انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مکہ میں حضرت اُم المومنینؓ کی تیاریاں جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے ،حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بعد ادائے حج مدینہ کو واپس آرہی تھیں کہ راستہ میں مقام سرف میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کا حال سُن کر مکہ کو واپس لوٹ گئیں،اس خبر کے ساتھ ہی آپ کو یہ خبر بھی معلوم ہوگئی تھی کہ حضرت علیؓ کے ہاتھ پر لوگوں نے مدینہ میں بیعت کرلی ہے، جب آپ مکہ میں واپس تشریف لے آئیں تو آپ کی اس طرح واپسی کا حال سُن کر لوگ آپ کی سواری کے ارد گرد جمع ہوگئے،آپ نے اس مجمع کے روبرو فرمایا کہ واللہ عثمانؓ مظلوم مارے گئے، میں ان کے خون کا بدلہ لوں گی،افسوس ہے کہ اطراف وجوانب کے شہروں اورجنگلوں سے آئے ہوئے لوگوں اورمدینہ کے غلاموں نے مل کر بلوہ کیا اور عثمانؓ کی مخالفت اس لئے کی کہ اس نے نوعمروں کو عامل مقرر کیا تھا؛حالانکہ اسکے پیش رووں نے بھی ایسا کیا تھا،یہ بلوائی جب اپنے دعوے پر دلیل نہ لاسکے تو عثمانؓ کی عداوت پر کمر بستہ اور بد عہدی پر آمادہ ہوگئے،جس خون کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تھا،اُس کو بہایا اورجس شہر کو خدائے تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دارِ ہجرت بنایا تھا وہاں خوں ریزی کی اور جس مہینے مین خوں ریزی ممنوع تھی اس مہینے میں خوں ریزی کی اور جس مال کا لینا جائز نہ تھا اس کو لوٹ لیا ،واللہ عثمانؓ کی ایک انگلی بلوائیوں جیسے تمام جہان سے افضل ہے جس وجہ سے یہ لوگ عثمانؓ کے دشمن ہوئے تھے عثمانؓ اس سے پاک وصاف ہوچکا تھا۔ مکہ میں حضرت عثمان غنیؓ کی جانب سے عبداللہ بن عامر حضرمی عامل تھے،انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی یہ تقریر سن کر کہا کہ سب سے پہلے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے والا میں ہوں۔ یہ سنتےہی تمام بنو امیہ جو بعد شہادت عثمان غنیؓ ابھی مکہ میں پہنچے تھے،بول اُٹھے ہم سب آپ کے شریک ہیں،انہیں میں سعید بن العاصی اورولید بن عقبہ وغیرہ بھی شامل تھے،عبداللہ بن عامر بصرہ سے معزول ہوکر مکہ ہی کی جانب آئے یعلی بن منبہ یمن سے آئے اور چھ سو اونٹ اور چھ لاکھ دینار لے کر آئے اور مکہ ہی کی جانب آئے،اور یہ تجویز یں ہونے لگیں کہ خونِ عثمانؓ کا معاوضہ لیا جائے۔حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ جب مدینہ سے روانہ ہوکر مکہ میں پہنچے تو حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے اُن دونوں کو بُلواکر دریافت کیا کہ تم لوگ کس طرح تشریف لائے ہو،دونوں صاحبوں نے جواب دیا کہ مدینہ کے نیک اور شریف لوگوں پر اعراب اوربلوائی مستولی ہوگئے ہیں،انہیں کے خوف سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ پھر تو تم کو ہمارے ساتھ اُن کی طرف خروج کرنا چاہئے، دونوں صاحبوں نے آمادگی ورضا مندی کا اظہار کیا اہل مکہ سب حضرت ام المومنینؓ کے تابع فرمان تھے، عبداللہ بن عامر سابق گور نر بصرہ،یعلی بن منبہ گورنر یمن،حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، یہ چار شخص ام المومنین کے لشکر میں سردار اور صاحبِ حل و عقد سمجھے جاتے تھے،اول کسی نے یہ مشورہ دیا کہ مکہ سے روانہ ہوکر اور مدینہ سے کترا کر ہم کو شام کے ملک میں جانا چاہئے، اس پر عبداللہ بن عامر نے کہا کہ ملکِ شام میں امیر معاویہؓ موجود ہیں اوروہ ملک شام کو سنبھالے رکھنے کی کافی طاقت واہلیت رکھتے ہیں،مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بصرہ کی جانب چلیں،وہاں میرے دوستوں اورہمدردوں کی بھی ایک بھاری تعداد ضرور موجود ہے،میں وہاں اب تک عاملانہ حیثیت سے رہا ہوں، نیز اہل بصرہ کا رجحانِ طبع حضرت طلحہؓ کی جانب زیادہ ہے،لہذا بصرہ میں ہم کو یقیناً کامیابی حاصل ہوگی اوراس طرح ایک زبردست صوبہ اوربہت بڑی جمعیت ہمارے ہاتھ آجائے گی، کسی شخص نے کہا کہ ہم کو مکہ ہی میں رہ کر کیوں نہ مقابلہ کرنا چاہئیے، اس کے جواب میں عبداللہ بن عامر نے کہا مکہ والوں کو ضرور ہم خیال بناچکے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اگر وہ لوگ جو مدینہ میں موجود ہ ہیں حملہ آورہوں تو ان کا حملہ سنبھال سکیں، اورخون عثمانؓ کے مطالبہ طاقت پیدا کرسکیں۔ غرض اس رائے کو سب نے پسند کیا اور بصرہ کی تیاریاں ہونے لگیں اس کے بعد سب کی یہ رائے ہوئی کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ مکہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں ان کو بھی شریک کرو بلکہ انہیں کو اپنا سردار بناؤ؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بلوائے گئے اوران کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ قاتلین عثمانؓ پر خروج کریں،حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا کہ ہم مدینہ والوں کے ساتھ ہیں جو وہ کریں گے،یہ جواب سُن کر پھر اُن سے کسی نے اصرار نہیں کیا، حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سوا باقی امہات المومنینؓ بھی حضرت عائشہؓ کے ساتھ مکہ میں تشریف لائی ہوئی تھیں،انہوں نے جب یہ سُنا کہ حضرت عائشہؓ بصرہ کا قصد رکھتی ہیں تو انہوں نے بھی حضرت عائشہؓ کا ساتھ دینے اور اُن کے ہمراہ رہنے کا ارادہ کیا، انہیں میں حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ بھی تھیں، اُن کو اُن کے بھائی عبداللہ بن عمرؓ نے بصرہ کی طرف جانے سے منع کیا اور وہ رُک گئیں، مغیرہ بن شعبہ بھی مکہ پہنچ گئے تھے ،وہ بھی اس لشکرکے ہمراہ ہولئے۔