انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یزید کی ولی عہدی اسی سال یعنی سنہ۵۰ھ میں مغیرہ بن شعبہ کوفہ سے دمشق آگئے اور انھوں نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ مدینہ میں دیکھا ہے اور تمام نظارے میری آنکھوں میں گھوم رہے ہیں کہ خلافت کے متعلق مسلمانوں میں کیسی کیسی ہنگامہ آرائیاں ہوئی ہیں؛ پس میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ آپ اپنے بیٹے یزید کواپنے بعد خلیفہ نامزد فرمادیں؛ اسی میں مسلمانوں کی بہتری اور رفاہیت ہے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کواب تک اس کا خیال بھی نہ گذرا تھا کہ اپنے بیٹے کوخلیفہ بنانے کی تمنا کریں، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ سن کرپہلی مرتبہ ان کی توجہ اس طرح مائل ہوئی؛ انھوں نے مغیرہ سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ لوگ میرے بعد میرے بیٹے کی خلافت کے لیئے بیعت کرلیں، مغیرہ نے کہا کہ یہ بات بڑی آسانی سے ممکن ہے کہ کوفہ والوں کومیں آمادہ کرلونگا، بصرہ والوں کوزیاد بن ابی سفیان مجبور کردیں گے، مکہ ومدینہ میں مروان بن حکم اور سعید بن عاص لوگوں کوہموار کرسکیں گے، ملکِ شام میں کسی قسم کی مخالفت کا امکان ہی نہیں، یہ سن کرامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ کوکوفہ کی جانب واپس بھیجا کہ وہاں جاکر اس کام کوانجام دو؛ اسی واقعہ کوایک دوسری روایت میں اس طرح لکھا ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ حاکم کوفہ کولکھا کہ تم میرا یہ خط پڑھتے ہی اپنے آپ کومعزول سمجھو؛ مگرجب یہ خط مغیرہ کے پاس پہنچا توانھوں نے اس کے تعمیل میں دیر کی، جب وہ امیرمعاویہ کے پاس گئے توانہوں نے تعمیل حکم میں دیر کرنے کی وجہ دریافت کی، مغیرہ نے کہا کہ دیر کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک خاص کام کی تیاری میں مصروف تھا، امیرمعاویہ نے یہ سن کرپوچھا کہ وہ کیا کام تھا؟ مغیرہ نے کہا کہ میں لوگوں سے تمہارے بیٹے یزید کی آئندہ خلافت کے لیے بیعت لے رہا تھا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کرخوش ہوگئے اور انھوں نے مغیرہ کوپھربحال کرکے کوفہ کی جانب روانہ کردیا، جب دمشق سے کوفہ میں واپس آئے توکوفہ والوں نے پوچھا کہ کہیے کیا گذری؟ انھووں نے جواب دیا کہ میں معاویہ کوایک ایسی دلدل میں پھنسا آیا ہوں کہ وہ اس سے قیامت تک نہیں نکل سکتا؛ بہرحال اس میں شک نہیں کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کومغیرہ بن شعبہ ہی نے ایک ایسے کام پرآمادہ کیا جس سے آئندہ مسلمانوں میں باپ کے بعد بیٹا بادشاہ ہونے لگا اور مشورہ وانتخاب کا دستور جاتا رہا، یزید امیرمعاویہ کا بیٹا تھا، باپ کوبیٹے کے ساتھ محبت ہونا اور باپ کا بیٹے کی حکومت وعزت بڑھانے کی کوشش کرنا ایک فطری تقاضا ہے؛ اس لیئے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کچھ نہ کچھ معذور بھی سمجھے جاسکتے ہیں؛ لیکن مغیرہ بن شعبہ کی طرف سے کوئی معذرت پیش نہیں ہوسکتی۔ مغیرہ نے کوفہ میں آکر وہاں کے شرفاء ورؤسا کوبلاکر اس بات پرآمادہ کیا کہ یزید کی ولی عہدی پررضا مند ہوجائیں، جب کوفہ کے بااثر لوگ اس بات پررضامند ہوگئے اور انہوں نے اس بات کوتسلیم کرلیا کہ آئندہ مسلمانوں کوفتنہ وفساد اور خون ریزی سے اسی طرح نجات مل سکتی ہے کہ امیرالمؤمنین اپنے بیٹے کوولی عہد نامزد فرمادیں، تومغیرہ نے اپنے بیٹے موسیٰ کے ہمراہ اکابر کوفہ کا ایک وفد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کیا، ان لوگوں نے دمشق میں حاضر ہوکر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم اس رائے کوپسند کرتے ہیں کہ یزید کی ولی عہدی کے لیئے بیعت لے لی جائے، اس وفد کے آنے سے امیرمعاویہ کے ارادے اور خواہش میں جومغیرہ پیدا کرگئے تھے اور بھی قوت پیدا ہوگئی؛ انھوں نے وفدِ مذکورہ کوعزت کے ساتھ رخصت کیا اور کہا کہ جب وقت آئے گا توتم لوگوں سے بیعت لے لی جائے گی، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بہت دوراندیش اور احتیاط کوکام میں لانے والے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، وہ یہ اندازہ کرنا چاہتے تھے کہ عالمِ اسلام کی کثرتِ آراء ان کی خواہش کے موافق ہے یانہیں؟ اب انھوں نے ایک طرف مروان بن حکم والی مدینہ کودوسری طرف زیاد بن ابی سفیان والی بصرہ کولکھا کہ میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، مجھ کوخوف ہے کہ میرے بعد مسلمانوں میں خلافت کے لیئے فتنہ وفساد برپا نہ ہو، میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں کسی شخص کونامزد کردوں کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو، بوڑھے لوگوں میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا، نوجوانوں میں میرا بیٹا یزید سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے، تم کوچاہیے کہ لوگوں کے ساتھ احتیاط سے اس معاملہ میں مشورہ کرو اور ان کویزید کی آئندہ خلافت کے لیے بیعت کرنے پرآمادہ کرو، زیاد بن ابی سفیان والی بصرہ کے پاس خط پہنچا توانھوں نے بصرہ کے ایک رئیس عبید بن کعب نمیری کوبلاکرامیرمعاویہ کا خط دکھایا اور کہا کہ میرے نزدیک امیرالمؤمنین نے اس معاملہ میں عجلت سے کام لیا ہے اور اچھی طرح غور نہیں فرمایا؛ کیونکہ یزید ایک لہوولعب میں مصروف رہنے والا نوجوان ہے؛ لوگوں کواچھی طرح معلوم ہے کہ وہ سیروشکار میں بہت مشغول رہتا ہے، وہ ضرور اس کی بیعت میں پس وپیش کریں گے، عبید بن کعب نے کہا کہ آپ کوامیرالمؤمنین کی رائے کے خلاف اظہارِ رائے کی ضرورت نہیں، آپ مجھ کودمشق بھیج دیجئے، میں یزید سے جاکرملوں گا اور اس کوسمجھاؤں گا کہ تم اپنی حالت میں اصلاح پیدا کرو؛ تاکہ تمہاری بیعت میں کوئی دقت اور رکاوٹ پیدا نہ ہو، یقین ہے کہ یزید ضرور اس نصیحت کومان لے گا، جب اس کی حالت میں خوشگوار تبدیلی پیدا ہوگی توپھرلوگوں کوبھی بیعت میں کوئی تامل نہ ہوگا اور امیرالمؤمنین کا مقصد پورا ہوجائے گا، زیاد نے اس رائے کوپسند کرکے فوراً عبید کودمشق کی جانب روانہ کردیا، عبید نے یزید کوتمام نشیب وفراز سمجھائے اور یزید نے اپنی حالت میں نمایاں تبدیلی کرکے لوگوں کی زبانوں کوبند کردیا۔ مدینہ منورہ میں جب مروان کے پاس یہ خط پہنچا تواس نے شرفائے مدینہ کوجمع کرکے اوّل صرف اس قدر سنایا کہ امیرالمؤمنین کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مسلمانوں کوفتنہ وفساد سے محفوظ رکھنے کے لیئے کسی شخص کواپنے بعد خلافت کے لیئے نامزد فرمادیں، یہ سن کرسب نے کہا کہ یہ رائے بہت پسندیدہ ہے، ہم سب اس کے موئد ہیں، چند روزکے بعد مروان بن حکم نے پھرلوگوں کوجمع کیا اور سنایا کہ دمشق سے امیرالمؤمنین کا دوسرا خط آیا ہے؛ انھوں نے لکھا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کی بہتری کومدنظر رکھتے ہوئے یزد کوولی عہدی کے لیے منتخب کیا ہے، یہ سن کرعبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم نے سخت مخالفت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ انتخاب مسلمانوں کی بہتری کے لیے نہیں؛ بلکہ بربادی کے لیے کیا گیا ہے؛ کیونکہ اس طرح توخلافتِ اسلامیہ قیصر وکسریٰ کی سلطنت سے مشابہ ہوجائے گی کہ باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہوا کرے یہ انتخاب منشائے اسلام کے خلاف ہے۔ اس جگہ جملہ معترضہ کے طور پراس طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ جب مدینہ منورہ میں مروان بن حکم نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے منشاء کا اعلان کیا ہے توحضرت امام حسن کے انتقال کوچند ہی مہینے گذرے تھے، لوگوں کوعام طور پراس بات کا بھی علم تھا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ سے مصالحت کرتے وقت عبداللہ بن عامر کی کوشش کے موافق امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ معاہدہ صلح میں اس اقرار کواپنی طرف سے درج کرانے پرآمادہ تھے کہ ان کے بعد امام حسن خلیفہ بنائے جائیں؛ لیکن حضرت امام حسن نے یہ بات صلح نامہ میں درج نہیں کرائی؛ لوگوں کا خیال تھا اگرچہ امام حسن علیہ السلام کی آئندہ خلافت کا کوئی تذکرہ عہدنامہ میں نہیں ہوا؛ مگرعالمِ اسلام حضرت امام حسن کی خلافت پرمتفق ہوجائے گا، مروان بن حکم نے مدینہ میں جب پہلی مرتبہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خط کا مضمون سنایا تواکثر کا خیال اسی طرف گیا کہ امام حسن کی وفات کے سبب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ کسی کوخلافت کے لیئے نامزد کردیں؛ کیونکہ جب تک امام حسن زندہ تھے، اس وقت تک وہ امام حسن ہی کونامزد شدہ آئندہ خلیفہ سمجھتے تھے؛ اسی تصور میں ایک طرف حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی پاک طینتی وانصاف پسندی مضمر تھی تودوسری طرف ان لوگوں کے دلوں میں جواپنے آپ کوتختِ خلافت کا مستحق سمجھتے تھے، اُمید کی جھلک پیدا ہوگئی تھی، مروان نے جب دوسری مرتبہ یزید کی نسبت اعلان کیا تووہ دونوں باتیں جوپہلے اعلان سے پیدا ہوئی تھیں؛ یک لخت منہدم ہوگئیں اور حسن علیہ السلام کی وفات کے بعد ہی اس کاروائی کے متعلق قسم قسم کے شبہات پیدا ہونے لگے، بعض لوگوں نے تویہاں تک مضمون آفرینی کی کہ حضر تامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہی نے امام حسن علیہ السلام کوزہر دلوایا تھا، یزید کی ولی عہدی کے ابتدائی اعلان سے پیشتر کسی قسم کا وہم وگمان بھی اس طرح منتقل نہیں ہوا تھا کہ امام حسن کی وفات اور امیرمعاویہ کی کوشش وخواہش میں کوئی تعلق ہے یانہیں؟ اس جگہ قارئین کرام کواس طرف توجہ دلانا مناسب ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن زہرخورانی اور حسن سے قطعاً پاک ہے اور مغیرہ بن شعبہ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کویزید کی ولی عہدی کے متعلق توجہ دلائی تھی، خود ان کوتوپہلے سے کوئی خیال ہی نہ تھا۔ مغیرہ بن شعبہ جس طرح یزید کی ولی عہدی میں محرک تھے؛ اسی طرح وہ اس کام کے سرانجام دلانے کے مہتمم اور سب سے زیادہ کوشش کرنے والے بھی تھے، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اہلِ مدینہ اور اہلِ حجاز کی مخالفت کا حال مروان بن حکم کے خط سے معلوم کرنے کے بعد کچھ خاموش تھے اور سوچ رہے تھے کہ اہل مدینہ کوکس طرح رضامند کیا جائے کہ اتنے میں خبر پہنچی کہ کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ نے وفات پائی، یہ سنہ۵۱ھ کا واقعہ ہے، مغیرہ بن شعبہ کی خبروفات سن کرانھوں نے زیاد بن ابی سفیان کوکوفہ کی حکومت بھی سپرد کردی اور زیاد حاکم عراقین کہلائے۔