انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پرایک نظر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت کوجس کا زمانہ بیس سال ہے، ضرور کامیاب سلطنت کہا جاسکتا ہے؛ کیونکہ ان کے زمانہ خلافت میں کوئی مدعی سلطنت اور ان کا رقیب ان پرخروج نہیں کرسکا، ان کے زمانے میں مشرق، مغرب، شمال، جنوب ہرطرف اسلامی حکومت کے رقبہ نے وسعت پائی، کوئی ملک اور کوئی علاقہ سلطنتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، کوئی ایسی بغاوت اس عرصہ میں نہیں پھوٹی جوقابل تذکرہ ہو، ملک میں ڈاکہ زنی اور شورش جیسی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عراق وایران کے اندر پائی جاتی تھی، باقی نہیں رہی مسلمانوں نے بحری لڑائیاں لڑنی شروع کیں اور مسلمانوں کی بحری طاقت کا لوہا بھی رومیوں اور عیسائیوں نے مانا، ان کے زمانے میں زیاد بن ابی سفیان اور بعض دوسرے عالموں نے عراقیوں اور ایرانیوں پرکسی قدر سختی اور تشدد کوروا رکھا؛ لیکن ان عراقیوں اور ایرانیوں پراگریہ سختی اور تشدد نہ ہوتا توظلم تھا اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا ایک نقص سمجھا جاتا، مسلمانوں پرسب سے پہلے امیرمعاویہ نے برید مقرر کئے اور ان کے لیے ایک نظام اور آئین مقرر فرمایا جس کومحکمہ ڈاک کہا جاتا ہے، سب سے پہلے احکام پرمہرلگانے اور ہرحکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ انھوں نے ایجاد کیا اور امیرمعاویہ کی مہر پر لِکُلِّ عَمَلٍ ثَوَابٌ کندہ تھا۔ خانہ کعبہ پراب تک خلاف پہلے غلافوں کے اوپر ہی چڑھائے جاتے تھے؛ انھوں نے تمام غلافوں کواُتروادیا اور حکم دیا کہ جب نیا غلاف چڑھایا جائے توپرانا غلاف اُتارلیا جائے، اسلام میں سب سے پہلے امیرمعاویہ ہی نے پہرہ دار اور دربان مقرر کیئے؛ انھوں نے ہی سب سے پہلے محکمۂ ڈاک ورجسٹری قائم کیا، سب سے پہلے انہوں نے ہی جہازات بنائے اور بحری فوج تیار کی۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنی حکومت قائم کرنے اور اپنی قوم اور خاندان کے اقتدار کوبنوہاشم پرفائق کرنے کے ضرور خواہش مند تھے؛ لیکن ساتھ ہی وہ اپنی اس خواہش کے پورا کرنے میں کسی ایسے شخص کوچیرہ دستی کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے، جوبنوامیہ اور بنوہاشم یامعاویہ رضی اللہ عنہ اور علی دونوں کا یکساں دشمن ہویاسلطنتِ عثمانیہ کونقصان پہنچانا چاہتا ہو؛ چنانچہ ایک مرتبہ جب کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مخالفت کی آگ مشتعل تھی، عیسائیوں کی ایک زبردست فوج نے ایران کے شمالی صوبوں پرجوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت میں شامل تھے، حملہ کرنا اور مسلمانوں کی نااتفاقی سے خود فائدہ اُٹھانا چاہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس علاقے کوجس پرعیسائیوں کا حملہ ہونے والا تھا، بچانے کی کوشش نہیں کرسکتے تھے؛ اگرعیسائیوں کا یہ حملہ ہوتا توسلطنتِ اسلامیہ کا ایک وسیع ٹکڑا کٹ کرعیسائی حکومت میں شامل ہوجاتا، عیسائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مشکلات سے واقف اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مطمئن تھے؛ کیونکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت اور ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائی بھی وہ دیکھ رہے تھے، ان کوتوقع تھی کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہماری حملہ آوری سے خوش ہوں گے، جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف کی جائے گی؛ لیکن حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خبر کے سنتے ہیں عیسائی قیصر کی توقع کے خلاف ایک خط قیصر کے نام بھیجا، جس میں لکھا تھا کہ ہماری آپس کی لڑائی تم کودھوکے میں نہ ڈالے؛ اگرتم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رُخ کیا توعلی رضی اللہ عنہ کے جھنڈے کے نیچے سب سے پہلا سردار جوتمہاری گوشمالی کے لیئے آگے بڑھے گا وہ معاویہ ہوگا، اس خط کا اثر اس سے بھی زیادہ ہواجوایک زبردست فوج کے بھیجنے سے ہوتا اور عیسائیوں نے اپنا ارادہ فسخ کردیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہما کی مخالفتوں کی وہ حیثیت اور وہ حقیقت ہرگز نہ تھی جوآج کل جہالت کی وجہ سے مسلمانوں میں مشہور ہے، اس کا صحیح اندازۃ کرنے کے لیئے ہم کویہ بات فراموش نہیں کردینی چاہیے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے مصاحب تھے اور امیرمعاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے فارس کے گورنر مقرر تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوزیاد بن ابی سفیان پرپورا اعتماد تھا اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کوعقیل بن ابی طالب سرِدربار برا بھلا کہہ سکتے تھے اور ہمیشہ امیرمعاویہ کی طرف سے مورد الطاف رہتے تھے۔