انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا سے رخصت ہوئے تو صغار صحابہ رضی اللہ عنہم کو مرکزیت حاصل ہوئی، حضرت انس رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی جانب امت کا رجوع ہوا، ان میں بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ امتیازی خصوصیات کے حامل ہوئے، علامہ ذہبی رضی اللہ عنہ رقمطراز ہیں: جب کبارِ صحابہ رخصت ہوگئے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر ؓ کو فتوی میں مقام صدارت حاصل ہوگئی، اس میدان میں ان کا کوئی مقابل نہ تھا۔ ( سیر اعلام النبلاء ۳/۲۲۲) ابن عمر رضی اللہ عنہ بحیثیت فقیہ ومفتی جب کوئی شخص مسلسل کسی کام میں مصروف رہے، اور عرصۂ دراز تک تجربہ بھی حاصل ہوتو اس شخص کو اس فن میں گہری بصیرت حاصل ہوجاتی ہے، یہی حال ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فقہ وفتاوی میں تھا، آپ کو فتوی میں ایسی مناسبتِ تامّہ حاصل تھی کہ فتوی میں آپ کا کوئی مثیل ومقابل نہ تھأ، امام مالک رحمہ اللہ (متوفی۱۷۹ھ) فر ماتے ہیں: "کَانَ اِمَامَ النَّاسِ عِنْدَنَا بَعْدَ زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ عَبْدُ اللہِ بْنَ عُمَرَ مَکَثَ سِتِّیْنَ سَنَۃً یُفْتِی النَّاسَ" "زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بعد ہمارے نزدیک لوگوں کے امام عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں، آپ رضی اللہ عنہ ساٹھ سال تک لوگوں کو فتوی دیتے رہے"۔ (سیر اعلام النبلاء ۳/۲۲۱) نیز ابن شہاب زھری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی برابری نہ کرو؛ کیونکہ حضورﷺ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ ساٹھ برس تک فتوی دیتے رہے؛ اسی لیے آپ رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی معاملہ مخفی نہ رہا، اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کاکوئی معاملہ ان سے پوشیدہ رہا (تذکرہ الحفاظ: ۱/۳۹) نیز ابن حزم اندلسی (متوفی ۴۵۶ھ) نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی فہرست پیش کی ہے، جن سے کثرت سے فتاوی مروی ہیں، ان میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی شمار کیا ہے (جوامع السیرۃ:۱/ ۳۲۵) میمون بن مہران جو خود بھی بڑے عالم ہیں، ان کے سامنے کبھی ابن عباسؓ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا جاتا تو وہ کہتے: "مَارَأَیْتُ أَفْقَہَ مِنْ ابنِ عُمَرَ"۔ (اعلام الموقعین:۱/۱۸) کہ میں نے ابن عمر سے بڑا کوئی فقیہ نہ دیکھا ۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں مذکور ہے: "مَنْ عَرَفَ بِالرَّأْیِ وَالْاِجْتِہَادِ، وَالضَّبْطِ وَالْفِقْہِ کَالْخُلَفَاءِ الْاَرْبَعَۃِ الرَّاشِدِیْنَ وَالْعَبَادَلَۃِ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ"۔ (اثر علل الحدیث فی اختلاف الفقہاء: ۵/۳۳) جوصحابہ کرامؓ رائے اور اجتہاد اور ضبط حدیث اور فقہ کے عنوان سے مشہور ومعروف ہوئے، وہ خلفاء اربعہ ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔ بیشتر سوانح نگاروں نے جہاں ابن عمرؓ کا تذکرہ کیا ہے وہیں انہیں فقیہ بھی قرار دیا ہے؛ گویا فقہ ان کے لیے جز ء لا ینفک تھی، فقہ سے ان کی گہری مناسبت ہی انہیں راس الفقہاء کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ پر والدؓ کا اثر جس ماحول جس معاشرہ میں انسان کی پرورش ہوتی ہے اس پر اس کے نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں، انسان طبعی طور پر اپنے اطراف وجوانب کے حالات قبول کرنے پر مضطرہے، فطری استعداد کے بروئے کار آنے میں تربیت وماحول