انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
پوسٹ مارٹم کا حکم اسلام نے انسانی تکریم کے تحت مردہ کے لئے بھی اسی طرح کا احترام واجب قرار دیا ہے، جیسے زندہ کے لئے؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا۔ (سنن ابوداؤد، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب فِي الْحَفَّارِ يَجِدُ الْعَظْمَ هَلْ يَتَنَكَّبُ ذَلِكَ الْمَكَانَ،حدیث نمبر:۲۷۹۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ مردہ کی ہڈی کوتوڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔ لیکن جیسے ضرورت کی بناء پرزندگی میں انسان کا آپریشن کرنا جائز ہے؛ اسی طرح ضرورت کے موقع پرمردہ کے جسم کا آپریشن بھی درست ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہو اور بچہ میں ابھی زندگی کے آثار موجود ہوں توپیٹ چیر کر بچہ کونکالا جائے گا۔ بعض دفعہ جرم کی تحقیق، اس کی نوعیت اور مجرم کی شناخت کے لئے پوسٹ مارٹم کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے مواقع پربہ قدرِ ضرورت پوسٹ مارٹم کی گنجائش ہے؛ لیکن جہاں موت کا سبب معلوم ہو، مجرم کواقرار ہو اور پوسٹ مارٹم مقدمہ کوحل کرنے میں معاون نہ ہو؛ خود میت کے ورثاء کی طرف سے بھی اس کا مطالبہ نہ ہو اور ان ورثاء کا اپنا کردار اس جرم کے سلسلہ میں مشکوک ومبہم نہ ہو توایسی صورت میں پوسٹ مارٹم درست نہیں؛ آج کل صورتحال یہ ہے کہ ہرحادثاتی موت میں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے؛ حالانکہ ہلاکت کے اسباب بالکل واضح ہوتے ہیں، جیسے: گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ میں اور سانپ کاٹنے سے ہونے والی موت میں، یہ فضول عمل ہے اور اس سے بلاوجہ مردہ کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ان مواقع پرپوسٹ مارٹم کرنا جائز نہیں۔ پھرجن صورتوں میں پوسٹ مارٹم کی اجازت ہے ان میں بھی ضروری ہے کہ حتی المقدور انسانی احترام کے پہلو کوملحوظ رکھا جائے؛ خواہ مخواہ بے ستری نہ ہو اور غیرمتعلق اعضاء کی رعایت کے ساتھ مخصوص مواقع پرجیسا کہ اوپر ذکر ہوا، پوسٹ مارٹم کی گنجائش ہے اور یہ نہ صرف اسلامی نقطۂ نظر ہے؛ بلکہ ایک عام انسانی مسئلہ ہے، اس لئے حکومت کواس سلسلہ میں متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۲۵۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)