انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام ابوحنیفہؒ اور طلبِ حدیث امام ابوحنیفہ کے شوقِ حدیث اور اس کی تلاش وجستجو کا معاملہ اتنا واضح ہے کہ کوئی منصف مزاج شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا؛ کیونکہ جس شخص کوفقہ کا امام اعظم مانا جاتا ہے، اس کوجب تک نصوصِ شرعیہ (قرآن وحدیث) کا استحضار اور ان کا ذخیرہ نہ ہو، اس وقت تک وہ فقہ کا امام یافقیہ کیسے بن سکتا ہے؛ مگرچونکہ حاسدین اور کچھ فتنہ پردازوں نے امام صاحب کے سلسلہ میں ایسے نازیبا اور غیرشائستہ کلمات استعمال کئے ہیں کہ جن کوسن کررونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں، جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوصرف سترہ حدیثیں یاد تھیں، اہلِ کوفہ کی حدیث میں نور نہیں وغیرہ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۹، ظفراحمد عثمانیؒ، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراچی) جس کوسن کر ناواقف لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے ان حضرات کے سامنے حقیقت کوواضح کرنے کے لیے یہ چند سطور لکھے جاتے ہیں۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا طلبِ حدیث کے لیے سفر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فقہ وکلام کے علاوہ محض حدیث پاک کی تعلیم وتحصیل کے لیے سفر کرنے کا ثبوت امام ذہبیؒ (جورجال علم وفن کے احوال وکوائف کی معلومات میں ایک امتیازی شان کے مالک ہیں) نے پیش کیا ہے، وہ اپنی مشہور کتاب اور انتہائی مفید تصنیف "سیراعلام النبلاء" میں امام صاحبؒ کے تذکرہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: "وَعُنِيَ بِطَلَبِ الآثَارِ، وَارْتَحَلَ فِي ذَلِك..... فَإِنَّ الإِمَامَ أَبَاحَنِيْفَةَ طَلَبَ الحَدِيْثَ، وَأَكْثَرَ مِنْهُ فِي سَنَةِ مائَةٍ وَبَعدَهَا"۔ (سیراعلام النبلاء:۶/۳۹۶،۳۹۲، امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبیؒ، موسسۃ الارسالۃ، بیروت) امام صاحبؒ نے طلبِ حدیث کی جانب توجہ کی اور اس کی خاطر سفر کیا، بالخصوص سنہ۱۰۰ھ اور اس کے بعد کے زمانہ میں اس اخذ وطلب میں بہت زیادہ سعی کی۔ نیز علامہ ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نےمقدمہ اعلاء السنن میں لکھا ہے: "وانہ کان إذورد فی بلدتہ واحد من المحدثین اشتاق الی السماع منہ مع رحلتہ لطلب الحدیث الی مکۃ والمدینۃ والبصرۃ"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۹، ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراچی) اور آپ کے شہر کوفہ میں جب بھی کوئی محدث آتا توآپ بڑے ذوق وشوق سے اس کے پاس جاتے اور ان سے حدیث سنتے؛ اسی پر بس نہیں کیا؛ بلکہ آپ نے طلبِ حدیث کے لیے مکہ، مدینہ اور بصرہ کا بھی سفر کیا۔ امام صاحب کے زمانہ میں علم حدیث کے مراکز کوفہ، بصرہ، مکہ اور مدینہ ہی سمجھے جاتے تھے اور ان شہروں کوعلمی حیثیت سے ایک ممتاز مقام حاصل تھا اور آج کل کی اصطلاح میں کہہ لیجئے کہ یہ سارے شہر اپنی اپنی جگہ جامعہ کی حیثیت کے حامل تھے، امام صاحب نے ان شہروں کاسفر کیا اور علمِ حدیث کی تحصیل کی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چاروں شہروں کی علمی چہل پہل اور خاص طور سے علم حدیث کے ساتھ ان کی شیفتگی کومختصر انداز میں بیان کردیا جائے ۔ کوفہ جہاں تک کوفہ کی بات ہے تویہ خود امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مولد ومسکن ہے؛ نیزیہ اسلامی تمدنی زندگی کا سب سے اہم گہوارہ تھا، اطراف واکناف سے اہلِ علم وفضل وہاں آتے رہتے تھے؛ حتی کہ بہتوں نے وہیں مستقل قیام بھی فرمالیا تھا، کوفہ میں جب بھی کوئی محدث آتا توآپ یاتوخود ان کے پاس علمِ حدیث کے لیے جاتے یااپنے شاگردوں کواس کی تلقین فرماتے اور جوحدیث آپ کے پاس نہ ہوتی، اسے نہایت ذوق وشوق سے حاصل کرتے؛ چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ نظر بن محمدقریشی المروزی (جوامام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ہیں) کہتے ہیں ہمارے پاس یحییٰ بن سعید انصاری، ہشام بن عروہ اور سعید بن ابی عروبہ آئے توہم سے امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: "دیکھو! ان کے پاس ایسی حدیثیں ہیں، جوہمارے پاس نہیں ہیں"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۲۔۲۹، ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ، ادارہ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراچی) آپ کا یہ رویہ صرف انہی حضرات کے ساتھ خاص نہ تھا؛ بلکہ جومحدث بھی شہر کوفہ آتے آپ ان سے احادیث سننے کے مشتاق رہا کرتے تھے؛ چنانچہ علامہ ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "اذا وَرَدَ فِیْ بَلْدَتِہِ وَاحِد مِنَ الْمُحَدِّثِیْنَ إِشْتاق إِلَی السِّمَاعِ مِنْہُ"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۲۔۲۹، ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ، ادارہ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراچی) جب بھی کوئی محدث شہرکوفہ آتے توآپ ان سے سماع حدیث کے مشتاق ہوتے تھے۔ بصرہ امام صاحبؒ کی تحصیل حدیث کا دوسرا مدرسہ بصرہ تھا، آپ نے بیس مرتبہ سے زیادہ شہر بصرہ کا سفر کیا تھا اور اکثر سال بھر کے قریب وہاں قیام رہتا تھا (مناقب الامام الاعظمؒ:۱/۵۹، صدرالائمہ موفق بن احمد مکی) بصرہ میں نامور اساتذہ وشیوخ سے علم حدیث حاصل فرمایا، امام ابوحنیفہؒ کوگرچہ ان دونوں درسگاہوں سے حدیث کا بڑا ذخیرہ ہاتھ آگیا تھا؛ تاہم تکمیلِ سند کے لیے حرمین شریفین کا سفر کرنا ناگزیر سمجھا، جوعلمِ حدیث کے اصل مراکز تھے؛ چنانچہ آپ نے طلبِ حدیث کے شوق میں حرمین شریفین کا بھی سفر کیا۔ مکہ مکرمہ حرمین شریفین میں مکہ مکرمہ کوجواہمیت ہے وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں، حج وعمرہ کے لیے لوگوں کاوہاں بار بار آنا اور وہاں کے مقامات مقدسہ کی زیارت سے ایک خاص قسم کا سرورمحسوس ہونا ایک بدیہی امر ہے؛ اسی وجہ سے وہاں اہلِ علم کی آمد کثرت سے ہوا کرتی تھی، آپ مکہ مکرمہ ہی میں امام اوزاعی اور مکحول شامی سے ملاقات کی، ان سے تعارف ہوا اور ان کے درس حدیث سے استفادہ کیا، حضرت عطاء بن رباح کے درس سے بھی خوب خوب استفادہ کیا، آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نے پچپن حج کئے اور اکثر حج میں زیادہ مدتوں تک قیام کرتے اور عالم اسلام سے