کا بھی دخل ہے؛ چونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی پرورش اور نشوو نماحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ماتحت ہوئی جو بیک وقت خلیفہ ٔ راشد بھی تھے، فقیہ بھی تھے، قاضی القصاۃ بھی، جو فقہ اسلامی کے روح رواں بھی ہیں، انہیں فقہ اسلامی سے ایسا ربط تھا کہ دیگر تمام فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہ ان کے روبرو گویا بچے ہیں، ان کی شان کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن قیم جوزی (متوفی:۷۵۱ھ) نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے: "لَاأَعْلَمُ اَحَدًا بَعْدَ رَسُوْلِ اللہِﷺ أَعْلَمُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَقَالَ اَیْضًا کَانَ عَبْدُ اللہِ یَقُوْلُ: لَوْسَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا وَشَعْبًا وَسَلَکَ عُمْرُ وَادِیًا وَشَعْبًا، لَسَلَکْتُ وَادِیَ عُمَرَ وَشَعَبَہٗ، وَقَالَ بَعْضُ التَّابِعِیْنَ، دَفَعْتُ إِلیٰ عُمَرَ فَاِذَا الْفُقَہَاءُ عِنْدَہٗ مِثْلُ الصِّبْیَانِ فَقَدْ اِسْتَعَلَی عَلَیْہِمْ فِیْ فِقْہِہٖ وَعِلْمِہٖ"۔ (اعلام الموقعین: ۱/۲۰) آپﷺ کے بعد عمر بن الخطاب سے بڑا کوئی عالم نہیں جانتا، نیز عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی سعید بن المسیب نقل کرتے تھے، اگر لوگ ایک وادی و گھاٹی کی طرف چلیں اور حضرت عمرؓ دوسری وادی وگھاٹی کی طرف چلیں تو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وادی وگھاٹی کی طرف چلوں گا، بعض تابعین رحمہم اللہ نے فرمایا: ہم نے فقہاء کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روبرو پیش کیا تو فقہاء ان کے سامنے بچے نظر آنے لگے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فقہاء پرعلم وفقہ کی وجہ سے غالب آگئے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی عظیم فقہی شخصیت کے ماتحت ایک عر صۂ دراز گذارا گویا لازمی طور پر آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے فقہی بصارت، نکتہ سنجی، دقتِ نظری، احکام فقہیہ کا استخراج سیکھا؛ اسی لیے بیشتر مسائل میں والد سے متأثربھی نظر آتے ہیں؛ اگر کسی مسئلہ میں والد محترم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کوئی قول مل جاتا تو اس کو عموماً اختیار کرتے؛ اسی لیے بیشتر مسائل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ توافق پایا جاتا ہے؛ نیز چونکہ آپ رضی اللہ عنہ مقلد محض نہ تھے، بلکہ مجتہد مطلق تھے اسی لیے دلائل کی بنیاد پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی قول اختیار کیا ہے (صاحب موسو عہ عبد اللہ ابن عمر نے موافقات عمر ومخالفات عمر کے نام سے ایک طویل فہرست اپنی کتاب میں پیش کی ہے جو قابل مطالعہ ہے)۔ فتوی اور احتیاط ایک فقیہ ومفتی کے لیے بصیرت لازمی چیز ہوا کرتی ہے، اگر بصیرت اور حالات ِ زمانہ کا لحاظ نہ ہو تو بسا اوقات فتوی بجائے اس کے کہ وہ اصلاح وایقاظ کا ذریعہ افساد کا ذریعہ بن جاتا ہے، نیز فتوی میں جسارت ودلیری اور جلد بازی کم علمی وکم مائیگی کی دلیل ہے، نیز آپﷺ کا فر مان ہے: "أَجْرُؤْکُمْ عَلَی الفُتْیَا أَجْرَؤُکُمْ عَلیٰ النَّارِ"۔ (سنن دارمی: ۱/ ۱۸۰) کہ فتوی دینے میں جرأت ودلیری دکھانے والا گویا وہ آگ میں پہونچنے پر جرأ ت کر رہا ہے۔ اسی لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ باوجود یہ کہ وہ عرصۂ دراز سے فقہ وفتاوی کے کام میں مصروف تھے، اپنے فتاوی ومسلک کے بارے میں احتیاط سوچ بچار، دقتِ نظری سے کام لیا کرتے تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب: ۲/۳۴۲) نیز آپ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں مذکور ہے: "وَکَذَالِکَ کَانَ شَدِیْدَ الحَذْرِ وَالتَّحَوُّطِ فِی الْفُتَیَاءِ، جَاءَ ہٗ یَوْمٌ رَجُلٌ یَسْتَفْتِیْہِ، فَلَمَّا أَلْقیٰ عَلیٰ ابْنِ عُمَرَ سَوَالَہٗ أَجَابَہٗ قَائِلاً لَا عِلْمَ لِیْ بِمَا تَسْأَلُ عَنْہٗ …وَکَانَ یَخَافُ أَنْ یَّجْتَہِدَ فِی فُتْیَاہٗ، فَیُخْطِی فِی اِجْتِہَادِہٖ، وَعَلیٰ الرَّغْمِ مِنْ أَنَّہٗ یَحْیَا وِفْق تَعَالِیْمِ الدِّیْنِ الْعَظِیْمِ لِلْمُخْطِی أَجْرٌوَلِلْمُصِیْبِ أَجْرَیْنِ"۔ ( رجال حول الرسول: ۱/۲۱) نیز وہ فتاوی کے سلسلہ میں احتیاط وپرہیز سے کام لیتے، ایک دفعہ ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ سے استفسار کرنے لگا، جب اس نے اپنا سوال پیش کیا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب معلوم نہیں، اسی طرح وہ فتاوی کے تئیں اجتہاد سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں اجتہاد میں غلطی نہ کرجائیں، اس کے باوجود اس امید پر اجتہاد کرتے کہ یہ د ینی تعلیم کا احیاء ہے، اور اجتہاد میں غلطی کرنے والے کے لیے ایک گونہ اجر ہے، اور درست اجتہاد کرنے والے کے لیے دوگناہ اجر ہے۔ ایسی استعداد اور فوقیت ِ علمی کے باوجود بے بضاعتی وکم مائیگی کا ہمیشہ شکوہ کرتے، ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے ابو مجلز سے کہا تم لوگ مجھے لازم پکڑے رہو، اس لیے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ رہا ہوں جو مجھ سے بڑے عالم تھے اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں باقی رہوں گا یہاں تک تم لوگ میرے محتاج ہوگے، تو میں تمہارے لیے علم حاصل کرکے رکھتا، (سیراعلام النبلاء: ۳/۲۳) بسا اوقات آپ رضی اللہ عنہ کا عالم یہ ہوتا کہ آپ دوسروں کے لیے بطور توسع وگنجائش کے جواز کا فتوی دیا کرتے لیکن بذات ِ خود اپنے لیے بدستور ممنوع ہی سمجھتے ۔ استنباط کا طریقہ کسی بھی فقیہ ومجتہد کے لیے استنباط کا طریقۂ کار زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ استدلال کی صف میں کسے مقدم رکھا ہے اور کسے مؤخر کیا ہے؛ اسی کے مطابق احکام شرعیہ کا استخراج ہوگا اور دلیل کی قوت کے مطابق حکم لگایا جاسکے، آپ کے استدلال کا طریقۂ کار بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر رواس رقمطراز ہیں: آپ رضی اللہ عنہ اولا کتا ب اللہ کو دیکھتے؛ پھر سنت کی جانب رجوع کرتے، پھر کبار صحابہ کے اجتہادا ت سے مسئلہ کا جواب اخذ کرتے بشرطیکہ اس جواب پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اتفاق ہو، اگر آراء کا اختلاف ہوتو جس رائے کو حق سمجھتے اسے اختیار کر لیتے (موسوعہ ابن عمرؓ:۴۷) اس طریقۂ کار پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے احکام کے استخراج کے لیے انتہائی محفوظ ومصون طریقہ اختیار کیا تھا، کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع صحابہ، اس کے باوجود اگر حکم تک رسائی نہ ہوسکے تب جاکر قیاس کا سہارا لیتے جو ایک فقیہ کے لیے جدید پیش آمدہ مسائل میں لازمی ہے، استنباط میں آپؓ نے اجماع صحابہ کو اپناکر انہوں نے منکرینِ اجماع عملی رد کیا ہے؛ نیزجب ان کے تلامذہ ان سے اس بابت استفسار کر تے کہ کیا آپ بھی اپنے ساتھیوں کی رائے قبول کرتے ہیں تو جواب دیتے کہ تم مجھے اپنے ساتھیوں سے جدا مت کرو، مجھے ساتھیوں کی اختیار کردہ راہ کے خلاف جاتے ہوئے عار محسوس ہوتی ہے،ابن سعد رحمہ اللہ (متوفی ۲۳۰ھ) نے نقل کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ یہ فر ما یا کرتے تھے: "إِنِّی لَقِیْتُ أَصْحَابِیْ عَلیٰ أَمْرٍوَإِنِّی اَخَافُ إِنْ خَالَفْتُہُمْ خَشْیَۃً اَنْ لَااُلْحَقَ بِہِمْ"۔ (طبقات ابن سعد: ۴/۱۴۴) کہ میں نے اپنے صحابہ کو ایک راہ پر پایا ہے، اور میں خوف کرتا ہوں کہ اگر ان کی مخالفت کروں تو ان کے ساتھ لاحق نہ کیا جاؤں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہادی مسائل ایک فقیہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ نصوص کی روشنی میں حکم شرعی تک پہونچنے کی مقدور بھر کوشش کرے؛ اگر صریح نصوص نہ ملے تو اجتہاد واستنباط کا سہارا لے کر قیاسی طریقہ سے احکام بیان کرے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مجتہدانہ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس میں انہوں نے استنباطی قوت کا سہار الے کر احکام شرعیہ بیان کئے ہیں، ہم اختصار کے پیش نظر ان معدودے چند مسائل کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں تاکہ ان کا اجتہاد واضح انداز میں ظاہر ہوسکے۔ (۱)سورۂ فاتحہ نمازِ جنازہ میں نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھا جائے یا نہیں؟ ابن عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ سورۂ فاتحہ کا نماز جنازہ میں پڑھنا نہ سنت ہے نہ واجب ہے، نہ مستحب۔ (الحاوی فی فقہ الشافعی: ۳/۶۵) ان کے اس موقف کی تائید ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا: کہ آپﷺ نے ہمارے لیے کوئی قرأت نمازِ جنازہ میں مقرر نہیں کی نیزآپؓ کا استدلال یہ تھا کہ یہ نمازِ جنازہ دعاء کے طور پر مشروع ہوئی ہے اور دعاء حمدوثناء سے ہوتی ہے، درود ہوا کرتا ہے؛ اس میں قرأت نہیں ہے ہوتی اور سورۂ فاتحہ پڑھنا تو ازقبیل قرأت ہے اس لیے سورۂ فاتحہ نمازِ جنازہ میں مسنون نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع: ۳/۲۹۷) (۲)باندی سے ظہار اگر کوئی آدمی اپنی باندی سے ظہار کرے تو وہ شخص مظاہر کہلائے گا یا نہیں؟ ابن عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ وہ شخص مظاہرنہیں ہوگا جب وہ مظاہر نہ ہوگا تو اس کے لیے باندی سے ملنے کے لیے کفارۂ ظہار بھی ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی (الحاوی فی فقہ الشافعی: ۱۰/۴۲۶) ان کا استدلال غالبا قرآن کریم کی اس آیت سے تھا: "الَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ مِنْ نِسَائِھِمْ" (المجادلہ:۲) "تم میں جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں وہ اُن کی مائیں نہیں ہیں" (ترجمہ تھانویؒ) ظاہر ہے کہ باندی پر لفظ نساء کا اطلاق معنی حقیقی نہیں ہے؛ نیز مملوکہ باندیاں بیویوں کے درجے میں بھی نہیں ہیں، اس لیے کہ بیویوں کو طلاق کے ذریعہ زوجیت سے خارج کیا جاسکتا ہے، مگر باندیوں میں ایسا نہیں ہے؛ لہٰذا باندی سے ظہار نہیں ہوسکتا، طلاق متعلق ہے اور باندی میں کوئی طلاق وغیرہ نہیں۔ (فتح القدیر: ۹/۱۲۶) (۳)بیع بالشرط کسی چیز کے خریدوفروخت کرتے ہوئے بائع کوئی ایسی شرط لگائے جو عقد کے تقاضے کے منافی ہو، مثلاً باندی کو اس شرط پر فروخت کرے کہ وہ اس سے وطی نہیں کریگا یا اسے اس شہر سے باہر نہیں لے جائیگا تو یہ بیع منعقد ہوگی یا نہیں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیع بھی باطل ہوگی اور شرط بھی باطل؛ خواہ ایک شرط لگائے یااس سے زیادہ، آپؓ کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں آپﷺ نے صحابہؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ بیع میں ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جو قرآن کریم میں نہیں ہے تو چاہے وہ سو شرطیں لگالے وہ باطل ہے اور اللہ کا فیصلہ اور اللہ کی شرط زیادہ قابل اعتماد ہے؛ لہٰذا ولاء اسی شخص کے لیے ہوگا جو غلام یاباندی کو آزاد کرے؛ چونکہ یہ شرطِ مشتری کے تصرف کے لیے مانع ہے اسی لیے بیع بھی باطل ہوگی۔ (مجموع شرح مہذب: ۹/۳۷۷) (۴)تسعیر یعنی قیمت مقرر کرنا عوامی مصلحت کی خاطر بائع من مانی قیمت پر سامان فروخت نہ کرے، اس کے لیے کیا بازاروالوں کے لیے ایک قیمت مقرر کرنا جائز ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس طرح محدود قیمت مقرر کرنا درست نہیں، ان کا استدلال ابوھریرہؓ کی وہ حدیث ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کوئی قیمت مقرر کردیجئے، آپﷺ نے فرمایا: "بَلِ اللہُ یَرْفَعُ وَیَخْفُضُ" اللہ تعالیٰ قیمت کو گھٹاتے اور بڑھاتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملنا چاہتا ہوں کہ میری جانب سے کسی پر کسی درجہ میں بھی ظلم نہ ہو نیز وہ فرماتے تھے کہ لوگوں کو اپنا مال بغیر خوش دلی کے متعینہ قیمت پر فروحت کرنے پر مجبور کرنا ظلم ہے اور اس کے اپنی ملکیت میں تصرف کرنے کے مسب منشاء منافی ہے، آپؓ کے اس موقف کو قوی سمجھتے ہوئے اس کے قائل سالم رحمہ اللہ اور قاسم بن محمد رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ بھی ہیں ۔ (المنتقیٰ: ۳/۴۲۴) (۵)ماکول اللحم جانور کے پیشاب کی نجاست آپ رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ہر قسم کا پیشاب نجس ہے، خواہ وہ انسان کا پیشاب ہو یا جانور کا، خواہ وہ جانورحلال ہو یا حرام، ابومجلزؒ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا میں نے اپنا اونٹ کھڑا کیا تو اس کا پیشاب مجھے لگ گیا آپ رضی اللہ عنہ نے فر مایا: اس کو دھو ڈالو میں نے کہا، میں نے اس پر صرف پانی چھڑک دیا ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فر مایا: اسے دھوؤ۔ (مصنف ابن شیبہ: ۱/۲۰۔ موسوعہ:۲۱۵) ان کا استدلال یہ تھا کہ کہ حدیث میں پیشاب سے بچنے کا حکم ہے اور حدیث عام ہے، نیز لفظ بول کا اطلاق انسان اور جانور دونوں کے پیشاب پر ہوتا ہے اسی لیے جس طرح انسان کا پیشاب نجس ہے اس طرح دیگر جانوروں کا؛ خواہ وہ ماکول اللحم ہی کیوں نہ ہوں، پیشاب بھی نجس ہو گا۔ ( الجامع لاحکام الصلوۃ:۱/۱۸۹) سرقہ کا قیاس زنا پر ایک شخص گودام میں نقب زنی میں مصروف تھا، ابھی سامان وغیرہ لیکر باہر نکلا ہی تھاکہ پکڑا گیا، اس پر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حدِ سرقہ نافذ کرنے کی بات کہی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ اگرزناء کی ابتداء سے قبل کوئی پکڑا جائے تو کیا اس پر حدِ زنا نافذ کی جائیگی ؟ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے نفی میں جواب دیا، اب ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فر مایا: یہاں بھی حدِ سرقہ نافذ نہیں کی جائیگی، ہوسکتا ہے کہ وہ سامان منتقل کرنے سے قبل ہی توبہ کرلے، اور مسروقہ مال چھوڑ کر چلا جائے (مصنف ابن عبد الرزاق: ۲/۱۹۶۔ فقہ ابن عمر:۳۸) یہ سن کر ابن زبیر نے بھی رجوع کرلیا۔ امام مالکؒ نے بھی اسی بات کو اختیار کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ اس شخص سے حدِزنا ساقط ہونے کی طرح حد سرقہ بھی ساقط ہوجائیگی؛ کیونکہ مال ابھی محفوظ مقام پر منتقل نہیں ہوا؛ البتہ اس کی تادیب کی جائیگی۔ (شرح الزرقانی: ۴/۲۰۳) الغرض یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جہاں ابن عمر نے اپنی اجتہادی قوت واستنباطی بصیرت کا استعمال کیا ہے؛ اگر اجتہاد وقیاس ممنوع ہوتا اور شرعا اس کی گنجائش نہ ہوتی تو مزاج رسول سے آشناصحابی بلکہ غالی متبع سنت صحابی سے ایسے منکر کا ظہور کیسے ممکن ہے۔