انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوریؒ (۱)صحیح علم کی تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ تک پہونچادے "علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالتست " جو علم کہ حق تعالیٰ تک نہ پہونچائےوہ جہالت ہے ، اور اس کا نام صنعت و حرفت ہے ، علم اس کا نام ہی نہیں ۔ (۲)علمِ حقیقی کی دولت جس کو عطا ہوجاتی ہے اس کے سامنےہفت اقلیم کی طاقت گَرد ہوجاتی ہے ۔ (۳)تمام علوم کی روح یہی ہے کہ آدمی کی عاقبت اور آخرت کی زندگی درست ہوجائے ۔ (۴)جو عالم علم کی نعمت کو دنیا کی نعمتوں کے عوض فروخت کرتا پھرے تو سمجھ لو کہ اس کو حقیقی علم نہیں عطا ہوا ہے ۔ (۵)جو شخص خارجِ نماز میں اپنے اعضاء کی جس قدر حفاظت کرتا ہے اور گناہوں کی گندگی سے پاک رکھتا ہے اسی قدر داخلِ نماز میں اس کو اللہ تعالی ٰ کے ساتھ ایک خاص حضوری اور خشوع میسر ہوتا ہے ۔ (۶)اطمینانِ قلب بدون ذکر اللہ کے میسر نہیں ہوتا ، کیوں کہ دل کے خالق نے اس کی غذا صرف اپنی یاد رکھی ہے ارشاد فرماتے ہیں "ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب "خوب غور سے سنو ! کہ دلوں کو اطمینان صرف میری ہی یاد سے میسر ہوتا ہے ۔ (۷)حیاتِ طیبہ یعنی ستھری زندگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلاؤ قورمہ کھانے کو ملتا رہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزرتی رہے ، اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے دل چین و سکون میں رہتا ہے اگرچہ بظاہر اسباب تکلیف ہی کے کیوں نہ ہوں۔ (۸)دین سراپا رحمت اور سراپا نعمت ہے ، دین کا ہر قانون محبت کی حلاوت رکھتا ہے ، لیکن دین کی حلاوت اور مٹھاس کو ان سے پوچھو جن کے دل میں دین کی حلاوت ہے ، جنہوں نے اپنے کو اور اپنے اللہ کو پہچان لیا ہے ، یعنی اپنا بندہ ہونا جان لیا ہے اور حق تعالیٰ کا معبود ہونا سمجھ گئے ہیں ، دین انعام ِ الٰہی ہے، اور انعام کی قدر اسی کو ہوتی ہے جو انعام سے نوازا جاتا ہے ، پس انعام والے بندوں کی صحبت اختیارکرنےسے دین کی اور اللہ کی قدر معلوم ہوتی ہے ۔