آئے ہوئے محدثین سے بھرپور استفادہ کرتے۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ اتنی کثرت سے حج کرنے کا مقصد استفادہ کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے، علاوہ ازیں سنہ۱۳۰ھ سے خلیفہ منصور عباسی کے زمانہ تک، جس کی مدت چھ سال کی ہوتی ہے، آپ کا مستقل قیام مکہ معظمہ ہی میں رہا، ظاہر ہے کہ اس دور کے طریقۂ رائج کے مطابق دورانِ حج اور اس چھ سالہ مستقل قیام کے زمانہ میں آپ نے شیوخ حرمین اور واردین وصادرین اصحاب حدیث سے خوب خوب استفادہ کیا ہوگا، طلبِ حدیث کے اسی والہانہ اشتیاق اور بے پناہ شغف کا ثمرہ ہے کہ آپ کے اساتذہ وشیوخ کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی؛ پھران چار ہزار اساتذہ سے آپ نے کس قدر احادیث حاصل کیں، اس کا کچھ اندازہ مشہور محدث حافظ مسعر بن کدام کے اِس بیان سے کیا جاسکتا ہے، جسے امام ذہبیؒ نے مناقب امام ابی حنیفہؒ میں نقل کیا ہے: "طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الذھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون"۔ (مجموعہ رسائل:۱/۳۲۰۔۳۲۱) میں نے امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی؛ لیکن وہ ہم پر غالب رہے اور زہد میں مشغول ہوئے تووہ اس میں بھی ہم پر فائق رہے اور ہم نے ان کے ساتھ فقہ طلب کی تواس میں ان کا کمال تم سے مخفی نہیں۔ مدینہ منورہ مدینہ منورہ کوحضورﷺ کے جائے قیام اور دینی مرکز ہونے کے لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت ہے، وہ حدیث کا منبع ومخزن تھا، آپ کے سفرمدینہ کے وقت فقہاء سبعہ میں سے حضرت سلیمانؓ (جوام المؤمنین میمونہؓ کے غلام تھے) اور حضرت سالمؓ (جو حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے) باحیات تھے، امام صاحبؒ نے دونوں کی خدمت میں حاضری دی اور علمِ حدیث حاصل کیا، امام صاحب کی طالب العلمی کی مسافت گرچہ مدینہ منورہ تک محدود ہے؛ مگرطلبِ علم کا سلسلہ اخیرزندگی تک قائم رہا؛ اکثرحرمین جاتے اور مہینوں قیام فرماتے؛ نیزمدینہ ہی میں امام باقرؒ کی خدمت میں پہنچ کرحدیث حاصل فرمایا اور ایک زمانہ تک آپ سے مستفید ہوتے رہے؛ اسی پر بس نہیں؛ بلکہ ان کے فرزند رشید جعفر صادق سے بھی بہت استفادہ کیا۔ (امام ابوحنیفہ:۳۹۔ سیرۃ النعمان:۲۴۔۳۴۔ سیرۃ ائمہ اربعہ:۴۳۔ مسندامام اعظمؒ:۱۷۔۲۴) ان کے علاوہ آپ کے اور بڑے بڑے شیوخ حدیث ہیں کہ جن سے آپ نے حدیث کی تحصیل فرمائی، آپ علمِ حدیث کی تحصیل میں چھوٹے بڑے کا خیال نہیں فرماتے؛ بلکہ جس کے پاس بھی حدیث ہوتی ان سے حاصل کرتے؛ چنانچہ امام مالک اور شیبان نحوی یہ دونوں عمر میں آپ سے چھوٹے تھے؛ لیکن ان سے بھی علم حدیث حاصل کرنے میں آپ بالکل نہ شرماتے؛ بلکہ ایک کم عمر اور چھوٹے طالب علم کی طرح بڑے ادب سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور علمِ حدیث حاصل کرتے۔ (شامی:۱/۴۶، محمدامین الشہیربابن عابدین، دارالکتاب العلمیۃ، بیروت۔ سیراعلام النبلاء:۶/۳۹۲، امام شمس الدین حمد بن احمد ذہبی، موسسۃ الرسالۃ، بیروت۔ مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۹، ظفراحمدعثمانیؒ، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراچی)