انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** واقعہ شہادت پر ایک نظر درحقیقت حضرت حسینؓ کا واقعہ شہادت بھی منجملہ ان واقعات کے ہے جس میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں نے بڑی افراط و تفریط سے کام لیا ہے، بعض اسے اتنا گھٹاتے ہیں کہ خام بدہن حضرت حسینؓ کو حکومت کا باغی قرار دے کر آپ کے قتل کو جائز ٹھہراتے ہیں اوربعض اتنا بڑھاتے ہیں کہ اس کا اندرونی سلسلہ تکمیل نبوت سے ملادیتے ہیں، خود اہلسنت کے اکابر علما نے اس میں بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں ؛چنانچہ بعضوں نے واقعہ شہادت اور تکمیل نبوت میں اس طرح ایک مخفی رشتہ قائم کیا ہے کہ خدائے تعالی نے تمام انبیاء کے انفرادی فضائل ذات پاک محمدیﷺ میں جمع کردیئے تھے اورآپ کی ذات گرامی حسن یوسف،دم عیسیٰ ید بیضاداری کی حامل اورآنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری کی مصداق تھی خدا کی راہ میں شہادت بھی ایک بہت بڑی فضیلت ہے، جس سے اس نے اپنے بہت سے محبوب انبیاء کو نوازا ؛لیکن چونکہ ذات محمدی ان سب سے اعلی وارفع تھی اور امت کے ہاتھوں شہادت آپ کے مرتبہ نبوت سے فرو تر تھی اس لئے اس منصب کی تکمیل کے لئے آپ کے نواسہ کو جو گویا آپ کے جسد اطہر کا ایک ٹکڑا تھے ،انتخاب فرمایا،اس طرح سے آپ کی جامعیت کبریٰ میں جو خفیف سا نقص باقی رہ گیا تھا اس کی تکمیل ہوگئی۔ خو ش اعتقادی کا اقتضا یہ ہے کہ ان بزرگوں کے خیالات کو عقیدت کے دل سے قبول کرلیا جائے،لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس قسم کی خیالات کی حیثیت شاعرانہ نکتہ آفرینی اورخوش خیالی سے زیادہ نہیں ہے،کیونکہ نبوت کی تکمیل کیلئے کسی بیرونی جزو کی ضرورت نہیں ،نبوت خود ایسا جامع اور کامل وصف ہے جو اپنی تکمیل کیلئے کسی بیرونی سہارے کا محتاج نہیں،ہزاروں انبیاء ورسل دنیا میں آئے؛ لیکن کیا ان میں سے سب خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے اورجن کو یہ منصب نہیں ملا ان کی نبوت ناقص رہ گئی؟ غالبا ًاسے کوئی صاحب مذہب بھی تسلیم نہ کرے، پھر ذات پاک محمدیﷺ تو خود قصر نبوت کی آخری تکمیل اینٹ تھی جس کے بعد کسی کمال کی حاجت نہیں اور سورہ فتح اور سورۂ مائدہ نے اس تکمیل پر تصدیقی مہر کردی تھی اور اگر بالفرض تکمیل نبوت کے لئے کسی درجہ پر شہادت کی ضرورت تسلیم بھی کرلی جائے (اگرچہ اس کی مذہبی سند نہیں ہے) تو غزوہ احد میں سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی شہادت پر اس کی تکمیل ہوچکی تھی اور چچا کی شہادت کے بعد نواسہ کی شہادت کا انتظار باقی نہ رہ گیا تھا، پھر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ شہادت گو مرتبہ نبوت سے فرو تر ہے ،لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں تکمیل فرض نبوت کے خاطر کیا کیا مصائب نہیں برداشت کئے ہر طرح کی سختیاں سہیں، دشمنوں کی گستاخیاں برداشت کیں گلوئے مبارک میں پھندا ڈالا گیا، راستہ میں کانٹے بچھائے گئے،پشت مبارک پر نجاستوں کے انبار لادے گئے، سنگباری سے جسم مبارک سے خون کے فوارے چھوٹے،دندان مبارک شہید کیا گیا، گھر سے بے گھر ہوئے ،جان تک لینے کی تیاریاں کی گئیں کیا میزان آزمائش میں شہادت کے مقابلہ میں یہ قربانیاں ہلکی رہیں گی۔ ہرگز نہیں ایک مرتبہ جان دے دینا تو پھر بھی آسان ہے لیکن مسلسل مشق ستم بنا رہنا اس سے بہت دشوار ہے، اس کے علاوہ اگر مذہبی حیثیت سے اس قسم کی خیال آرائیوں پر غور کیا جائے تو ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی اس کی تائید میں کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی تو نہیں مل سکتی اوربغیر حدیث کی شہادت کے اسے کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا، مذہب اسلام میں بہت سی گمراہیاں اسی منصب نبوت کے ساتھ افراط و تفریط کرنے سے ہوئی ہیں، اس لئے اس قسم کے تخیلات سے محض شاعرانہ نکتہ کی حیثیت سے لطف لیا جاسکتا ہے،لیکن اسے اعتقاد نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس شہادت کی حیثیت کیا تھی؟ کیا حضرت حسینؓ محض حصول خلافت کے لئے کوفہ گئے مگر اس میں ناکام رہے اور قتل کردیئے گئے یا اس کے اندر کوئی اور راز مضمر تھا، اگر پہلی صورت مان لی جائے تو پھر حسینؓ کی شہادت اور عام حوصلہ مندوں کی قسمت آزمائی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اس کے جواب کے لئے یزید کی ولیعہدی سے لیکر واقعہ شہادت تک کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے کہ یزید کی ولیعہدی کی مذہبی حیثیت کیا تھی اور کن حالات میں مسلمانوں نے اسے ولیعہد تسلیم کیا تھا؟ اوراس کے ہمعصروں میں اس منصب کے لئے اس سے زیادہ اہل اشخاص موجود تھے یا نہیں؟ اورخلافت کے بعد اس کا طرز حکومت کیسا تھا؟ امیر معاویہؓ نے جس طرح یزید کو ولیعہد بنایا تھا اس کی تفصیل اوپر ان کے حالات میں گذر چکی ہے، گو اس بارہ میں روایات مختلف ہیں تاہم اتنا قدر مشترک ہے کہ مدینہ کے ارباب رائے صحابہؓ نے خوشی سے امیر کی یہ بدعت نہیں تسلیم کی اور عبداللہ بن زبیرؓ، عبدالرحمن بن ابی بکر، حسینؓ اوردوسرے نوجوانون نے علی الامکان اس کی مخالفت کی تھی، ابن زبیرؓ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم خلافت کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ اورخلفائے راشدینؓ کے طریقہ کے علاوہ اورکوئی نیا طریقہ نہیں قبول کرسکتے، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے اس سے بھی زیادہ تلخ لیکن صحیح جواب دیا، مروان نے جب مدینہ میں یزید کی ولیعہدی کا مسئلہ پیش کیا تو کہا امیر المومنین معاویہ چاہتے ہیں کہ ابو بکرؓ وعمرؓ کی سنت کے مطابق اپنے لڑکے یزید کو خلیفہ بنا جائیں، عبدالرحمن نے جواب دیا یہ ابوبکر و عمرؓ کی سنت نہیں ہے؛بلکہ کسریٰ وقیصر کی ہے ،ابو بکرؓ و عمرؓ نے اپنی اولاد کو اپنا جانشین نہیں کیا ؛بلکہ اپنے خاندان میں سے بھی کسی کو نہیں بنایا، لیکن چونکہ عہد نبوت کے بُعد کی وجہ سے بڑی حد تک حریت و آزادی کا خاتمہ ہوچکا تھا، اس لئے کچھ لوگوں نے امیر معاویہ کے دبدبۂ وشکوہ سے مرعوب ہوکر کچھ لوگوں نے مال وزر کے مطع میں اوربعضوں نے محض اختلاف امت کے خطرہ سے بچنے کے لئے یزید کو ولیعہد مان لیا، جو لوگ مخالفت تھے انہوں نے بھی جان کے خوف سے خاموشی اختیار کرلی، بہرحال کسی نے خو شدلی کے ساتھ یزید کو ولیعہد نہیں تسلیم کیا، ابن زبیرؓ،حسینؓ، عبدالرحمنؓ، گو خاموش ہوگئے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی ولیعہدی تسلیم نہیں کی تھی، امیر معاویہ نے ان سے یہاں تک کہا کہ تم لوگ یزید کو محض خلیفہ کا نام دیدو، باقی عمال کا عزل ونصب، خراج کی تحصیل وصول اوراس کا مصرف سب تمہارے ہاتھوں میں رہے گا، لیکن اس قیمت پر بھی انہوں نے آمادگی ظاہر نہ کی، ان کے انکار پر امیر معاویہ بھی مصلحت وقت کے خیال سے خاموش ہوگئے ۔ یہ یزید کی ولیعہد کی صورت تھی اس کے علاوہ اگر اس حیثت سے دیکھا جائے کہ اس وقت یزید سے بہترا شخاص اس منصب کے لئےموجود تھے تو یزید کی ولیعہدی اورزیادہ قابل اعتراض ہوجاتی ہے کیونکہ مذکورہ با لاتینوں بزرگوں میں سے ہر ایک یزید کے مقابلہ میں زیادہ اہل تھا ،اکابر صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اوربعض دوسرے بزرگ موجود تھے، جن کے ہوتے ہوئے یزید کا نام کسی طرح نہیں لیا جاسکتا تھا،لیکن امیر معاویہؓ نے ان تمام شخصیتوں سے قطع نظر کرکے یزید کو ولیعہد بنادیا، اس کے بعد جب یزید خلیفہ ہوا تو بھی اس نے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت نہیں کیا ،بجائے اس کے کہ وہ ان بزرگوں کے مشورہ سے نظام حکومت چلاتا یا کم از کم امیر معاویہ کی طرح نرم پالیسی رکھتا، اس نے تخت خلافت پر قدم رکھتے ہی استبدادشروع کردیا اورعمائد مکہ سے بیعت لینے کے احکام جاری کئے ،ایسی صورت میں حضرت حسینؓ یا اس نامنصفانہ حکم کو مان لیتے اور یزید کی غیر شرعی بیعت کو قبول کرکے تاریخ اسلام میں ظلم نا انصافی کے سامنے سپر ڈالنے کی مثال قائم کرتے یا اس کے خلاف آواز بلند کرکے استبداد کے خلاف عملی جہاد کا سبق دیتے ،ان دونوں صورتوں میں آپ نے دوسری صورت اختیار کی اوراس حکومت کے خلاف اٹھ کر غیر شرعی طریق پر قائم ہوئی تھی اورجس نے بہت سی اسلامی روایات کو پامال کررکھا تھا،مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے حریت وآزادی کا سبق دیدیا جس کا ثبوت خود حضرت حسینؓ اورآپ کے دعاۃ کی تقریروں سے ملتا ہے؛چنانچہ مسلم بن عقیل پر جب ابن زیاد نے یہ فرد جرم قائم کیا کہ لوگ متحد الخیال تھے ایک زبان تھے تم انہیں پراگندہ کرنے ان میں پھوت ڈلوانے اوران کو آپس میں لڑانے کے لئے آئے، تو مسلم نے اس کا یہ جواب دیا: كلا لست أتيت ولكن أهل المصر زعموا أن أباك قتل خيارهم وسفك دماءهم وعمل فيهم أعمال كسرى وقيصر فأتيناهم لنأمر بالعدل وندعو إلى حكم الكتاب (تاریخ الطبری،باب ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین:۳/۲۹۱،شاملۃ۳۸) ہرگز نہیں میں خود سے نہیں آیا ؛بلکہ شہر (کوفہ)والوں کا خیال تھا کہ تمہارے باپ نے ان کے بھلے آدمیوں کو قتل کیا،ان کا خون بہایا اوران میں کسریٰ وقیصر کا ساطرز عمل اختیار کیا اس لئے ہم ان کے پاس آئے تاکہ ہم لوگوں کو انصاف کا حکم اورکتاب اللہ کے حکم کی دعوت دیں۔ قال أبو مخنف عن عقبة بن أبي العيزار إن الحسين خطب أصحابه وأصحاب الحر بالبيضة فحمد الله وأثنى عليه ثم قال أيها الناس إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرم الله ناكثا لعهد الله مخالفا لسنة رسول الله يعمل في عباد الله بالإثم والعدوان فلم يغير عليه بفعل ولا قول كان حقا على الله أن يدخله مدخله ألا وإن هؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان وتركوا طاعة الرحمن وأظهروا الفساد وعطلوا الحدود واستأثروا بالفيء وأحلوا حرام الله وحرموا حلاله وأنا أحق من غير قد أتتني كتبكم وقدمت علي رسلكم ببيعتكم أنكم لا تسلموني ولا تخذلوني فإن تممتم على بيعتكم تصيبوا رشدكم فأنا الحسين بن علي وابن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم نفسي مع أنفسكم وأهلي مع أهليكم فلكم في أسوة وإن لم تفعلوا ونقضتم عهدكم وخلعتم بيعتي من أعناقكم فلعمري ما هي لكم بنكر لقد فعلتموها بأبي وأخي وابن عمي مسلم والمغرور من اغتر بكم فحظكم أخطأتم ونصيبكم ضيعتم ومن نكث فإنما ينكث على نفسه وسيغني الله عنكم والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته ۔ (تاریخ الطبری،باب ذکر الخبر عماکان فیھا من:۳/۳۰۶،شاملۃ:۳۸) ابو مخنف عقبہ بن ابی العیزار سے روایت کرتے ہیں کہ مقام بیضہ میں حسینؓ نے اپنے اور حر کے ساتھیوں کے سامنے خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد کہا کہ لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرتا ہے خدا کے عہد کو توڑتا ہے سنت رسول کی مخالفت کرتا ہے خدا کے بندوں میں گناہ اورزیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والے کو اس پر عملا یا قولا غیرت نہ آئی تو خدا کو یہ حق ہے کہ اس بادشاہ کی جگہ اس دیکھنے والے کو دوزخ میں داخل کردے میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ ان لوگوں (بنی امیہ) نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اوررحمن کی اطاعت چھوڑدی ہے، خدا کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلا رکھا ہے حدود اللہ کو بیکار کردیا ہے ،مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں،خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اوراس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے اس لئے مجھے ان باتوں پر غیرت آنے کا زیادہ حق ہے، میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے ،بیعت کا پیام لے کر تمہارے قاصد آئے،انہوں نے کہا کہ تم مجھے دشمنوں کے حوالہ نہ کرو گے اوربے یارومددگار نہ چھوڑوگے پس اگر تم اپنی بیعت کے حقوق پورے کرو گے تو ہدایت پاؤ گے میں حسینؓ علی ؓ ابن ابی طالب اور فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کا بیٹا ہوں میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اورمیرے اہلبیت تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں تمہارے لئے میری ذات نمونہ ہے اب اگر تم اپنے فرائض پورے نہ کروگے اوراپنا عہد وپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے میری بیعت کا حلقہ اتاروگے تو خدا کی قسم تم سے یہ بھی بعید نہیں، تم میرے باپ بھائی اور میرے ابن عم مسلم کے ساتھ ایسا کرچکے ہو،وہ فریب خوردہ ہے،جو تمہارے فریب میں آگیا تم نے نقص عہد کرکے اپنا حصہ ضائع کردیا جو شخص عہد توڑ تا ہے اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے اورعنقریب خدا مجھ کو تمہاری امداد سے بے نیاز کردیگا ،والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ۔ اس تقریر سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ یزید کے مقابلہ میں حضرت حسینؓ کا آنا محض حصول خلافت کے لئے نہ تھا؛بلکہ اس کا مقصد اسلامی خلافت کا احیا تھا، یعنی موروثی حکومت کے اثر سے اس کے نظام میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کو دور کرکے پھر خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی جائے اس کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ حضرت حسینؓ نے خود اس کی خواہش نہیں کی ؛بلکہ جب اہل عراق نے پیہم خطوط سے آپ کو اس کا یقین دلادیا کہ ان کے لئے یزید کی حکومت ناقابل برداشت ہے،اس وقت آپ نے کوفہ کا قصد فرمایا، اسی لئے آپ کے تشریف لانے کے بعد جب عراقیوں نے دھوکا دیدیا تو آپ واپس جانے پر آمادہ ہوگئے اور فرمایا کہ تم نے اپنی شکایات کی بنا پر مجھے بلایا تھا، اب جب کہ تم اسے پسند نہیں کرتے تو مجھے بھی اس کی خواہش نہیں ہے میں جہاں سے آیا ہوں واپس چلا جاؤں گا۔ درحقیقت حضرت امام حسین ؓ کے دعویٰ خلافت اور شہادت کے بارہ میں افراط و تفریط سے پاک صحیح مسلک یہ ہے کہ نہ آپ شیعی عقیدہ کے مطابق خلیفہ برحق تھے اور نہ خوارج کے عقیدہ کے مطابق نعوذ باللہ باغی جس کا قتل روا ہو ؛بلکہ آپ کوفیوں کی دعوت پر ایک نیک مقصد تجدید خلافت کے لئے اٹھے تھے اوراس کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