؒ کے مؤطا میں آپؒ اسی نظریہ کوجگہ جگہ کارفرما پائیں گے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھتے ہیں: "أنہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علٰی مااجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فماشذ من ذلک ردہ وسماہ شاذاً"۔ (الموافقات للشاطبی:۳/۲۶) ترجمہ:امام صاحبؒ ایسے موقع پر اس روایت کواس موضوع کی دوسری احادیث اور قرآنی مطالب سے ملاکر دیکھتے جوروایت اس مجموعی موقف سے علیٰحدہ رہتی آپؒ اسے (عمل میں) قبول نہ کرتے اور اس کا نام شاذ Isolated رکھتے۔ حضرت امام کے نظریہ حدیث میں یہ اصول بھی کار فرما ہے کہ آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کوبھی نظرانداز نہ کیا جائے، اُن کے ہاں آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کے ہوتے ہوئے اجتہاد اور قیاس سے کام نہ لینا چاہئے، اپنی رائے پر ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوترجیح دینی چاہیے، یہ صرف حضرت امام کی ہی رائے نہ تھی، کل فقہاء عراق اسی نظریہ کے تھے، علامہ ابنِ حزمؒ نے اس پر فقہاء عراق کا اجماع نقل کیا ہے؛ ضعیف حدیث سے یہاں وہ روایت مراد نہیں، جس کا ضعف انتہائی شدید قسم کا ہویا وہ موضوع ہونے کے بالکل قریب جاچکی ہو، متکلمین کا جوطبقہ مسائل ذات وصفات میں تاویل کی راہ چلا حضرت امام اس مسلک کے نہ تھے، اس باب میں آپ محدثین کی روش پرتھے اور آیات صفات پر بلاتاویل ایمان رکھتے تھے، حافظ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) آپ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں: "هوالامام أبوحنيفة واسمه النعمان بن ثابت التيمي مولاهم الكوفي، فقيه العراق، وأحد أئمة الاسلام، والسادة الاعلام، وأحد أركان العلماء، وأحد الائمة الاربعة أصحاب المذاهب المتنوعة"۔ (البدایہ والنہایہ:۱/۱۰۷) علامہ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) آپ کے لیئے امام اعظم کا لقب اختیار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں: ".....کان اماماً ورعاً عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان"۔ (تذکرہ:۱/۱۵۸) الامام اعظم، فقیہ العراق، حضرت امام متورع، عالم، عامل، متقی اور کبیرالشان تھے۔ امام مکی بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ اعلم اہل الارض تھے (مقدمہ اوجزالمسالک:۶۰) یعنی کرۂ ارضی کے اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے، علم ان دنوں علمِ حدیث کوہی کہا جاتا تھا، علامہ ابنِ خلدونؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ علم حدیث کے بڑے مجتہدین میں سے تھے (مقدمہ ابنِ خلدون:۴۴۵) اور لکھتے ہیں کہ فقہ میں آپ کا مقام اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان کی نظیر نہ تھا اور ان کے تمام ہمعصر علماء نے ان کی اس فضیلت کا اقرار کیا ہے خاص طور پر امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے (مقدمہ:۴۴۸) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ ہم خدائے قدوس کی تکذیب نہیں کرتے، ہم نے امام ابوحنیفہؒ سے بہتر رائے اور بات کسی سے نہیں دیکھی (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴۹) آپ بھی حضرت امام کے قول پر فتویٰ دیتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: "کان یحییٰ القطان یفتی بقول ابی حنیفہ ایضا"۔ (تذکرہ:۱/۲۸۲) یہ اِس درجہ کے امام تھے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "مارأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان"۔ (تذکرہ:۱/۲۷۵) میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید کی مثال کسی کو نہ دیکھا۔ اِس درجے کے عظیم القدر محدث کا فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی پیروی کرنا اور اُن کے قول پر فتوےٰ دینا اس با ت کا پتہ دیتا ہے کہ حضرت امامؒ حدیث وفقہ میں کتنا اونچا مقام رکھتے تھے، عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں: "جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔ (سیرالاحناف:۲۹) امام مسعر بن کدامؒ (۱۵۵ھ) کی جلالتِ قدر سے کون واقف نہیں، شعبہ کہتے ہیں ہم نے اُن کا نام مصحف (قرآن) رکھا ہوا تھا، یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں میں نے حدیث میں ان سے زیادہ ثابت کسی کونہیں پایا، محمد بن بشرؒ کہتے ہیں میں نے اُن سے دس کم ایک ہزار احادیث لکھیں، یہ مسعربن کدامؒ حضرت امامؒ کے ہم سبق تھے، آپؒ کہتے ہیں: "طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الزھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون"۔ (مناقب ابی حنیفۃ للذھبی:۲۷) ترجمہ: میں نے اور ابوحنیفہؒ نے اکٹھے حدیث پڑھنی شروع کی وہ ہم پر غالب رہے اورعلم حدیث میں ہم سب طلبہ سے بڑھ گئے، ہم زہد وسلوک میں پڑے تو اس میں بھی وہ کمال پر پہنچے اور ہم نے اُن کے ساتھ فقہ پڑھنا شروع کیا تواس میں بھی وہ اس مقام پر آپہنچے جو تم دیکھ رہے ہو۔ مسعر بن کدامؒ جیسے محدث کی یہ شہادت حضرت امام کے علم حدیث میں اسبق ہونے کی ایک کھلی دلیل ہے، کم از کم پانچ لاکھ احادیث بیک نظر آپ کے سامنے ہوتی تھیں، آپ نے اپنے بیٹے حماد کوجن پانچ حدیثوں پر عمل کرنے کی وصیت کی ان کے بارے میں فرمایا کہ میں نے یہ پانچ لاکھ احادیث سے انتخاب کی ہیں، وصیت ۱۹/کے تحت لکھتے ہیں: "ان تعمل بخمسۃ احادیث جمعتھا من خمس مائۃ الف حدیث"۔ (وصیۃ الامام الاعظم لابن حماد:۶۵) ترجمہ:ان پانچ احادیث کو خاص طور پر معمول بہ بنانا، میں نے انہیں پانچ لاکھ احادیث سے چنا ہے۔ (۱)"وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى" اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔ ( بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مَاجَاءَ إِنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالْحِسْبَةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى،حدیث نمبر:۵۲، شاملہ، موقع الإسلام۔) (۲)"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ" ( ترمذی، كِتَاب الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ،حدیث نمبر:۲۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام۔) (۳)"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ" تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنےبھائی کے لیےوہی پسند نہ کرے جواپنےنفس کو پسند ہے۔ (بخاری،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مِنْ الْإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام۔) (۴)"إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ" بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں۔ (مسندِاحمد،أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ،حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۷۶۴۹، شاملہ، موقع الإسلام۔) (۵)"الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ" مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب بَيَانِ تَفَاضُلِ الْإِسْلَامِ وَأَيُّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ،حدیث نمبر:۵۸، شاملہ، موقع الإسلام۔)