انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافتِ راشدہ کے متعلق چند جملے خلافت راشدہ کی تاریخ ختم ہوچکی ہے،خلافتِ راشدہ کے بعد خلافت بنو امیہ کا بیان شروع ہوگا،خلافت بنو امیہ اوراُس کے بعد قائم ہونے والی دوسری خلافتوں کے مقابلہ میں خلافتِ راشدہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خلفاء راشدین میں سے ہر ایک خلیفہ مسلمانوں کی صاحب الرائے جماعت کے انتخاب سے مقرر ہوتا تھا، اگر کسی خلیفہ کو اس کے پیشتر خلیفہ نے پہلے ہی سے نامزد اور تجویز کیا تو یہ نامزدگی اورتعین بھی صاحب الرائے حضرات سے مشورہ لینے کے بعد عمل میں آتا تھا، جس میں وراثت اورکاندانی حقوق کو مطلق دخل انداز نہیں ہونے دیا جاتا تھا، دوسری خلافتوں میں یہ طرز پسندیدہ نہیں پائی گئی ؛بلکہ وراثت وولیعہدی کی نامعقول رسم جاری ہوگئی۔ خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں کو معاملاتِ حکومت اورانتظامِ سلطنت میں دخل دینے،اعتراض،جواب طلب کرنے،مشورہ دینے کا پورا پورا حق حاصل تھا،لیکن بعد کی خلافتوں میں یہ حق مسلمانوں کو نہیں مل سکا۔ خلافتِ راشدہ میں خلفاء راشدین کی حیثیت ظاہری،اُن کا لباس،اُن کامکان،اُن کی سواری،اُن کی خوراک،ان کی نشست برخاست سب عام لوگوں کی مانند ہوتی تھی،خلیفہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی،لیکن بعد کی خلافتوں میں خلیفہ کی شان شاہانہ اور دوسروں سے بہت برتر واعلیٰ ہوتی تھی۔ خلافتِ راشدہ میں خلفاء اپنے اختیار سے ایک پائی بھی اپنی ذات کے لئے یا بلا استحقاق کسی اپنے عزیز ورستہ دار کے لئے خرچ نہیں کرسکتے تھے،لیکن بعد کی خلافتوں میں عام طور پر خلیفہ بیت المال کا مالک سمجھا جانے لگا اور اپنے اختیار سے لوگوں کو بلا استحقاق بھی انعام اکرام دیتا اور کوئی اعتراض کی جرأت نہ کرسکتا تھا۔ خلفاء راشدین سب کے سب جلیل القدر صحابہؓ میں سے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے،بعد کی خلافتوں میں حضرت امیرمعاویہؓ اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے سوا کوئی قابلِ تذکرہ صحابی خلیفہ نہ تھا۔ خلفاء راشدین سب کے سب اُن لوگوں میں سے تھے جو جنتی ہونے کی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سُن چکے تھے لیکن بعد کی خلافتوں میں ایسے صحابہ نہیں پائے گئے۔ مسلمانوں کو اپنی اولاد سمجھ کر اُن پر شفقت فرماتے تھے،مسلمانوں کو اپنا غلام نہیں جانتے تھے اوراُن سے غلاموں کی طرح اپنے احکام کی تعمیل نہیں کراتے تھے،بعد کی خلافتوں میں اس کے برعکس حالات پیدا ہوئے اورخلفاء نے اپنے آپ کو قیصر وکسریٰ کا نمونہ بناکر ظاہر کیا۔ خلفائے راشدین کی حکومت وسلطنت دنیوی اعتبار سے قیصر وکسریٰ کی طرح قہر وجبر کی حکومت نہ تھی، دینی معاملات میں بھی وہ بہ اختیار خود کچھ نہیں کرسکتے تھے،جب کسی دینی مسئلہ اختلاف یا شبہ پیدا ہوتا تو دوسرے صحابہؓ کو بُلا کر اُن سے دریافت کرتے اور جو بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجاتی اُسی کے موافق احکام جاری کرتے ، اگر کسی دینی معاملہ میں اُن سے غلطی ہوجاتی اوربعد میں اُن کو اپنی غلطی کا احساس وعلم ہوتا تو فوراً اُس کی اصلاح کرلیتے تھے،غرض دینی و دنیوی ہر دو پہلوؤں میں اُن کی سیادت وحکومت آج کل کی جمہوری حکومتوں کے صدر اورآج کل کے دینی علماء کی سیادت وحکومت سے بھی بہت ہی کم تھی،اُن کا کام شریعت کے احکام کا نفاذ اور امن وامان کا قائم رکھنا تھا، اُن کے زمانے میں لوگوں کو ہر قسم کی جائز آزادی حاصل تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں ہر شخص اُن سے جواب طلب کرسکتا،اُن کو اپنے احکام کے نافذ کرنے کے لئے کسی طاقت اور فوج کی ضرورت نہ تھی ؛بلکہ ہر شخص اُن کے حکم کو چاہے وہ اُس کے خلاف ہو خود ہی اپنے اوپر جاری اورصادر کرلیتا اوراُس کی تعمیل کرتا تھا جو دلیل اس امر کی ہے کہ اُن کی حکومت محبت اورعقیدہ کی بنیاد پر قائم تھی،خوف ودہشت اورقہر وجبر کے ذریعہ قائم نہ تھی لیکن بعد کی خلافتوں میں احکام شرع کے نفاذ و قیام کا کام خلفاء نے خود چھوڑ کر مولویوں،مفتیوں اورقاضیوں کے سپرد کردیا،مساجد کے خطیب وامام الگ مقرر ہوئے،فوج اور خزانے کا اختیار اپنے قبضہ میں رکھ کر ان دونوں قوتوں کا استعمال مطلق العنان ہوکر شروع کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی حکومت وسلطنت قہر وجبر وخوف ودہشت پر قائم ہوئی،لوگوں کی جائز آزادی چھن گئی،مذہبی احکام کے نفاذ وقیام میں بھی افہام وتفہیم اوررفع شکوک کی جائز آزادی لوگوں سے سلب ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ آج کسی شخص کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ایک معمولی نواب یا رئیس کی جس قدر ہیبت لوگوں کے دلوں پر طاری ہے اوروہ جس قدر اُس کی تعظیم وتکریم بجا لانا ضروری سمجھتے ہیں، خلفاء راشدین کی اس قدر ہیبت اوراس قدر تعظیم وتکریم خوف ودہشت کی وجہ سے کسی کے قلب پر طاری نہ تھی،ان کی ہیبت وعظمت شفیق استاد اور والدین کی ہیبت و عظمت کے مانند تھی،شیر مردم،اورنارِ مردم کُش کی مانند نہ تھی،آج ایک صوفی،ایک مفتی، ایک جبہ پوش مولوی کے قول وفعل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لوگ جس قدر ڈرتے اورخوف زدہ خلفاء راشدین کو مسلمانوں کی صلاح وفلاح کا خیال سب سےزیادہ تھا وہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اجراء احکام شرع کے سب سے زیادہ خواہاں تھے لیکن ملک گیری کانصب العین نہ تھا۔ خلفائے راشدین ملکوں کے محاصل اورمالِ غنیمت کی آمدنی کو خزانہ میں ذخیرہ رکھنے کے عادی نہ تھے،جس قدر مال ودولت آتی وہ سب مسلمانوں کو تقسیم کردیتے یا مسلمانوں کی بہتری کے کاموں میں خرچ کردیا کرتے تھے،یہاں تک کہ بیت المال کا تمام خرچ کرکے بیت المال میں جھاڑو دلوادیا کرتے تھے لیکن بعد میں قائم ہونے والی خلافتوں کی حالت اس کے خلاف رہی۔ خلفائے راشدین ہمیشہ خود حج کے لئے جاتے اور وہاں عالمِ اسلام کے ہر حصے اورہر گوشے سے آئے ہوئے مسلمانوں سے ملتے اوراُن کی ضرورتوں اورشکایتوں سے واقف ہوکر وہاں کے عالموں کی قابلیت اور ناقابلیت سے واقف ہوتے،ضروری احکام جاری کرتے اوراس طرھ حج کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے فائدہ اُٹھا کر اپنے فرائض کو پورا کرتے،اگر کسی ضروری کام یا مجبوری کی وجہ سے خود حج کے لئے نہ جاسکتے تو اپنا قائم مقام بھیج کر اُن ضرورتوں کو پورا کرلیتے تھے،لیکن خلافتِ راشدہ کے بعد حج کے اجتماع عظیم سے خلفاء نے یہ فائدہ اُٹھانا ترک کردیا۔ خلفائے راشدین دار الخلافہ میں خود ہی نمازوں کی امامت کرتے اورجمعہ کا خطبہ بیان فرماتے تھے لیکن بعد میں صرف خلافت بنو امیہ کے اندر یہ رسم باقی رہی،اُن کے علاوہ باقی خلافتوں میں خلفاء نے نمازوں کی امامت اورجمعہ کے خُطبے دوسرے کے ذمے ڈال دئیے۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر الگ الگ مذہبی فرقے اورجماعتیں قائم نہ تھیں،آپس میں اختلاف بھی ہوتا تھا لیکن دین و ملت اورعقائد کے معاملے میں اس گروہ بندی کا نام ونشان بھی نہ تھا جو بعد میں پائی گئیں اورآج شیعہ،سُنی ،وہابی،حنفی،شافعی،قادری،چشتی وغیرہ سینکڑوں فرقے اپنی الگ الگ حیثیتیں قائم رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں مذہب اور شریعت کے مقابلے میں کسی رشتہ داری،قومیت،ہم وطنی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہ تھی،اُن کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھائی بھائی کی پرواہ نہیں کرتا،باپ بیٹے کی رعایت ضروری نہیں سمجھتا جبکہ دین وملت کا معاملہ درمیان میں آجائے،ہرشخص کو رائے کی آزادی حاصل تھی،خلیفہ کو سرِ منبر معمولی طبقہ کا آدمی روک اورٹوک سکتا تھا ،بعد میں رائے کی یہ آزادی اوردین و ملت کی یہ پاس داری کم ہوگئی تھی۔ خلفائے راشدین اپنے آپ کو مسلمانوں کا بادشاہ نہیں سمجھتے تھے ؛بلکہ وہ اپنے آپ کومسلمانوں کا خادم سمجھ کر اُن کی خدمت کرتے اور مسلمانوں کا چرواہا اورچوکیدار سمجھ کر اُن کی پاسبانی کرتے اور ہوتے ہیں،خلفاء راشدین کے قول وفعل پر اگر ذرا بھی شبہ ہوتا تھا تو لوگ آزادانہ اعتراض اورنکتہ چینی کرتے تھے۔ تاریخِ اسلام کی اس پہلی جلد میں خلافت راشدہ کی مختصر ومجمل تاریخ بیان ہوچکی ہے،اس پہلی جلد میں اکثر صحابہ کرامؓ کے نام واقعات کے سلسلہ میں بیان ہوئے ہیں، اُن ناموں کی برکت سے امید ہے کہ اس جلد کا مطالعہ قارئیں کرام کے لئے ضرور مبارک ہوگا،صحابہ کرامؓ میں دس صحابی جن کو عشرہ مبشرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،زیادہ معزز ومکرم ہیں، یہ وہ دس بزرگ ہیں جنہوں نے اپنے اعمال حسنہ کی بدولت اس دنیا ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے اپنے جنتی ہونے کی بشارت سُن لی، اُن بزرگوں میں سے حضرت ابوبکرؓ صدیقؓ،حضرت عمر فاروقؓ ،حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت زبیرؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ،نو بزرگوں کا ذکر تھوڑا یا بہت اس جلد میں بیان ہوچکا ہے اور قارئین کرام ان سے ضرور واقف ہوگئے ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے صرف ایک بزرگ یعنی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے متعلق چند سطریں مناسب معلوم ہوتی ہیں۔